بھیا، ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا لوں۔

شمشاد

لائبریرین
رائتہ

ایک مشاعرے میں دعوت خورد و نوش کا اہتمام تھا ۔ دیگر شعراء تو کھانے سے فارغ ہو کر پنڈال میں پہنچ رہے تھے لیکن اسرار الحق مجاز اور معین احسن جذبی ابھی مصروف تھے۔ منتطمین میں سے ایک نے آ کر جذبی سے چلنے کی درخواست کی۔

جذبی نے کہا : " بھیا، ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا لوں۔"

اور مجاز اتنی سے بات سنتے ہی ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگے " جذبی، اس رائتہ کے مضمون کو اقبال اپنے ہاں یوں نظم کرتا :

حیف شاہیں رائتہ پینے لگا​

اور اختر شیرانی کا مصرع ہوتا :

رائتہ جو رخ سلمٰی پہ بکھر جاتا ہے​

اور جوش یوں کہتے :

رائتہ کھا کر وہ شاہ کج کلاہاں آ گیا​

اور فراق یہ انداز اختیار کرتے :

ٹپک رہا ہے دھندلکوں سے رائتہ کم کم​

اور فیض احمد فیض کہتے :

تیری انگشت حنائی میں اگر رائتہ آئے
ان گنت ذائقے یلغار کریں مثل رقیب​

اور میں خود یوں نظم کرتا :

بنت شب دیک جنوں رائتہ کی جائی ہو
میری مغموم جوانی کی توانائی ہو​

اور تمہیں تو واقعی یہی کہنا چاہیے تھا :

ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا لوں تو چلوں​
 
Top