hakimkhalid

محفلین
kgzrqfybeh.jpg

The President of India, Dr. A.P.J. Abdul Kalam presenting Padma Shri to Prof. Hakeem Syed Zillur Rahman, for his contributions in Unani Medicine, at an Investiture Ceremony at Rashtrapati Bhavan in New Delhi​

تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد

نوٹ:اس تحریر میں مرتب کردہ بعض معلومات پرانی اور نظر ثانی کے قابل ہو سکتی ہیں ۔اگر انڈین احباب انہیں اپ ڈیٹ اور اغلاط کی تصحیح کرنے میں معاونت کر سکیں تو مشکور ہوں گا۔مخالفین کی طرف سے معترض ہونے سے قبل ہی وضاحت کر دوں کہ درج ذیل تحریر میں اگر آپ کو بھارت کی تعریف و توصیف نظر آئے تو اسے انڈین گورنمنٹ کی اور وہاں طب یونانی سے تعلق رکھنے والوں کی محنت سمجھتا ہوں۔اور کسی کی محنت کسی اور کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتا اور اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ حقیقت پسند ہوں ۔لہذا اس تحریر کو دیگر سیاسی تعلقات و معاملات سے منسلک کئے بغیر "لمحہ فکریہ "کے طور پر پڑھا جائے۔
wwajs3kg03.jpg
اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت دنیائے طب کی قیادت بھارت کر رہا ہے تو بالکل بجا ہے۔بھارت اس وقت دنیا بھر میں طب یونانی کے حوالے سے لیڈر ہے۔ بھارت میں صحت پالسی کے مطابق ایلوپیتھی سسٹم ان میڈیسن کے علاوہ آیورویدا'یونانی' سدھااور ہومیوپتھی کو مساوی طورپر فروغ دیا جارہا ہے اور ایلوپیتھی کے علاوہ چاروں طریقہ ہائے علاج کو انڈین سسٹم ان میڈیسن "آئی سی ایم "قرار دیا جاتا ہے ان کے فروغ کے لئے دسمبر 1970ء میں حکومت ہند نے پارلیمنٹ کے ایک بل کے تحت سنٹرل کونسل فارانڈین میڈیسن کا قیام عمل میں لایا۔ اس کونسل کے ذمے آیوروید'یونانی'سدھااور ہومیوپیتھی طریقہ ہائے علاج کی ترقی فروغ اور نگہداشت ہے جسمیں ملک بھر میں طبی کالجز کا قیام، ان کے معیارات بلند کرنا، طبی نصاب تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور فارغ الحقیل طب کو اسنادجاری کرنا ہے، اس کونسل کی رکنیت بذریعہ انتخابات اور نامزرگی ہوتی ہے۔ کونسل اپنی گورننگ باڈی تشکیل دیتی ہے۔ کونسل کے صدر کا انتخاب بذریعہ گورننگ باڑی ہوتاہے تمام طریقہ ہائے علاج سے ایک ایک نائب صدر لیا جاتاہے پھر نائب صدر کی نگرانی میں متعلقہ طریقہ ہائے علاج پر مشتمل کمیٹی قائم ہوتی ہے جس کے دوحصے ہوتے ہیں۔

١۔منظم کمیٹی کا چیف افسر نائب صدر ہوتاہے۔یہ کونسل کے حوالے سے طب یونانی کے انتظامی و دفتری مسائل کی ذمہ دار ہوتی ہے

دوسری کمیٹی تعلیمی کمیٹی کہلاتی ہے جس کا چیئرمین کسی ایسے شخص کو بنایاجاتاہے جو طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ کسی طبی تعلیمی ادارے میں تعلیم و تدریس کا وسع تجربہ رکھتاہو اس طرح یہ دونوں کمیٹیاں مل کر کام کرتی ہیں۔

اس کونسل سے منظور شدہ بھارت میں اس وفت چالیس طبی کالجز ہیں جو سب کے سب ڈگری کورسز پر مشتمل ہیں۔معیار داخلہ ایف ایس سی اور مدت تعلیم پانچ سال ہے۔پانچ سال بعد چھ ماہ ہائوس جاب کرنا ہوتا ہے اگر ایف اے پاس کوئی طالب علم طبی کالج میں داخلے کا خواہش مند ہو تو اسے ایک سال کا پری طب کورس کرایا جاتاہے۔جہاں فزکس، کیمسٹری، باٹنی، زوالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔یہ کالجز یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں جو کالجز کے امتحانات کی ذمہ دار ہیں۔فارغ التحصیل طلبہ کو بی یو ایم ایس کی ڈگری جاری ہوتی ہے۔

یہاں پر اس قابل ذکر ہے کہ طبی کالجز کے لئے وہی قواعد و ضوابط ہیں جو میڈیکل کالجز کے لئے ہیں۔1972ء سے طبیہ کالج علی گڑھ میں پوسٹ گریجویشن کلاسز کا اجراہو چکا ہے ایم ڈی کے نام سے یہ چارسالہ کورس ہے جس کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے وظیفہ دیا جاتاہے۔اب ہمدرد یونیورسٹی میں بھی پوسٹ گریجوشن (ایم ڈی) کی کلاسز کا اجرا ہو چکا ہے۔ پھر طبی کالج کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال بھی ہیں جہاں ان ڈوراور اوٹ ڈور شعبے قائم ہیں۔لیبارٹری کی سہولت میسر ہے طلباء کو بطور میڈیکل آفیسر کام کرتے ہیں۔

طبی ڈسپینسروں کے لیے صوبائی حکومتوں نے ایک سالہ کورس شروع کر رکھا ہے۔

اطباء کو ڈاکٹروں کے برابر حقوق حاصل ہیں تنخوائوں کا سکیل ایک جیسا ہے۔ جب تعلیمی معیار ایک جیسا ہو تو ایسا ہونا عین تقاضائے انضاف بھی ہے۔اطباء کو ڈاکٹروں کی طرح مطب اور فارمیسی کے لئے قرضوں کی سہولت حاصل ہے۔اطباء میڈیکل سرٹیفیکٹ کا اجرا کرنے کے مجاز ہیں سرکاری ملازموں کا علاج کرنے کے اہل ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی طبیب عالمی فکر و نظر کا حامل ہے اور دنیا بھر میں بھارت کی طب کے حوالے سے پہچان ہے اور وہ کروڑوں روپوں کا زرمبادلہ یونانی ادویہ کی برآمد سے کمارہا ہے مگر اس کے مقابل ہمارے ہاں قومی سوچ ہی نہیں بنی۔ اگرچہ اس کی دیگر وجوہ کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے گرد نادیدہ غلامانہ حصار بھی ہے ہمارے ہاں طبی کالجز ڈپلومہ کورسز پر مشتمل ہیں۔ جن پر "اپنے" ہی غیر معیاری کا ٹھپہ لگا چکے ہیں۔ پاکستانی یونانی ادویہ کی دنیا میں کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔پاکستان جسے طب کے میدان میں دنیا کی قیادت کے مقام پر ہونا چاہیے تھا آج بھارت سے پیچھے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جس کے ذمہ دار ہمارے حکمرانوں کے علاوہ اطباء کی نام نہاد قیادتیں بھی ہیں۔
ojy32fjtd7.jpg
طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ہمدرد یونیورسٹی دہلی اور یونانی طبیہ کالج دہلی بھارت میں طبی تعلیم میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی 1927ء میں قائم ہوا تھا اور آج اسی شاندار اور دیدہ زیب وسیع و عریض بلڈنگ میں رواں دواں ہے۔یہاں روز اول ہی سے ڈگری کلاسز ہیں البتہ اب ایم ڈی (ڈاکٹر اف میڈیسن) کی کلاسز کا اضافہ ہو چکا ہے اس کالج کے ساتھ دواخانہ طبیہ کالج بھی ہے جس میں کاروباری بنیادوں پر ادویہ تیار ہوتی ہیں اور یونانی دواسازی کے میدان میں ہمدرد وقف دہلی کے بعد یہ دوسرا بڑا ادارہ شمار ہوتاہے۔اسی طرح طبیہ کالج کے زیراہتمام مکمل یونانی ہسپتال بھی ہے۔ مختلف امراض کے الگ الگ وارڈ ہیں۔ اقامتی مریضوں کو ہسپتال کی طرف سے کھانافراہم کیا جاتاہے۔بڑی تعداد میں لوگ اس ہسپتال رجوع کرتے ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی دہلی کی فکلیٹی اف یونانی میڈیسن بھی طب کی معیاری اور عالی شان درس گاہ ہے۔فکلیٹی میں یونانی طب کے حوالے سے تمام شعبے ہیں بیشتر اساتذہ کا تعلق علی گڑھ سے ہے یا پھر اسی فکلیٹی کے فارغ الحقیل ہیں۔ہمدرد یونیورسٹی کے منشور کے مطابق اس کے قیام کا مقصد اولین یونانی طب کے تعلیمی معیار کو بلند کرنا اور تحقیق کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے فکلیٹی کی سرگرمیاں قابل ستائش ہیں حکومت سے منظور شدہ طبی پراجیکٹ زیر تحقیق ہیں جو مستقبل میں یونانی طب کی ترقی و تحقیق میں بنیادی رول ادا کریں گے فیکلٹی کے بیشتر اساتذہ تصنیف و تالیف میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اس فیکلٹی سے منسلک مجیدیہ ہسپتال ہے جہاں علیحدہ سے"او پی ڈی"اور "آئی ڈی پی"کا انتظام ہے

اس عالی شان ہسپتال کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو مسیح الملک حکیم اجمل خان اور بانی ہمدرد حکیم عبدالمجید کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ یہ ہسپتال 24گھنٹے کھلا رہتا ہے اور طلبہ و طالبات عملی تربیت حاصل کرتے ہیں۔یونانی ادویہ کی دستیابی کا مکمل انتظام ہے جبکہ غرباء کے لئے مفت ڈسپینسری بھی ہے۔۔اس کالج کے بانی حکیم عبدالمجید برادر اکبر حکیم محمد سعید شہید پاکستان ہیں ۔ جو بیسویں صدی کے ان عظیم اور ناقابل فراموش اطباء میں سے ہیں جن کے بدولت آج طب زندہ ہے۔فکلیٹی کے ڈین حکیم شاکر جمیل ہیں ہمدرد یونیورسٹی میں عالمی معیار کے کنونشن سنٹر میں بیک وقت چھ زبانوں میں ترجمے کا انتظام ہے ۔

سنٹرل کونسل فارریسرچ ان یونانی میڈیسن"سی سی آر یو ایم" حکومت ہند نے انڈین سسٹم اف میڈیسن کی ترقی و تحقیق کے لئے 1961ء میں سنٹرل کونسل فارریسرچ ان یونانی میڈیسن قائم کی جب اس کونسل کام بڑھنا شروع ہوا تو 1989ء میں ازسرنو تین کونسلیں قائم کی گئی جو آیورویدا'سدھا'یونانی اور ہومیوپیتھی کے لئے محصوص تھیں یہ وزارت صحت کے زیر انتظام ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس کونسل کا سربراہ وزیرصحت ہوتاہے۔جبکہ نائب صدر میں پھر ریاستی وزیرصحت (صوبائی حکومت) کے علاوہ ایک طبیب ہوتاہے جو انتظامی امور کاذمہ دار ہوتاہے جبکہ کونسل کا ڈائریکٹر جو کہ یونانی طبیب ہوتاہے بحثیت عہدہ سکرٹری بھی ہوتاہے اس کے علاوہ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ریسرچ آفیسرکام کرتے ہیں اس کا صدر دفتر نئی دہلی میں ہے "آیوش "ڈیپارٹمنٹ کے نام سے قائم بلڈنگ میںتمام کونسلوں کے دفاتر ہیں۔اس کونسل کے صدر دفتر جانا ہوا۔ حکیم خلفیة اللہ جو کہ نائب صدر ہیں اور حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور حکیم محمد خالد صدیقی جو کہ ڈائریکٹر کی حیثیت سے سکرٹری بھی ہیں۔ کونسل کا سالانہ بجٹ چھتس کڑور روپے ہے۔کونسل نے طبی تحقیق کے لئے مختلف ادارے قائم کئے ہیں جو ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں مرکزی ادارہ برائے تحقیق "سی آر آئی" حیدر آباد' آندھیر پردیش میں قائم کیا گیا ہے جہاں عالمی معیار کے مطابق تحقیق کی تمام سہولتیں موجود ہیں علاوہ ازیں دیگر علاقائی تحقیقاتی ادارے ملک کے مختلف حصوں میں ہیں۔بعض اداروں میں مو بائل ونگز بھی ہیں جو دور دراز کے علاقوں میں جاکر کیمپ لگاتے ہیں۔کونسل کے ریسرچ آفیسرز مختلف مقامات پر جاکر ادویاتی پودوں کی اچھی کاشت کے لئے زمین اور ماحول کا سروے کرتے ہیں اب تک کونسل نے جن شعبوں میں کام کیا ہے ان میں معاملاتی تحقیق، تحقیق ادویہ، ادبی تحقیق، ادویہ کی جائے پیدائش کا معائنہ اور ان کی کاشت کے لئے جگہ کا انتخاب شامل ہے بہت سے پیچیدہ امراض مثلاَ برص، وجع المفاصل، ملیریا، یرقان، ورم جگر، ذیابیطس کا شافی علاج مہیا گیا ہے بہت سے ادویہ مفرد کی معیار بندی اور ان کی کاشت بھی کی گئی ہے۔کونسل کی تحقیقی سرگرمیوں میں ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ عربی و فارسی میں دستیاب کتب کے تراجم کئے گئے ہیں جو اردو اور انگریزی میں ہیں جس سے بہت سی نادرکتب نہ صرف منظر عام پر آئی ہیں بلکہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔ کونسل ایک معیاری ریسرچ جرنل جو عالمی فکر و نظر کے مطابق ہے باقاعدگی سے شائع کرتی ہے۔اور اردو میں "جہان طب" کے نام سے معیاری جریدہ شائع کرتی ہے" جہان طب "نے رازی نمبر اور ابن سینا نمبر سمیت کئی خاص نمبرز شائع کیے ہیں۔ جو انتہائی معیاری نوعیت کے ہیں۔مونوگراف پر بھی کتابچے شائع کئے ہیں۔1985ء میں یونانی طب بارے پہلا سیمینار نئی دہلی میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گاہے بہ گاہے میوزیم، اور ورکشاپس کا بھی اہتمام کیا جاتاہے۔ کونسل کے زیر انتظام برص پر قائم علی گڑھ میں انسٹی ٹیوٹ قائم ہے اور ہمدرد یونیورسٹی دہلی کی لائبریری میں قائم ایک ادارے کو جسمیں حکیم صفی الدین احمد اور ان کے رفقا متحرک ہیں۔کونسل کے صدر دفتر میں ایک شاندار لائبریری بھی ہے۔کونسل کے پہلے ڈائریکٹر حکیم عبدالرزاق اور ڈپٹی ڈائریکٹر طبیبہ ام الفضل تھیں اس کونسل بارے ان کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ یونانی طبیبہ کالج قرول باغ دہلی جو مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان نے قائم کیا تھا۔ یہ کالج ڈگری کورسز پر مشتمل ایک معیاری کالج ہے۔


آل انڈیا طبی کانفرنس اطباء بھارت کی نمائندہ تنظیم ہے۔ حکیم عبدالحمید 1953ء سے 2000تک صدر رہے اور اس تنظیم نے قابل قدر کام کیا۔ حکیم عبدالحمید کے انتقال کے بعد نائب صدر حکیم مختار احمد اصلاحی کو صدر منتخب کر لیا گیا جبکہ حکیم عبدالحمید کے صاحب زادے عبدالمعید متولی ہمدرد وقف دہلی کو سرپرست۔ اس تنظیم کا صدر دفتر ہمدرد دواخانہ آصف علی روڈ میں ہے۔ ہمدرد کی سرپرستی میں قائم یہ تنظیم اب غیر فعال ہو چکی ہے۔

بھارت کی متماز طبی شخصیات میں حکیم انیس احمد انصاری، حکیم سید ظل الرحمن، حکیم افضال احمد، حکیم شاکر جمیل، پروفیسر قمر رضاکاظمی، حکیم رشید قدیر، ڈاکٹر عبدالطیف، ڈاکٹر عاصم علی خان، ڈاکٹر سعید عثمانی پرنسپل الہٰ آباد طبیبہ کالج، حکیم محمد سلیم صدیقی،حکیم الطاف احمد اعظمی ،ڈاکٹر سید اسد پاشا نائب مشیر "یونانی" حکومت ہند،محسن دہلوی، وغیرہ شامل ہیں۔



بھارت میں طب یونانی کےحالات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی اطباء اور ان کی قیادتیں کنویں کے مینڈک اور اپنے ہی حصار کے گرد گھومنے میں لگی ہوئی ہیں اور عالمی فکر ونظر کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا طب یونانی کے حوالے سے دنیا میں کوئی واضح مقام نہیں ہے جبکہ بھارت اس میدان میں بہت نمایاں ہے۔تحقیق اور باہمی تعاون کے حوالے سے امریکن یونیورسٹی میں بھارت انڈین میڈیسن ریسرچ سینٹر کا قیام عمل میں لا چکا ہے جس کا لنک ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

http://www.crism.net/

اس کے علاوہ ساوتھ افریقن یونیورسٹی میں بھارت یونانی چئیر کے قیام کےلئے کوشاں ہے

آیوش ڈیپارٹمنٹ کی تحقیقی مواد پر مبنی ایک ویب پورٹل کا بھی اجرا کیا جا چکا ہے جس کا لنک درج ذیل ہے

http://ayushportal.ap.nic.in/Default.aspx

سی سی آر یو ایم کی سرگرمیاں خصوصاً تحقیقی پراجیکٹ ان کی درج ذیل سائٹ پر وزٹ کئے جا سکتے ہیں

http://www.ccrum.net/research/emr-project/



اور اگر وطن عزیز میں دیکھا جائے تو اکلوتی نیشنل کونسل فار طب حکومت پاکستان کی ویب سائٹ ناچیز کی ذاتی کوششوں اور تگ و دو سے کئی ماہ وزارتوں کے چکر لگانے کے بعد وجود میں آئی اور کونسل کے الیکشن کے ایک ماہ بعد اس کا وجود مٹ گیا۔چار سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔اقبال قرشی ،ڈاکٹر زاہد اشرف ، صدر و ممبران کونسل کس کس کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کر چکا لیکن ویب سائٹ ندارد ہے۔اگرچہ ذاتی کوششوں اور اثر و رسوخ سے دوبارہ اسے آن لائن لا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں۔ یہ کام ادارہ کرے کیونکہ یہ اداروں کے کام ہیں فرد واحد یا شخصیات کے کارنامے اس شخصیت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں ۔تاہم اداروں "کے" کام اور اداروں "میں" کام چلتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہیں چلنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ حرکت زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔اور جمود ۔۔۔۔۔۔موت کا دوسرا نام ہے۔


طب یونانی کے سلسلے میں حکومت ہند کے اقدامات کو حسد نہیں بلکہ رشک کے طور پر لینا چاہئے اور طب یونانی کے حوالے سے سرکاری سطح پر باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
do68jebivj.jpg

آؤ تجدید عہد کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیگر تمام شعبوں اور اداروں کی تعمیر میں کوتا ہیوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنی قوم کے مسئلہ صحت

کے حل کےلئے بھی اغیار کے محتاج ہیں۔حالانکہ بانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ‘علامہ اقبال اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح طب یونانی(اسلامی) سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور پاکستان میں طب مغرب (ایلوپیتھک)کے مطابق تمام تر وسائل طب یونانی کو بھی فراہم کرنے کے خواہاں تھے نیز اسے قومی طریق علاج کا درجہ دینے کے خواہشمند تھے لیکن نااہل مغرب زدہ قیادتوں کی بدولت آج نصف صدی سے زائد گذرنے کے باوجود طب یونانی اسلامی کی حالت انتہائی ابتر اور سنگین تر ہے۔طب اسلامی کے معاملات اورطبی ادارے منفی سیاست کی وجہ سے مزید زبوں حالی کا شکار ہوچکے ہیں ۔طبی نظام تعلیم انتہائی ناقص ہوچکا ہے۔ طب اور طبیب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان حالات میں تمام منتشر اطبائے کرام ‘طبی تنظیمیں اور عمائدین و قائدین طب‘ متحد ہوں اورہرقسم کی سیاست وتعصب سے بالا تر ہو کر‘علمی و سائنسی انداز فکر اپناتے ہوئے ‘طب یونانی اسلامی مشرقی کی ترویج و ترقی کو اپنا مقصد اولین بنالیں نیز اپنی منزل کا تعین کرکے تمام تر قوت اورتوانائیاں اس پر لگاکرتعمیر پاکستان کی تکمیل کےلئے تعمیر طب کے سفر کانئے سرے سے آغاز کریں۔اس وقت جبکہ پنجاب حکومت ہومیو پیتھ اور حکماءکو اپنے مخصوص شعبہ کی ادویات استعمال کرنے کا پابند بنانے اورضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لئے قوائد و ضوابط تشکیل دینا چاہتی ہے کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اس اقدام کی بھرپور حمائت کرتی ہے تاہم یہ امید بھی رکھتی ہے کہ طب یونانی کے فروغ کےلئے عمائدین پاکستان کے مطابق اسے بھی وہ تمام سہولیات بہم پہنچائے گی جو اجارہ دار غالب طریق علاج یعنی ایلوپیتھک کو ودیعت کی گئی ہیں ۔ یاد رکھنا چاہئے کہ صحت پالیسیوں کے ثمرات عوام خصوصاً دیہاتی آبادی کو تبھی پہنچ سکیں گے جب تمام ہیلتھ پالیسیوں اور اسکیموں میں طب یونانی کو بھی شامل کیا جائے گاطب یونانی اور اس کی صنعت دواسازی کو فروغ دینے سے پاکستان اپنا قومی مسئلہ صحت حل کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔اس حوالے سے دیگر وزراءاعلیٰ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو خاص طور پرفوری طورپرنوٹس لینا چاہئے اورقائدین وبانیان پاکستان کی خواہشات کے مطابق سرکاری سرپرستی میں طب یونانی کی ترویج و ترقی کےلئے ہنگامی بنیادوں پرعملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
 
حکیم خالد صاحب آپ نے اپنی جامع تحریر میں عمدہ معلومات پیش کی ہیں۔ جزاک اللہ
ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے ہندوستان میں یونانی ڈاکٹروں کو ایلوپیتھی میں بھی پریکٹس کی اجازت ہے۔
72ccgfnz7u.jpg
 
حکیم خالد صاحب! طب یونانی کو ترقی دینے کے لیے اور دنیا کو اس سے آشنا کرانے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے اطباء کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے طب یونانی کو عصر حاضر کے مطابق اور جدید سائنسی نظریات سے ہم آہنگ بنایا جائے تا کہ لوگوں کی توجہ اور رغبت بڑھے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں چاہیے کہ طب یونانی کے حوالے سے ایک عالمی تنظیم بنائی جائے جس میں ہندوستان، پاکستان اور ایران کے طبی اداروں کو ایک محور پر لاکر کھڑا کیا جائے اور منزل تک رسائی کے لیے سمت و سو مقرر کیا جائے۔ اس امر کو جامہ عمل پہنانے کے لئے میں کافی حد تک آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں کیونکہ مجھے انگلش، عربی، فارسی، اردو اور ہندی پر مکمل عبور حاصل ہے اور مزید یہ کہ جدید میڈیکل سائنس اور جنرل سائنس حتی کہ نباتیات، حیوانیات اور کمیا سے بھی واقفیت ہے جیسا کہ شاید آپ کو میری کتابوں کے مطالے سے اندازہ ہوگیا ہوگا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان اور ایران کے بعض طبی اداروں مثلا Traditional Iranian Medicine Research Association سے میرے تعلقات بھی ہیں۔
میری اس تحریر سے ہو سکتا ہے کہ خود ستائی کی بو آ رہی ہو، مگر میں نے مذکورہ باتیں اپنی تعریف میں نہیں بلکہ اپنے تعارف کے لئے لکھیں ہیں، اور ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب تک انسان بولتا نہیں ہے تب تک پہچانا نہیں جاتا، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک انسان نہیں بولتا ہے تب تک اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔
 

hakimkhalid

محفلین
حکیم خالد صاحب آپ نے اپنی جامع تحریر میں عمدہ معلومات پیش کی ہیں۔ جزاک اللہ
ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے ہندوستان میں یونانی ڈاکٹروں کو ایلوپیتھی میں بھی پریکٹس کی اجازت ہے۔
72ccgfnz7u.jpg
شکریہ ڈاکٹر معظم صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے میری ایک حیرانی ختم کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھارت کے کم و بیش چارسرکاری اور غیر سرکاری دوروں کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ کم و بیش پچاس سے زائد اطباء کی پریکٹس میں ایلوپیتھک کی مکسوپیتھی کو بھی شامل پایا ۔۔۔۔۔اس حوالے سے میرے متعدد سوالات تشنہ رہ گئے لیکن آپ کی فراہم کردہ آفیشل معلومات سے ان کی تکمیل ممکن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لئے آپ کا دوبارہ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ ہمارے ہاں ۱۹۹۵سے ڈگری کورس bemsشروع کیا گیا ہے اس وقت چار یونیورسٹیوں میں یہ ڈگری کورس جاری ہے۔۔۔۔۔۔اور ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے معیار کے عین مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود ہمارے ہاں ایلوپیتھک کی مکسو پیتھی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایمر جنسی ٹریٹمنٹ کے طور پر مجاز اطباء کو اس کی اجازت کے خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کلاسیک طب یونانی کو بھول کر صرف ایلوپیتھک پریکٹس اجازت ہونے کے باوجود بہت معیوب خیال کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

hakimkhalid

محفلین
حکیم خالد صاحب! طب یونانی کو ترقی دینے کے لیے اور دنیا کو اس سے آشنا کرانے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے اطباء کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے طب یونانی کو عصر حاضر کے مطابق اور جدید سائنسی نظریات سے ہم آہنگ بنایا جائے تا کہ لوگوں کی توجہ اور رغبت بڑھے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں چاہیے کہ طب یونانی کے حوالے سے ایک عالمی تنظیم بنائی جائے جس میں ہندوستان، پاکستان اور ایران کے طبی اداروں کو ایک محور پر لاکر کھڑا کیا جائے اور منزل تک رسائی کے لیے سمت و سو مقرر کیا جائے۔ اس امر کو جامہ عمل پہنانے کے لئے میں کافی حد تک آپ کا ساتھ دے سکتا ہوں کیونکہ مجھے انگلش، عربی، فارسی، اردو اور ہندی پر مکمل عبور حاصل ہے اور مزید یہ کہ جدید میڈیکل سائنس اور جنرل سائنس حتی کہ نباتیات، حیوانیات اور کمیا سے بھی واقفیت ہے جیسا کہ شاید آپ کو میری کتابوں کے مطالے سے اندازہ ہوگیا ہوگا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان اور ایران کے بعض طبی اداروں مثلا Traditional Iranian Medicine Research Association سے میرے تعلقات بھی ہیں۔

میری اس تحریر سے ہو سکتا ہے کہ خود ستائی کی بو آ رہی ہو، مگر میں نے مذکورہ باتیں اپنی تعریف میں نہیں بلکہ اپنے تعارف کے لئے لکھیں ہیں، اور ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب تک انسان بولتا نہیں ہے تب تک پہچانا نہیں جاتا، بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک انسان نہیں بولتا ہے تب تک اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں۔

ڈاکٹر معظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی باتوں میں خود نمائی کی بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجزن دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ویسے بھی بعض شخصیات بھی اپنے اندر ایک ادارہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی خداداد صلاحیتوں سے اگر اجتماعی فائدہ ہو رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اس شخصیت کی ذاتی تشہیر لازم ہے۔۔۔۔۔۔۔بلکہ ذاتی طور پر اس کی حوصلہ افزائی و تشہیر اس کی مزید صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی تصنیفات زیر مطالعہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں آپ کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔معلومات کو "اوپن سورس" بنانے والا فرد میرے نزدیک زیادہ تحسین کے قابل ہے۔۔۔۔۔۔آپ کے خیالات سے متفق ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس حوالے سے جامع لائحہ عمل کا انتظار رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 
شکریہ ڈاکٹر معظم صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے میری ایک حیرانی ختم کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھارت کے کم و بیش چارسرکاری اور غیر سرکاری دوروں کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ کم و بیش پچاس سے زائد اطباء کی پریکٹس میں ایلوپیتھک کی مکسوپیتھی کو بھی شامل پایا ۔۔۔۔۔اس حوالے سے میرے متعدد سوالات تشنہ رہ گئے لیکن آپ کی فراہم کردہ آفیشل معلومات سے ان کی تکمیل ممکن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لئے آپ کا دوبارہ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ ہمارے ہاں ۱۹۹۵سے ڈگری کورس bemsشروع کیا گیا ہے اس وقت چار یونیورسٹیوں میں یہ ڈگری کورس جاری ہے۔۔۔۔۔۔اور ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے معیار کے عین مطابق ہے۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود ہمارے ہاں ایلوپیتھک کی مکسو پیتھی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایمر جنسی ٹریٹمنٹ کے طور پر مجاز اطباء کو اس کی اجازت کے خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کلاسیک طب یونانی کو بھول کر صرف ایلوپیتھک پریکٹس اجازت ہونے کے باوجود بہت معیوب خیال کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم
حکیم صاحب، یونانی اطباء کو ایلوپیتھک پریکٹس کی اجازت ہونا، عین انصاف ہے؛ کیونکہ ہمارے یہاں بی یو ایم ایس کے تعلیمی نصاب میں کافی حد تک ماڈرن میڈیسن کے مضامین شامل ہیں جو تقریبآ ایم بی بی ایس کے تعلیمی نصاب میں موجود متعلقہ مضامین سے مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ معیار کے اعتبار سے ان کے مساوی ہیں۔ بی یو ایم ایس کے تعلیمی نصاب کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے بی یو ایم ایس نصاب تعلیم دیکھیے۔
 
ڈاکٹر معظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی باتوں میں خود نمائی کی بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجزن دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ویسے بھی بعض شخصیات بھی اپنے اندر ایک ادارہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی خداداد صلاحیتوں سے اگر اجتماعی فائدہ ہو رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اس شخصیت کی ذاتی تشہیر لازم ہے۔۔۔۔۔۔۔بلکہ ذاتی طور پر اس کی حوصلہ افزائی و تشہیر اس کی مزید صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی تصنیفات زیر مطالعہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں آپ کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔معلومات کو "اوپن سورس" بنانے والا فرد میرے نزدیک زیادہ تحسین کے قابل ہے۔۔۔۔۔۔آپ کے خیالات سے متفق ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس حوالے سے جامع لائحہ عمل کا انتظار رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

باہمی اتفاق رائے کے ساتھ عنقریب ہی لائحہ عمل تیار کر لیا جائے گا، ابھی میں سفر پہ ہوں، انشاء اللہ ہندوستان پہنچ کر ایک جامع خاکہ پیش کروں گا اور اس پر آپ سے اظہار نظر چاہوں گا۔
 
Top