بھارت کی ترقی کی وجوہات

ابوشامل

محفلین
پاکستان اور بھارت ایک ساتھ قائم ہوئے لیکن قیام کے 60 سالوں‌ کے بعد آج پاکستان کے مقابلے میں‌ بھارت کو ہر میدان میں واضح برتری حاصل ہے۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجوہات ہیں؟
 

پاکستانی

محفلین
انڈیا کے پاس 1947 میں بھی بہت سے وسائل موجود تھے۔
آپ اس وقت کے تباہ حال جاپان کو دیکھ لیں، جس کے تمام شہر راکھ میں تبدیل ہو چکے تھے۔

اور آج کہاں آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہو جاپان اور کہاں پستی دھنستا پاکستان
 
اگرچہ بھارت کی ترقی بھی کوئی متاثر کن نہیں‌ اور وہاں غربت بے انتہا ہے مگر ان کی مجموعی ترقی کا راز جاگیر دارنہ نظام کا خاتمہ، سیاسی نظام کا تسلسل اور غیر فوجی عوامی حکومت کا ہونا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہمت علی نے کہا:
اگرچہ بھارت کی ترقی بھی کوئی متاثر کن نہیں‌ اور وہاں غربت بے انتہا ہے مگر ان کی مجموعی ترقی کا راز جاگیر دارنہ نظام کا خاتمہ، سیاسی نظام کا تسلسل اور غیر فوجی عوامی حکومت کا ہونا ہے۔

بھائی جی،
خالی سیاسی جمہوریت سے میرے خیال میں کچھ نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی کوئی ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ اسکی مثال صوبہ بہار انڈیا کے آپ کے سامنے ہے جہاں اگرچہ مستقل سیاسی جمہوری نظام رائج رہا مگر وہاں کوئی بھی ادارہ مضبوط نہیں ہو پایا اور کرپشن وغیرہ پاکستان سے کسی طرح کم نہیں ہے۔

انڈیا کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ میرے نزدیک انکا "تعلیمی نظام" تھا جو کہ یورپ اور امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ رہا ہے (کمپیٹیشن کی وجہ سے IIT میں وہ سٹوڈنٹ جاتے ہیں کہ جنکا مقابلہ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیز بھی مشکل سے کرتی ہیں۔

اس تعلیمی نظام کی وجہ سے انڈیا میں ہر سال ڈھائی سے تین لاکھ انجینیر تیار ہوتے ہیں جن میں سے بہت سارے باہر نکل جاتے ہیں۔ اسی تعلیمی نظام کی وجہ سے انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بوووم کے دور میں بھرپور فائدہ اٹھایا اور آج بھی آپ انڈین اکانومی دیکھیں تو انکی ایکسپورٹ میں شاید سافٹ ویئر پہلے نمبر پر ہو۔

انڈیا کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی نظام شرمندگی کی حد تک ناکارہ ہے۔ شاید ہر سال ہم دو ہزار انجینئر ہی تیار کرتے ہوں۔ البتہ آئی ٹی میں اب پاکستان نے بھی ترقی کی ہے۔ لیکن بہرحال ہماری یونیورسٹیز انڈین آئی آئی ٹی کے معیار کی نہیں ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

یہ بات درست ہے کہ موجودہ دور میں بھارت کو پاکستان پر معاشی اور سیاسی برتری حاصل ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ صورتحال ہمیشہ سے نہیں تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار انڈیا سے کہیں آگے تھی۔ کوریا کا پاکستان کا پہلا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ مستعار لینے اور اس پر عمل کرنے کا قصہ بھی افسانوی شہرت رکھتا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی ادارے عالمی معیار کا مقابلہ کرتے تھے۔ دوسری جانب بھارت میں اگرچہ سیاسی عمل جاری رہا ہے لیکن جواہر لال نہرو کے سوشلسٹ نظریے سے متاثر ہونے اور اس پر کئی عشرے تک عمل کرنے کے باعث بھارت کی معیشت مکمل تباہی کے دہانے تک پہنچ چکی تھی۔

میرے خیال میں بھارت کی معاشی ترقی اور پاکستان کی پستی کا آغاز ایک ساتھ ہوا ہے۔ جواہر لال نہرو کا سوشلسٹ نظریہ ایک طرف لیکن انہوں نے جن یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی، وہ آج عالمی معیار کی تعلیم دے رہی ہیں اور پاکستان میں سب سٹینڈرڈ کورسز آفر کرنے والے پرائیویٹ اداروں کو تھوک کے حساب سے یونیورسٹیوں کے چارٹر دیے جا رہے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔

یہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ بھارت کی موجودہ ترقی سے زیادہ مرعوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایک جانب معاشرے کا ایک طبقہ خوشحال ہو رہا ہے تو دوسری جانب وہ زرعی فارم بھی موجود ہیں جہاں ہزاروں کسان مفلوک الحالی اور مفلسی سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ان زرعی فارمز کا نام ہی suicide farms پڑ گیا ہے۔

والسلام
 

قیصرانی

لائبریرین
موجودہ موضوع سے شاید یہ خبر کچھ مطابقت نہ رکھتی ہو، لیکن برائے معلومات ادھر لگائی ہے۔ اصل خبر اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے

http://jang.com.pk/jang/jun2007-daily/14-06-2007/up58.gif

up58.gif
 
مہوش بہن
ظاہر ہے کہ تعلیم ایک وجہ ہے مگر یہ تو ایک مظہر ہے اچھے نظام کی موجودگی کا۔ میرا مطلب یہ ھے کہ اساسی مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چونکہ بھارت کا سیاسی نظام بنیادی طور پر جہموری ہے جہاں احتساب کوایک بنیادی حثیت حاصل ہے لہذا ہر ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے قطع نظر اس کے کہ حکمران کون ہے۔
اس کے برخلاف غیر احتسابی نظام میں‌جیسا کہ بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ میں‌ہوتا ہے اگر کوئی ادارہ وقتی طور پر ترقی ہی کیوں نہ کررہاہو مگر اس کے زوال کے بہت زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سوویٹ یونین کی ریاست کی ہے۔ وہاں‌ کا تعلیمی نظام بہترین‌تھا۔ اپ دیکھیں گے کہ اس دور کی ٹیکنالوجی میں‌سوویٹ یونین بہت اگے تھے حتیٰ کہ وہ خلامیں‌ امریکہ سے پہلے داخل ہونے میں‌کامیاب ہوئے۔ میرا ایک استاد رشین تھا اور میں‌جانتا ہوں کہ ان کی اکادمی اپروچ بہت اعلیٰ‌تھی ۔ مگر چونکہ سیاسی نظام میں احتساب کو اھمیت نہیں‌حاصل تھی لہذا غلطیوں‌کو درست کرنے کی صلاحیت کھو دینے کی وجہ سے وہ اپنی ترقی کی رفتار کو دھیمی کربیٹھے۔
 

ابوشامل

محفلین
ہمت علی نے سوویت یونین کی بہت خوبصورت دلیل پیش کی ہے جو صورتحال واضح کر دینے کے لیے کافی ہے۔
بھارت کا گذشتہ 30، 40 سالوں میں پاکستان سے آگے نکل جانے کے چند بڑے اسباب یہ ہیں:
1۔ سیاسی استحکام
2۔ فوج کی ملکی سیاسی معاملات میں عدم مداخلت
3۔ بہترین تعلیمی نظآم
4۔ بیرونی سرمایہ کاری
5- آزاد ذرائع ابلاغ
6۔ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ
اور اس کے علاوہ دیگر بھی ہو سکتی ہیں۔

یہ مانا کہ بھارت کو پاکستان سے بہت زیادہ آگے ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ آزادی کے ساتھ ہی مکمل وسائل کا حامل تھا جبکہ پاکستان کو وسائل کی شدید کمی کا سامنا تھا لیکن پاکستان نے اس کے مقابلے میں ابتدا میں شاندار ترقی کی اور جس طرح نبیل بھائی نے پاکستانی پنج سالہ پروگرام کوریا کو دینے کا حوالہ دیا اور اس کے علاوہ بھی پاکستان کی ترقی کی رفتار 60ء اور 70ء کی دہائی میں بھارت سے کہیں زیادہ تھی لیکن ایوب خان کے دور میں ترقی کی جو رفتار حاصل کی گئی وہ اس کے دور میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے باعث عارضی ثابت ہوئی اور بعد ازاں یحیی خان اور ضیاء الحق کے آمرانہ ادوار نے پاکستان کی اقتصادی بد حالی پر مہر ثبت کر دی۔
بہرحال سیاسی عدم استحکام اور ملکی معاملات میں فوج کی مداخلت اور جاگیردارانہ نظام تو آج تک قائم ہے اور تعلیمی نظام کا حال تو نہ پوچھیے لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال کے دو انتہائی مثبت پہلو بھی ہیں ایک کسی حد تک بیرونی سرمایہ کاری اور دوسرا اور سب سے اہم پہلو آزاد ذرائع ابلاغ ہے جس نے گذشتہ 5 سالوں میں اپنی اہمیت ظاہر کر دی ہے۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کی موجودہ سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے اس کا کریڈٹ پرویز مشرف کا نہ دینا زیادتی ہوگی، چاہے آزادی دیتے وقت اس کی نیت کچھ بھی ہو لیکن بہرحال اس اقدام سے پاکستان کو انشاء اللہ بہت فائدہ پہنچے گا اور عوامی سطح پر شعور اجاگر ہوگا جس کی اس وقت قوم کو سب سے زيادہ ضرورت ہے۔


نبیل بھائی نے درست بات کی ہے کہ بھارت کی ترقی سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ مانا کہ بھارت پاکستان سے آگے ہے لیکن اس کے مسلمہ طور پر ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ میں حائل چند رکاوٹیں بھی ہیں اور ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے غربت۔ ایک جانب ملک کی 75 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے لیکن وہ کل قومی آمدنی کا صرف 22 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھارت کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

ہاں! مہوش بہن کے لیے ایک اطلاع ہے کہ بھارت سافٹ ویئر کا ایکسپورٹر نہیں بلکہ سافٹ ویئر انجینئرز اور مین پاور برآمد کرتا ہے اور دنیا بھر میں بھارت سے تعلق رکھنے والے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئر اپنے کمالات دکھا رہے ہیں۔
 
Top