بیوی کا شوہر سے انوکھا مکالمہ

یوسف-2

محفلین
میں: آپ کبھی دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں تو کبھی رات میں؟ پھر آپ کی ہفتہ وار چھٹیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ باقی سب لوگ تو ہمیشہ دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں اور ان کی ہمیشہ سنیچر اتوار ہی کو چھٹی ہوتی ہے۔

وہ: اری او نیک بخت! تجھے تو پتہ ہے کہ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں جبکہ باقی لوگ دفتروں میں کام کرتے ہیں۔ دفتر صبح نو بجے کھلتا ہے اور شام پانچ بجے بند ہوجاتا ہے۔ ہر دفتر سنیچر اتوار کے علاوہ سرکاری تعطیلات پر بھی بند رہتا ہے۔ جبکہ ہماری فیکٹری میں تو چوبیس گھنٹہ کام ہوتا ہے۔ ہفتہ اتوارکے علاوہ سرکاری تعطیلات میں بھی ہماری فیکٹری بند نہیں ہوتی۔

میں: فیکٹریوں میں چوبیس گھنٹہ کام کیوں ہوتا ہے؟ یہ لوگ رات کو اور چھٹیوں والے دن فیکتری بند کیوں نہیں کرتے؟

وہ: اس دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض فیکٹریاں اتنی آسانی سے بند اور کھولی نہیں جاسکتیں۔ جیسے آئل ریفائنریز، مصنوعی کھاد کی فیکٹریاں، اور اسی طرح کی دوسی ہیوی کیمیکلز انڈسٹریز کو اسٹارٹ کرنے اور پروڈکٹ بنانا شروع کرنے میں ہی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اسی لئے اسے روزانہ بند نہیں کیا جاتا بلکہ ایک بار اسٹارٹ ہوجائے تو مسلسل چلایا جاتا ہے۔ یہ صرف خرابی یا مرمت کی صورت میں بند ہوتا ہے۔

میں: اور دوسری وجہ؟

وہ: دوسری وجہ ہم لوگوں کی "ضرورت" ہے۔ جیسے ہمیں بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤسز۔ ریلوے، جہاز، بڑے ہوٹلز، پولس کا محکمہ، ان کی خدمات معاشرے کو ہر وقت درکار ہوتی ہے۔ خواہ دن ہو یا رات، عید بقرعید ہو یا دیگر سرکاری تعطیلات، ان محکموں کا آپریشنل ڈپارٹمنٹ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے، فیکٹری کی طرح۔

میں: پھر ان ادارون میں لوگ چھٹی کیسے کرتے ہیں؟

وہ: اب مجھے ہی دیکھ لو، میں دو دن علی الصباح ڈیوٹی پہ جاتا ہوں، پھر دو دن دوپہرکو تو اگلے دو دن رات کو۔ اور چھہ دن کی ڈیوٹی کے بعد دو دن کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ میں جس پوسٹ پہ کام کرتا ہوں، اسی پوسٹ پہ کل چار آدمی کام کرتے ہیں۔ آٹھ آٹھ گھنٹہ کی تین شفٹوں میں تین لوگ باری باری کام کرتے ہیں جبکہ چوتھا فرد چھٹی پہ ہوتا ہے۔ اس طرح فیکٹریز اور لازمی سروسز کے ادارے چوبیس گھنٹے اور سال بھر خدمات بھی فراہم کرتے ہیں اور ہر فرد کو آٹھ گھنٹہ روزانہ ڈیوٹی دینے کے بعد ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی ملتی ہیں۔

میں: ہممم تو گویا آپ لوگوں کے لئے دن بھر میں صرف آٹھ گھنٹہ کام اور باقی اوقات تفریح یا آرام اور ہر ہفتہ دو دن کی اضافی تعطیلات بھی۔ سالانہ اور بیماری کی تعطیلات اس کے علاوہ

وہ: ہاں یہ تو ہے

میں: اور ہم عورتوں کے لئے؟؟؟

وہ : کیا مطلب ؟؟؟

میں: میرا مطلب ہے کہ ہم خواتین خانہ یعنی ہاؤس وائفز کے اوقاتِ کار کا کیا حساب کتاب ہے؟ ہم دن بھر میں کتنے گھنٹہ کام کریں؟ ہفتہ میں کتنے دن کی چھٹی کریں؟ کیا ہمارے لئے کام کا دورانیہ نہیں ہونا چاہئے یا ہم چند گھنٹہ سونے کے علاوہ باقی تمام گھنٹہ مسلسل کام کریں؟ اور وہ بھی بغیر ھفت وار تعطیلات کے؟

وہ (مسکراتے ہوئے): بھئی تم لوگ تو عورتیں ہو۔ تم لوگوں کے کام کے اوقات بھلا کیسے مقرر کوسکتے ہیں۔ تمہیں تو گھر میں کام کرنا ہی پڑتا ہے؟

میں: کیا ہم لوگ انسان نہیں؟

وہ: انسان تو ہو

میں: پھر ہم لوگ کیا جسمانی طور پر مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟

وہ: نہیں ایسا بھی نہیں ہے

میں: پھر ہم لوگ مسلسل اٹھا رہ اٹھارہ گھنٹہ کام کرتی رہیں۔ دن رات کی تمیز کے بغیر، بغیر ہفت وار تعطیلات کے، بغیر سالانہ چھٹیون کے، بغیر بیماری کی تعطیلات کے

وہ: بھئی میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔

میں: یہی کہ ہم بھی اگر انسان ہیں اور آپ مردوں سے جسمانی طور پر کمزور بھی تو ہم بھی دن میں آٹھ گھنٹہ ہی کام کریں اور بقیہ سولہ گھنٹہ آرام اور تفریح اور ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی تاکہ اپنے میکہ یا کسی عزیز رشتہ دار یا سہیلیوں کے گھر ملنے جلنے جاسکیں، کوئی کام کئے بغیر یہ دو دن گزار سکیں۔

وہ: لیکن یہ ہوگا کیسے؟ پھر گھر کون دیکھے گا؟ بچوں کو کون دیکھے گا؟ کھانا کون پکائےگا؟ اور سب سے بڑھ کر (مسکراتے ہوئے) ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟؟ اگر تم نے بھی فیکٹری ورکر کی طرح گھنٹوں کا حساب کتاب کرن شروع کردی تو؟؟؟

میں: یہ میں آپ کو کل بتاؤں گی۔ آج آپ سوچئے کہ کیا آپ مرد لوگ ہم عورتوں کے ساتھ کام کے سلسلہ مین ظلم نہیں کر رہے۔ ساری آسانیاں اپنے لئے اور کام اور کام صرف ہم عورتون کے لئے؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
میں: شادی سے قبل گھر میں ہم لوگ سب مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ ہم چار بہنیں ہیں۔ امی نے بچپن ہی سے گھر کے کام سارے بہنوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔ اس طرح گھر کے کام کا بوجھ کسی ایک پر نہیں پڑتا تھا اور امی بھی ریلکس رہتی تھیں؟

وہ: (مسکراتے ہوئے) پھر ٹھیک ہے جب ہماری بھی چار بیٹیاں ہوجائیں گی تو تم بھی ۔۔۔

میں: اللہ آپ میری سنجیدہ بات کو مذاق میں نہ ٹالیں۔ ابھی تو ہماری شادی کو چند ہی مہینے ہوئے ہیں اور آپ رہتے بھی فیکٹری کی کالونی میں ہیں۔ یہاں تو میرے اِن لاز بھی نہیں ہیں ۔۔۔

وہ: یہ تو تمہارے لئے خوشی کی بات ہے کہ تم گھر کی بلا شرکتِ سسرال مالکہ ہو ۔۔۔

میں: کیا آپ نے مجھے روایتی بہو سمجھ رکھا ہے جو ۔۔۔ میں سسرال والوں اور میکہ والوں میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ دونوں ہی میرے لئے یکساں محترم ہیں۔

وۃ: بھئی یہ تو مجھے معلوم ہے، میں توذرا مذاق کر رہا تھا کہ ۔۔۔

میں: لیکن میں اس وقت مذاق نہیں ایک سنجیدہ گفتگو کر رہی ہوں ۔ آپ بتلا رہے تھے کہ شادی سے قبل سیلاب زدگان کی مدد کے لئے سندھ کے مختلف کیمپوں میں بھی کئی ہفتے رہ کر کام کرچکے ہیں۔

وہ: بھئی وہ تو ہم سب کا فرض تھا۔ میں نے تو طالب علمی کے دور میں زلزلہ زدگان کے لئے بھی امدادی مہم میں حصہ لیا تھا۔ قومی مشکلات میں ہم سب کو ایسی مہمات میں ضرور حصہ لینا چاہئے۔

میں: اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول کرے۔ میں یہی کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ مردوں کو یہ خوب سہولت حاصل ہے کہ جب چاہا اوروں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور ثواب سمیٹ لئے جبکہ ہم خواتین ۔۔۔

وہ: چلو آئندہ کبھی ایسا موقع ملا تو ۔۔۔

میں: آپ میری بات کو مذاق میں نہ اڑائیں۔ میں جو کہہ رہی ہوں اسے غور سے سنیں ۔۔۔

وہ: بھئی سن تو رہا ہوں۔ اب کیا شادی کے بعد بولنا بالکل بند ہی کردوں اور صرف سنتا ہی رہوں

میں: میں نہیں بولتی ۔۔۔۔ آپ ہر بات کو ۔۔۔

وہ: ارے نہیں نہیں۔۔۔ یہ لو میں خاموش ہوگیا ۔۔۔ اب تم اپنی ساری باتیں ایک ساتھ کہہ ڈالو

میں: مجھے بہت ساری باتیں کرنے کا شوق نہیں۔ مین تو صرف دو باتیں کہنا چاہ رہی ہی ہوں اور آپ ہیں کہ بیچ بیچ میں ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شادی سے قبل ہم گھر میں بہنیں اور امی پانچوں مل جل کر سارے گھر کا کام کیا کرتی تھیں۔ گھر کے سارے کام بھی بآسانی ہوجاتے تھے اور ہم سب بہنوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور سب نے اپنے اپنے شوق بھی پورے کئے

وہ: مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تم ایک بھرے گھر سے آئی ہو اور یہاں تنہا گھر بھر کا کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کہو تو گھر کے کام کاج کے لئے کوئی ملازمہ رکھ دوں ؟

میں: مجھے ملازمہ رکھ کر کام کروانا بالکل پسند نہیں۔۔۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ کوئی میرا اپنا ہر دم میرے ساتھ رہے۔

وہ: بھئی وہ امی جان تو تمہیں پتہ ہے کہ یہاں نہیں رہ سکتیں، ابو ان کے بغیر تنہا رہ جاتے ہیں،

میں: میں نے یہ تو نہیں کہا ۔۔۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ جس طرح آپ اکثر و بیشتر لوگوں کی بھلائی کے کام کرتے رہتے ہیں، دوسروں کے کام آتے رہتے ہیں۔ میں بھی کوئی ایسا نیکی کا کام کروں کہ کسی کا بھلا ہوجائے۔

وہ: (غصہ سے) ایک تو تم عورتوں کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ابھی گھر کے کاموں کا رونا تو ابھی نیکی اور سماجی کام کرنے کا شوق۔ تم ایک وقت میں ایک بات نہیں کرسکتیں کہ تمہا ری اصل پرابلم کیا ہے؟

میں: (مسکراتے ہوئے) آپ غصہ میں بھی اچھے لگتے ہیں ۔۔۔ میرا ایک نہیں دو مسئلہ ہے۔ میں لوگوں کے ساتھ بھلائی بھی کرنا چاہتی ہوں اور اپنا ذاتی مسئلہ بھی حل کرنا چاہتی ہوں۔ اسے کہتے ہی ایک تیر سے دو شکار۔۔۔

وہ: میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔

میں: اصل میں میری ایک کزن ہے، جو اتنی اچھی ہے کہ کیا بتلاؤں۔ لیکن اس کے میاں نے شادی کے تیسرے ہی مہینے طلاق دیدی۔ لڑکا غلط نکلا۔ تب سے انکل آنٹی تو پریشان ہیں ہی، لیکن میری بہنوں جیسی کزن نے تو جیسے سنیاس لے لیا ہے۔ نہ کھا نے پینے کا ہوش نہ پہننے اوڑھنے کا ۔ اوراب تو وہ کسی سے ملتی جلتی بھی نہیں۔ میں اُس کے بارے میں بہت سوچتی ہوں کہ ۔۔۔

وہ: بڑا افسوس ہوا تمہرای کزن کا سن کر۔ اصل میں بعض لڑکے ہوتے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ رشتہ دیکھ بھال کر کرنا چاہئے۔۔۔۔ لیکن تم تو اپنا دکھڑا رو رہی تھی، گھر کے کاموں کا رونا پھر سماجی خدمت کا شوق ۔ بیچ مین اپنی اس کزن کو کیوں لے آئیں۔ تم بھی نا باتیں کرتے کرتے بہک جاتی ہو ۔۔۔

میں: اصل مین نا! میں یہ چاہ رہی تھیں کہ وہ ہمارے گھر آجائیں۔ اللہ کتنا اچھا ہوگا ہم دونوں بہنیں مل جل کر رہیں تو، میری تنہائی بھی ختم ہوجائے گی اور کام کاج کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا

وہ: اس میں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ لیکن کیا تمہارے آنٹی اور انکل تمہاری کزن کو ہمارے گھر رہنے کی اجازت دے دیں گے۔ اور کیا خود تمہاری کزن اس بات پر راضی ہوجائے گی ۔۔۔

میں: ہاں! ہاں! سب راضی ہوجائیں گے، میں سب کو منا لوں گی، بس آپ راضی ہو جائٰیں تو ۔۔۔ ؟

وہ: بھئی میں نے کہہ تو دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر وہ لوگ ۔۔۔

میں: تو کیا آپ میری کزن سے نکاح پر راضی ہیں ؟
 

یوسف-2

محفلین
وہ: کیا ؟؟؟ یہ نکاح والی بات بیچ میں کہاں سے آگئی ؟

میں: تو آپ کے خیال میں میری کزن ایسی گئی گزری ہے کہ ۔۔۔

وہ: میں نے یہ کب کہا کہ ۔۔۔

میں: اگر آپ کو اپنے دفتر جانے کے بعد میری تنہائی اور کام کاج کے بوجھ کا ذرا بھی خیال ہے تو میری کزن سے شادی کر لیں۔ اس طرح مجھے بھی ایک نیکی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میری کزن کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اور۔۔۔ اور (مسکراتے ہوئے) آپ کے تو مزے ہی مزے۔ مفت میں دوسری بیوی بھی مل جائے گی۔

وہ: (غصہ سے) دیکھو میں اس قسم کا مرد نہیں ہوں، جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔۔

میں: ارے بابا، میں تو مذاق کر رہی تھی۔ کیا مجھے مذاق کرنے کا حق نہیں ہے۔

وہ: تو گویا یہ سب کچھ مذاق تھا ؟؟؟

میں: نہین سب کچھ نہیں، بس آپ ہاں کردیں۔ میری بات مان لیں۔ میری کزن سے نکاح کرلیں۔ ہم دو مل کر آپ کی بہتر خدمت بھی کریں گی اور گھر میں بہنوں کی طرح مل جل کر گھر کو سجا سنوار کر رکھیں گی۔ پھر ہم دونوں پر کام کا بوجھ بھی نہی ہوگا اور ہم بھی آپ کی طرح دن میں آتھ دس گھنٹہ کام کے ساتھ ہفتہ وار تعطیل پر اپنے اپنے میکہ بھی جا سکیں گی، آپ کو تنہا چھوڑے بغیر۔۔۔

وہ: اوہ تو یہ بات تھی۔ اس کے لئے اتنا گھما پھرا کربات کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

میں: تاکہ آپ کی سمجھ میں آسکے کہ ساری عورتیں احمق نہیں ہوتیں کہ ساری عمر اکیلی گھر کی چکی پیستی رہیں اور مرد عیش کرتے رہیں۔ ہمیں بھی برابر عیش کرنے کا حق ہے۔ اور اس کا یہ واحد شریفانہ طریقہ ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی دوسری شادی اپنے خاندان کی مجبور و بے کس خواتیں سے کروا دیں۔ اس طرح ایک تو دوسری بیوی ممنون ہوگی اور کبھی بھی پہلی بیوی کو سوکن نہین سمجھے گی۔ دوسرے دونوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور شوہر کے لئے اس سے بہتر تحفہ کیا ہوگا کہ اسے پہلی بیوی مفت میں دوسری بیوی بھی لادے

وہ؛ دیکھو تم پھر مجھے ۔۔۔

میں: میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی، تو میں جا کر آنٹی سے بات کروں نا ؟

وہ: لیکن مجھے بھی تو اپنے والدین سے بات کرنا ہوگی، پھر تمہارے والدین کو بتلانا ہوگا کہ تم کیا کرنے جارہی ہو۔۔۔

میں: آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ میرا مسئلہ ہے۔ میرے والدین کو مجھ پر اعتماد ہے، انہین پہلے سے بتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ بھی ابھی سے کسی کو کچھ نہ بتلائیں۔ آپ کون سی کوئی کنواری لڑکی ہیں کہ نکاح کے لئے ولی کی اجازت چاہئے آپ کو

وہ: بھئی جو تمہاری مرضی، بعد میں اگر لڑائی جھگڑا ہوا نا تو ۔۔۔

میں: کچھ نہیں ہوگا، یہ میری ذمہ داری ہے۔ جب میں ہی کسی سے نہیں لڑوں گی تو کوئی مجھ سے کیسے لڑے گا اور میری کزن تو اتنی اچھی ہے کہ اس سے نکاح کرکے آپ مجھے بھی بھول جائیں گے یہ الگ بات ہے کہ میں آپ کو ایسا کرنے نہیں دوں گی

وہ: کاش ساری بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں تو ملک میں عورتوں کی شادی کا مسئلہ ہی نہ رہے۔ بیوہ اور مطلقہ جلد از جلد کسی شریف گھرانے میں دوسری بیوی بن کر خوش و خرم زندگی گذارنے لگے۔ اسی طرح ان لڑکیوں کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے، جن کی بوجوہ شادی نہیں ہوپاتی۔ اور وہ اووَر ایج ہوکر اپنے ماں باپ کے گھر خوف و یاس کی زندگی گذارتی ہیں۔ پھرہر سوسائٹی میں فیمیلز کی تعداد بھی میلز سے زائد ہے۔ خود پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں فیمیلز، میلز ساے زائد ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک لیکچر میں کہہ رہے تھے کہ جب تک مسلمان مردوں میں سے کچھ لوگ دوسری شادی نہ کر لیں ساری خواتین کی شادی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بالخصوص بیوہ، مطلقہ اور اووَر ایجڈ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ۔ اللہ تمہاری طرح تمام بیویوں کو عقل سلیم عطا کرے اور اپنا ذاتی شوہر دوسری مجبور و محروم بہنوں کے ساتھ شیئر کرنے کی توفیق دے

میں: آمین۔ ثم آمین
 

یوسف-2

محفلین
وہ : لیکن ایک بات پھر بھی حقیقت ہے۔

میں: وہ کیا؟

وہ: جن مردوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں، ان کی گھریلو زندگیاں لازما" مشکلات کا شکار ہیں۔ لڑائی جھگڑا تو معمول کی بات ہے۔ ایسے میں ایک شریف مرد کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اکثر ڈراموں فلموں اور کہانیوں میں بھی اسی بات کو نمایاں کیا جاتا ہے

میں: آپ کے مشاہدہ اور مطالعہ سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن یہ تصویر کا ایک ہی رُخ ہے۔

وہ: کیا مطلب؟

میں: جہاں تک ڈراموں، فلموں اور کہنایوں کا تعلق ہے تو ان کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹرسب کے سب غیر اسلامی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ مغرب کے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرد کو شادی صرف اور صرف ایک ہی کرنی چاہئے، گرلز فرینڈز چاہے جتنی مرضی رکھ لیں۔ یہ لوگ نام کے مسلمان ہوتے ہیں اوراللہ نے مردوں کو ایک سے زائد شادی کی جو اجازت دی ہے، وہ ان کے دل سے مخالف ہی ہیں۔ اسی لئے اپنی کہانیوں اور ڈراموں میں جان بوجھ کر دوسری شادی کرنے والوں کو مشکل میں گھرا دکھلاتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ عام معاشرے میں بھی وہی گھرانےدوسری شادی سے پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں، جہاں میاں بیوی دونوں دین سے دور ہوتے ہیں اور ایسے گھرانوں کی اکثریت ہونے کے باعث میڈیا میں انہی کو زیادہ پرجیکشن ملتی ہے۔ جبکہ دین دار گھرانوں میں اگر کوئی مرد ایک سے زائد شادی کرتا ہے تو وہاں اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوتیں۔ اور ایسے گھرانوں کے مشاہدات پر کوئی قلم بھی نہیں اٹھاتا۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ زیادہ تر مرد از خود اپنی پسند سے دوسری شادی کرتا ہے۔ یا پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اس سے زیادہ حسین اور کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے۔ چنانچہ دونون بیویوں میں کبھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوپاتی۔ وہ ایک دوسرے کو سوکن بلکہ دشمن گردانتی ہیں اور دونوں کا سارا زور شوہرکو اپنی طرف کھینچنے میں صرف ہوتا ہے۔ جس سے گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے اور مرد پریشان ہوجاتا ہے۔ میرا نسخہ اس کے بر عکس ہے کہ پہلی بیوی از خود اپنی مرضی سے اپنے خاندان یا احباب میں سے مجبور و بے کس مگر قابل اعتبار مطلقہ، بیوہ یا ایسی خواتین سے اپنے شوہر کا نکاح پڑھوائیں جن کی شادی نہ ہو رہی ہو۔ اور وہ ایسا نیک نیتی سے اجر و ثواب کے لئے کریں۔ اس طرح مرد کی دوسری شادی سے دونوں بیویوں میں لڑائی جھگڑا کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ بلکہ دونوں متحد ہوجائیں تو شوہر کی طرف سے کسی بھی قسم کے ناروا سلوک کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔

وہ: تو تمہیں مجھ پر بھی شک ہے کہ کہیں میں تم سے ناروا سلوک نہ کروں، اسی لئے اپنی حفاظت کے لئے ۔۔۔

میں: ارے نہیں نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے کبھی ایسا کوئی خدشہ لاحق ہو۔ میں تو ایک عام بات کر رہی تھی کہ ایسا کرنا پہلی بیوی کے حق میں ہی جاتا ہے، اگر کوئی سوچے تو ۔
 

شمشاد

لائبریرین
یوسف بھائی اچھی تحریر ہے۔

مزید یہ کہ کہاں تو خواتین کارنر میں مردوں کا مراسلہ بھیجنا ممنوع ہے، آپ نے نئے عنوان سے دھاگہ ہی کھول دیا۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی اچھی تحریر ہے۔

مزید یہ کہ کہاں تو خواتین کارنر میں مردوں کا مراسلہ بھیجنا ممنوع ہے، آپ نے نئے عنوان سے دھاگہ ہی کھول دیا۔
مراسلہ بھیجنا ممنوع ہے، دھاگہ کھولنا تو نہیں نا :D
اب یہ زمرہ کے ناظمین پر منحصر ہے کہ اس دھاگہ کو "زمرہ بدر" کرکے کسی "متعلقہ زمرے" میں بھیج دیں۔ زحمت پر معذرت قبول کیجئے۔​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
یوسف ثانی صاحب لاثانی لکھا۔ کیا الیکشن میں صرف عورتوں سے ووٹ لینے کا ارادہ ہے ؟ کیا کوئی ریسٹورنٹ کھولنے کا ارادہ ہے یا ہمیں ڈائٹنگ کروانا چاہتے ہیں؟؟
 

یوسف-2

محفلین
یوسف ثانی صاحب لاثانی لکھا۔ کیا الیکشن میں صرف عورتوں سے ووٹ لینے کا ارادہ ہے ؟ کیا کوئی ریسٹورنٹ کھولنے کا ارادہ ہے یا ہمیں ڈائٹنگ کروانا چاہتے ہیں؟؟
عورت سے ووٹ لینے کا ریسٹورنٹ کھولنے اور آپ کو ڈائٹنگ کروانے سے کیا تعلق بنتا ہے بھلا؟
لگتا ہے آج کل آپ نے آزاد شاعری پڑھنی شروع کردی ہے :D
 

شمشاد

لائبریرین
مراسلہ بھیجنا ممنوع ہے، دھاگہ کھولنا تو نہیں نا :D
اب یہ زمرہ کے ناظمین پر منحصر ہے کہ اس دھاگہ کو "زمرہ بدر" کرکے کسی "متعلقہ زمرے" میں بھیج دیں۔ زحمت پر معذرت قبول کیجئے۔​

زمرہ بدر کر کے "آپ کی تحریریں" میں جگہ دے دی ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
عورت سے ووٹ لینے کا ریسٹورنٹ کھولنے اور آپ کو ڈائٹنگ کروانے سے کیا تعلق بنتا ہے بھلا؟
لگتا ہے آج کل آپ نے آزاد شاعری پڑھنی شروع کردی ہے :D
شکر ہے آپ نے جواب دیا۔ ہم نے تو آپ سے مخاطب ہونے کے لئے یہ بونگی ماری تھی۔ تیر کارگر ثابت ہوا۔
 

یوسف-2

محفلین
شکر ہے آپ نے جواب دیا۔ ہم نے تو آپ سے مخاطب ہونے کے لئے یہ بونگی ماری تھی۔ تیر کارگر ثابت ہوا۔
کیا مطلب؟
کیا (خدا نخواستہ) ہمارا شمار بھی کسی مغرورحسینہ وغیرہ میں ہونے لگا ہے، جن سے مخاطب ہونے کے لئے آپ کو زمانہ طالب علمی سے ہی بونگی مارنے کی عادت پڑی ہوئی ہے :D
(یہ تیر کارگر ہوا یا نہیں)
 

زلفی شاہ

لائبریرین
کیا مطلب؟
کیا (خدا نخواستہ) ہمارا شمار بھی کسی مغرورحسینہ وغیرہ میں ہونے لگا ہے، جن سے مخاطب ہونے کے لئے آپ کو زمانہ طالب علمی سے ہی بونگی مارنے کی عادت پڑی ہوئی ہے :D
(یہ تیر کارگر ہوا یا نہیں)
آپ کب سنجیدہ ہوتے ہیں؟ بزلہ سنجی میں آپ کے قدموں پر چلنے کے قابل بھی نہیں۔ آپ یقین جانیں کافی دنوں سے آپ سے بات نہیں ہوئی تو تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ سو ہم نے اپنی سی کوشش کر ڈالی۔
 

یوسف-2

محفلین
آپ کب سنجیدہ ہوتے ہیں؟ بزلہ سنجی میں آپ کے قدموں پر چلنے کے قابل بھی نہیں۔ آپ یقین جانیں کافی دنوں سے آپ سے بات نہیں ہوئی تو تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ سو ہم نے اپنی سی کوشش کر ڈالی۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔ مردہ دل کیا کاک جیا کرتے ہیں :D
بہت بہت شکریہ زلفی بھائی۔ گپ شپ میں ہنسی مذاق تو ہونا ہی چاہئے۔ ویسے موضوعاتی دھاگوں میں بحث وغیرہ میں حصہ لیتے ہوئے میں سنجیدہ بھی ہوجاتا ہوں :D
 

یوسف-2

محفلین
اچھی پرمزاح تحریر ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی سنجیدہ نہ ہوجائے ;)
اسے ’’ پُر مزاح ‘‘ بنانے کا سہرا شمشاد بھائی کے سر ہے، جنہوں نے اسے اس ’’طنز و مزاح‘‘ کے زمرے میں منتقل کیا ہے تاکہ اس مسئلہ پر پانی پت کی کوئی نئی جنگ نہ چھڑ سکے۔ :D میں نے تو اسے نہایت ’’سنجیدگی‘‘ سے لکھا تھا ۔
 

یوسف-2

محفلین
ایک وضاحت: اسلام میں مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کے مخالفین (خواہ وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا غیر مسلمانوں میں سے) یہ سمجھتے ہیں کہ اگرہم نے اس امر کی حوصلہ افزائی کی تو ہر مرد چار چار چار شادیاں رچانے لگے گا۔ حالانکہ کسی بھی معاشرے میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آزادی اور سہولتوں کی فراوانی کے باجود سارے مسلمان مرد دو دو شادیاں بھی کر لیں۔ ہر معاشرے میں عموما" خواتین کی تعداد صرف چند فیصد ہی زائد ہوتی ہے۔ جیسے پاکستان میں خواتین 51 یا 52 فیصد ہیں۔ گویا مردوں سے ان کی تعداد صرف 2 تا چار فیصد زائد ہے۔ یعنی اگر تمام خواتین کی شادیاں ہوجائے تب بھی صرف دو تا چار فیصد مرد ہی دو دو شادیاں کر پائیں گے، خواہ (بفرض محال) سارے کے سارے مرد خوشحال، دوسری شادی کے خواہشمند ہوں، ریاستی قوانین بھی مردوں کو دوسری شادی کی ترغیب دینے والی ہواور ساری کی ساری عورتیں بھی اپنے شوہر، بھائیوں اور بیٹوں کی دوسری شادی پر دل سے رضامند ہوجائیں تب بھی زیادہ سے زیادہ چار فیصد مرد ہی دوسری شادی کر پائیں گے۔ کیوں کہ دوسری شادی کے لئے بن بیاہی عورتوں کی دستیابی بھی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ دوسری شادی کی صورت میں مرد پر مختلف قسم کی اضافی ذمہ داریوں کا کئی گنا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ آج کے عہد میں ایک شادی کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے چہ جائیکہ ایک سے زائد شادی کرنا۔ لیکن معاشرے کی بن بیاہی، مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی فلاح و بہبود کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ مرد یہ اضافی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور کچھ نہ کچھ خواتین خوش دلی سے اپنی ’’محروم بہنوں‘‘ کے لئے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھلے رکھیں۔
(نوٹ: اس وضاحت کا مقصد مندرجہ بالا مکالمہ کی ’’سنجیدگی‘‘ کو برقرار رکھنا ہے:D )
 
Top