بھڑک اٹھے گا کسی دم ابھی غبارِ دلم

اگرچہ کچھ بھی نہیں اس میں اختیارِ دلم
دماغ روک کے رکھتا ہے از فگارِ دلم

ہوائے دل میں ہے برباد خود سوارِ دلم
بھڑک اٹھے گا کسی دم ابھی غبارِ دلم

ادھر قرارِ دلم ہے کوئی نہ یارِ دلم
ہر ایک شخص کا ہے اپنا کاروبارِ دلم

سوائے نقشِ قدم کی طلب کے تیرے نہیں
کوئی بھی نقشِ تمنا بہ رہگذارِ دلم دلم

سجایا گو تری گل دوز یادوں سے ہم نے
مگر مہک نہ سکا پھر بھی خارزارِ دلم

یہی تو غم ہے کہ اتنے بڑے جہان میں بھی
کوئی بھی دل نہ ملا جو کہ ہو نثارِ دلم

اگرچہ طرزِ سخن اس غزل کی طرفہ ہے
رقم کریں گے بہرحال آہ و زارِ دلم

دلِ شکستہ پہ ہے ثبت مصرعِ طالبؔ
"دلم نماند و فغان ماند یادگارِ دلم"
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ، ریحان ! اچھے اشعار ہیں ۔ طالب آملی کی یہ غزل کبھی نظر سے نہیں گزری۔ گرہ کا مصرع ، ان کی غزل کا مصرعِ اول ہے یا ثانی؟

مجھے لگ رہا ہے کہ ان دو مصرعوں کو آپ کی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔

(1) ہر ایک شخص کا ہے اپنا کاروبارِ دلم
"ہر ایک شخص کا اپنا ہے کاروباِرِ دلم"کہیں تو روانی کہیں بہتر ہوجاتی ہے اور میرا خیال ہے کہ معنی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

(2) سوائے نقشِ قدم کی طلب کے تیرے نہیں
اس مصرع میں تعقید کی وجہ سے بات الجھ گئی ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع خوب ہے۔ اگر مصرع اول کو اس کے معیار کا بناسکیں تو بہتر ہوگا۔

چوتھے شعر میں ردیف دو بار ٹائپ ہوگئی ہے۔ درست کرلیجیے۔
 
اچھی غزل ہے ریحان بھائی ۔۔۔ گرہ بھی خوب لگائی ہے۔
بہت شکریہ احسن بھائی.
بہت خوب ریحان بھائی!
نوازش.
بہت خوب ، ریحان ! اچھے اشعار ہیں ۔ طالب آملی کی یہ غزل کبھی نظر سے نہیں گزری۔ گرہ کا مصرع ، ان کی غزل کا مصرعِ اول ہے یا ثانی؟
حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں ظہیر بھائی. گرہ کا مصرع، مصرعِ اول ہے، پورا شعر یوں ہے:

دلم نماند و فغان ماند یادگارِ دلم
جرس بباد شد و نالۂ جرس باقی‌ست

میرا دل نہیں رہا مگر اس کی فغان بطورِ یادگار رہ گئی، جرس ہو ا کی نذر ہو گئی مگر نالۂ جرس ابھی تک باقی ہے.
(1) ہر ایک شخص کا ہے اپنا کاروبارِ دلم
"ہر ایک شخص کا اپنا ہے کاروباِرِ دلم"کہیں تو روانی کہیں بہتر ہوجاتی ہے اور میرا خیال ہے کہ معنی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
درست فرمایا. یہ متبادل میرے ذہن میں تھا لیکن مندرجہ بالا صورت روزمرہ کے زیادہ قریب معلوم ہوئی مگر اب 'ہر ایک شخص کا اپنا ہے کاروبارِ دل' بہتر معلوم ہوتا ہے.
(2) سوائے نقشِ قدم کی طلب کے تیرے نہیں
اس مصرع میں تعقید کی وجہ سے بات الجھ گئی ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع خوب ہے۔ اگر مصرع اول کو اس کے معیار کا بناسکیں تو بہتر ہوگا۔
اس پر غور کرتا ہوں.
 
سوائے نقشِ قدم کی طلب کے تیرے نہیں
اس مصرع میں تعقید کی وجہ سے بات الجھ گئی ہے۔ اس شعر کا دوسرا مصرع خوب ہے۔ اگر مصرع اول کو اس کے معیار کا بناسکیں تو بہتر ہوگا
شاید یوں بہتر ہو جائے:
بجز یک آرزوئے نقشِ پائے یار نہیں
کوئی بھی نقشِ تمنا بہ رہگذارِ دلم
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

فرخ منظور

لائبریرین
غزل اچھی ہے مگر یہ مصرع عجیب لگا اور سمجھ نہیں آئی کہ دل کسی دم بھڑک اٹھے گا یا کہ ابھی بھڑک اٹھے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کسی دم بھڑک اٹھے گا یا کہ ابھی بھڑک اٹھے گا
اس سے مراد ہے کہ بھڑکنے میں زیادہ دیر نہیں اور بس ابھی کسی بھی لمحے (یعنی عنقریب ہی )ایسا ہونے والا ہے ۔
جیسے بم پھٹنے کا ٹائم تو ہو گیا اب کسی بھی لمحے پھٹنے والا ہے ۔:)

یہاں ابھی اور کسی دم میں تضاد ،شاعر نے واقعے کی قربت کے لیے تراشا ہے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس سے مراد ہے کہ بھڑکنے میں زیادہ دیر نہیں اور بس ابھی کسی بھی لمحے (یعنی عنقریب ہی )ایسا ہونے والا ہے ۔
جیسے بم پھٹنے کا ٹائم تو ہو گیا اب کسی بھی لمحے پھٹنے والا ہے ۔:)

یہاں ابھی اور کسی دم میں تضاد ،شاعر نے واقعے کی قربت کے لیے تراشا ہے ۔

مقصد تضاد کی ہی نشاندہی کرنا تھا اور جیسے سہیل وڑائچ کہا کرتا تھا ۔ یہ تو کھلا تضاد ہے۔
 
Top