بینظیر بھٹو کا طرزَ سیاست

السلام علیکم۔

رات بینظیر کو نظر بند کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی مداخلت کے نتیجے میں تین روزہ نظر بندی کے احکامات راتوں رات ہی واپس لے لئے گئے ہیں۔ بینظیر بھٹو جس طرح سیاست میں واپس آئی ہیں (پاکستان میں واپسی کے بعد( اور جن عزائم کا اظہار کرتی رہی ہیں (خصوصآ ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں(، کیا آپ کے خیال میں وہ محبِ وطن ہیں؟ کیا ان کی حکومت پاکستانی عوام کی آرزو؂ئوں کے مطابق ہوگی یا نہیں؟

ربط: بینظیر کی نظر بندی کے احکامات واپس
 
گلفام بینظیر کی حقیقت تو اب اکثریت پر عیاں ہے البتہ چند لوگ شاید ابھی بھی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے
 
گلفام بینظیر کی حقیقت تو اب اکثریت پر عیاں ہے البتہ چند لوگ شاید ابھی بھی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے

محب! افسوس تو اس بات کا ہے کہ کئی لوگ اس حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود بینظیر بھٹو کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
 

جہانزیب

محفلین
شخصیت پرستی، پیپلزپارٹی کے جیالوں‌ سے اگر پوچھا جائے کہ پارٹی میں‌سے بھٹو کا کردار نہ ہو پھر؟‌ پیپلزپارٹی صرف بھٹو پارٹی ہے، بھٹو نکال دو پارٹی ختم ۔جیالوں کے لئے بھی بھٹو کے بغیر پارٹی کا تصور نہیں، حالانکہ دُنیا میں دیگر سیاسی جماعتیں اصولوں پر سیاست کرتی ہیں، لیڈران بدلتے رہتے ہیں، یہ کسیی پیپلزپارٹی ہے کہ بھٹو کے خاندان کے بغیر قائم بھی نہیں رہ سکتی ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عزیز دوستو، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ وقت ان اختلافات میں پڑنے کا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی بھی ہے، اس کی عوامی حمایت بہت زیادہ ہے۔ جہاں تک سوال رہا لوگوں کا کہ وہ پیپلز پارٹی کے کردار کو اچھی طرح جاننے کے بعد بھی اسے کیوں نہیں چھوڑتے تو یہ پاکستانی سیاست کا ڈھنگ ہے۔ جیالے اگر پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے تو کیا جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے؟ اس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو چھوڑ کر آمریت کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
 
ٹھیک ہے نبیل ہے فی الوقت پیپلز پارٹی سے نرم رویہ اختیار کر لیتے ہیں جب تک وہ آمریت کے خلاف جدوجہد کرے گی تب تک اسے زیادہ کچھ نہیں کہیں گے
 

ظفری

لائبریرین
مسئلہ یہ ہے کہ وقت بہت نازک ہے ۔ اور تقاضہ یہ کرتا ہے کہ آیا کیا ہم ملک کی سیاست اور اقتدار میں انہی لوگوں سے امیدیں باندھ رکھیں جنہوں نے عوام کی امنگوں اور خواہشوں کو ہمیشہ روندا اور کچلا ہے یا پھر ایسے وقت میں جب سیاست میں وکلاء برادری ایک موثر کردار ادا کر رہی ہے تو ان کا سہارا لیکر کوئی ایسا لیڈر سامنے لیکر آئیں جو عوام کی مشکلات اور مسئلوں کا صحیح ادراک رکھتا ہو ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کوئی نیا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے جو نظام میں بھی ردوبدل کی طاقت بھی رکھتا ہو ۔ اصل طاقت دراصل عوام ہی ہیں ۔ اگر عوام خوشحالی چاہتی ہے تو اسے میدانِ عمل میں آنا پڑے گا اگر وکلاء اپنے چیف جسٹس کے لیئے باہر آسکتے ہیں تو عوام کو بھی کوئی مثبت قدم اٹھانا پڑے گا ۔ سیاسی شخصیت پرستی اور مذہبی رہنماؤں کی اندھی تقلید بند کرنا پڑے گی ۔ گھر بیٹھ کر دعاؤں سے کام نہیں چلے گا ۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو تاریخ میں ایک غزوہ بھی رونما نہیں ہوتا ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بے نظیر کے طرز سیاست آمرانہ ہے۔ اعتزاز احسن جیسا شخص پیپلز پارٹی کا سربراہ ہو تب کوئی بات بنے۔
بے نظیر یہ کیوں نہیں سمجھتی کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر بھی وہ پاکستان کی وزیر اعظم بن سکتی ہے۔
 
عزیز دوستو، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ وقت ان اختلافات میں پڑنے کا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی بھی ہے، اس کی عوامی حمایت بہت زیادہ ہے۔ جہاں تک سوال رہا لوگوں کا کہ وہ پیپلز پارٹی کے کردار کو اچھی طرح جاننے کے بعد بھی اسے کیوں نہیں چھوڑتے تو یہ پاکستانی سیاست کا ڈھنگ ہے۔ جیالے اگر پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے تو کیا جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے؟ اس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو چھوڑ کر آمریت کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

نبیل بھائی! چلئے، آپ کی بات مان کر متحد ہوجاتے ہیں۔ اتحاد پر ہم بھی متفق ہیں اور فرض کیا کہ بی بی کو لیڈر بھی بنا لیتے ہیں۔ لیکن آمریت سے نجات کے بعد یہ لوگ پھر اپنا "معاوضہ" مانگنے لگیں گے جو شاید آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ کیا خیال ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
جہاں تک بینظیر کا معاملہ ہے تو ان کا کردار نواز شریف سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے بلکہ افسوسناک ہے ۔ نواز شریف کے عملی کردار پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں ۔ لیکن اپنے سیاسی موقف میں وہ جس طرح دو ٹوک اور واضع ہیں اس کے بارے میں کوئی بحث نہیں ۔ بینظیر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی موقف میں کسی اصول پرستی کا تاثر دے سکیں ہیں اور نہ ہی اپنے کسی عملی کردار سے عوام کو مطمئن کر سکیں ہیں ۔ اور اب یہ بات بھی راز نہیں رہی کہ انہوں نے ہمیشہ جنرل مشرف سے معاملہ کرنا چاہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ وہ ملکی سیاست میں اس وقت تک کوئی کردار ادا کرنے کے لیئے تیار نہیں جب تک انہیں واشنگٹن یا پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے شرکتِ اقتدار کی ضمانت نہ مل جائے ۔ اور اب اس بات سے بھی اختلاف کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ وہ حزبِ اختلاف کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ ایم ایم اے سے ان کا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن آج ملک میں‌کوئی نظریاتی اتحاد تو تشکیل نہیں پارہا ۔آج یہ مسئلہ زیرِ بحث نہیں ہے کہ اس ملک کو سیکولر ہونا چاہیئے یا اسلامی ۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہونی چاہیئے اور فوج سمیت ہر ادارے کو اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا چاہیئے ۔ مذید یہ کہ شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے ۔اب سوال یہ ہے کہ ان سب نکات کے لیئے ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی کا نظریاتی اختلاف کہاں مانع ہے ۔ اور جہاں تک نظریات کا معاملہ ہے تو اس کے اظہار کے لیئے انتخابات ہیں ۔ مگر بینظیر نے اقتدار کے پہنچنے کی جو روش اختیار کیا ہوئی ہے ۔ وہ کسی بھی لحاظ سے مثبت نہیں ۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود ایوان ِ اقتدار کی رسائی کے ان کے جو طریقے ہیں وہ صرف ہوسِ اقتدار کا مظہر ہیں نہ کہ خدمتِ خلق کے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
جناب ، میرا کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر اس وقت ہم باہمی اختلافات میں پڑے رہے تو یہ بات آمریت کے حق میں ہی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ تحریر تو آپ کی نظروں سے گزری ہو گی: خوش قسمت مشرف
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم،
جناب ، میرا کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر اس وقت ہم باہمی اختلافات میں پڑے رہے تو یہ بات آمریت کے حق میں ہی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ تحریر تو آپ کی نظروں سے گزری ہو گی: خوش قسمت مشرف

نبیل بھائی آپ کے خدشات بجا ہیں مگر ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں آمریت سے بدتر جہموریت نہ آجائے ۔ ;)
 

فرید احمد

محفلین
مشرف کے کرائے ہوئے اگلے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والے اتحاد اور مشرف کی پارٹی کا مقابلہ ایوان میں ہوا تھا ، اگر اس وقت بی بی صاحبہ نے چند افراد کو الگ کرکے دونوں کو خوش کرنے کی جو راہ اپنائی تھی ،
 

ساجد

محفلین
جو نورا کشتی اس وقت مشرف اور بے نظیر کے درمیان جاری ہے وہ اسی لئیے ہے کہ سول آمریت کی علم بردار بے نظیر کو سربراہِ حکومت بنایا جائے۔ اور یہ مخالفانہ بیانات صرف گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئیے ہیں تا کہ ڈرامے کو حقیقت کے قریب بنا کے پیش کیا جائے۔ سول آمریت بہر حال فوجی آمریت سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے کہ یہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ پیپلز پارٹی کے سابقہ ادوارِ حکومت میں عوام کر چکے ہیں۔
 
آج کے اخبارات میں بینظیر سے منسوب ایک خط مسلم لیگ ق کی جانب سے شائع ہوا ہے۔ اگرچہ میں مسلم لیگ ق کا حامی نہیں ہوں، تاہم اس خط کے حوالے سے آپ احباب کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
تعجب انگیز پہلو تو اس اشتہار کا یہ ہے کہ 1990 کا یہ خط حکومت کو 17 سال بعد اب منظرعام پر لانے کا خیال آیا جب خود اپنی سلامتی و بقا خطرے میں نظرآئی !!
 

ظفری

لائبریرین
معلوم یہی ہوتا ہے کہ واشنگٹن نے موجودہ حکومت کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے ۔ بینظیر واشنگٹن کی سپورٹ اور یقین دہانیوں کے بعد ہی پاکستان واپس آئیں تھیں ۔ جس میں مشرف کے ساتھ مشترکہ الحاق تھا ۔ مگر لگتا ہے کہ بینظیر کو حتمی فوقیت دے دی گئی ہے ۔ بینظیر کا یہ بیان کہ وہ مشرف کی صدارات میں وزیرِ اعظم نہیں بنیں گی ۔ اس بات کا مظہر ہے کہ مستقبل کا اقتدار انہی کے ہاتھوں آنے والا ہے ۔ یہاں امریکہ میں ایمرجینسی کے نفاذ کے بعد سے اب تک واشنگٹن پوسٹ اور دیگر بڑے اخبار روزآنہ بلاناغہ پاکستان سے متعلق خبریں پہلے صفحے پر بڑے حاشیے کے ساتھ چھاپ رہے ہیں ۔ جس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ بہت زیادہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کررہا ہے ۔ مسلسل خبروں سے یہ بھی گمان عام ہے کہ پاکستان کا داخلی مسئلہ دراصل پاکستان کا نہیں بلکہ خود امریکہ کا داخلی مسئلہ ہے ۔
 
معلوم یہی ہوتا ہے کہ واشنگٹن نے موجودہ حکومت کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے ۔ بینظیر واشنگٹن کی سپورٹ اور یقین دہانیوں کے بعد ہی پاکستان واپس آئیں تھیں ۔ جس میں مشرف کے ساتھ مشترکہ الحاق تھا ۔ مگر لگتا ہے کہ بینظیر کو حتمی فوقیت دے دی گئی ہے ۔ بینظیر کا یہ بیان کہ وہ مشرف کی صدارات میں وزیرِ اعظم نہیں بنیں گی ۔ اس بات کا مظہر ہے کہ مستقبل کا اقتدار انہی کے ہاتھوں آنے والا ہے ۔ یہاں امریکہ میں ایمرجینسی کے نفاذ کے بعد سے اب تک واشنگٹن پوسٹ اور دیگر بڑے اخبار روزآنہ بلاناغہ پاکستان سے متعلق خبریں پہلے صفحے پر بڑے حاشیے کے ساتھ چھاپ رہے ہیں ۔ جس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ بہت زیادہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کررہا ہے ۔ مسلسل خبروں سے یہ بھی گمان عام ہے کہ پاکستان کا داخلی مسئلہ دراصل پاکستان کا نہیں بلکہ خود امریکہ کا داخلی مسئلہ ہے ۔
میں انٹرنیٹ پر بھی دیکھ رہا ہوں کہ امریکی میڈیا پاکستانی خبروں کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ دراصل مشرف عوامی حمایت بالکل کھو چکے ہیں اور اب وہ امریکہ کیلئے ایک استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اگر مشرف حکومت رہے گی تو عوامی حلقے احتجاج کرتے رہیں گے اور مشرف اس احتجاج کو روکنے میں لگے رہیں گے۔ اس طرح امریکی ایجنڈا بیچ میں ہی رہ جائے گا۔ لہٰذا اس کا حل امریکہ نے بینظیر کی صورت میں تلاش کر لیا ہے جو مشرف سے بھی زیادہ "سخاوت" کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی ہر شے بلا چون و چرا امریکہ کے حوالے کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے، انہیں پاکستان سے کیا لینا دینا؟ وہ پلی بڑھی باہر کی ہیں، وہیں رہتی ہیں اور جب انتخابات کا موسم آتا ہے تو بینظیر بھٹو بھی پاکستان آ جاتی ہیں۔
بہرحال۔۔۔اب اگر آئندہ حکمران کوئی مشرف کا ساتھی ہو یا بینظیر کا۔۔۔موسم یہی رہنے کی توقع ہے۔ کیونکہ چہرے بدلنے سے لوگ تو نہیں بدلتے!!
 
Top