بھارتی فضائیہ کی ایل او سی کی خلاف ورزی، پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی پر بھارتی طیارے بھاگ نکلے

فرحت کیانی

لائبریرین
یوں معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر ہم اپنا ذہن پہلے سے بنا چکے ہوتے ہیں اور اپنے تصورات پہلے سے قائم کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی حقانیت کے لیے شاید کسی ہلکے پھلکے جواز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جوں ہی وہ جواز ہمیں مل جاتا ہے یا فراہم کر دیا جاتا ہے تو ہم حقیقت سے نظریں چرانے لگ جاتے ہیں۔ جی ہاں! جو باریک بین ہیں یا حقیقی ذمہ داران ہیں، وہ معاملات کی تہہ سے آگاہ ہوتے ہیں، تو وہ مصلحتاََ خاموش رہتے ہیں یا اگر کچھ کہیں بھی تو ان چند سو یا چند ہزار افراد کی میڈیا کی چکاچوند میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ آپ کی باتوں میں وزن ہے، تاہم، اگر میڈیا پر نگاہ دوڑائی جائے تو معاملات مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ چلیں، اس بات پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ میڈیا کی چکاچوند میں حقائق دب سے جاتے ہیں اور جب کبھی سامنے آئیں، تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور ہمارے سامنے نئے معاملات اور نئے مسائل آ چکے ہوتے ہیں اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔
اصل کاروائی آف دا کیمرہ ہوتی ہے۔ فوج بہت ظالم چیز ہے۔ میڈیا بے شک ابھی نندن کو ہیرو بنا رہا ہے لیکن ابھی تو اپنی فوج نے اس سے جو انٹیروگیشن کرنی ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
پاکستانی آرمی نے بھی جو ویڈیوز ریلیز کی ہیں وہ پی آر سٹنٹ ہے۔ جو انھوں نے پوچھنا تھا اس کے جواب وہ آف کیمرہ لے چکے ہوں گے۔ میڈیا اور ہم صرف ایک رخ کو دیکھ سکتے ہیں اور اسی پر خوش یا پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
 

ابوعبید

محفلین
ملکی حالات پہ گہری نظر رکھنے والے اور اخبارات میں کالم لکھنے والے ایک صحافی کا خیال ہے کہ پوری کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے جس کے تین حصے مکمل کامیابی سے پورے ہو چکے ہیں جب کہ چوتھے اور پانچویں حصے پہ کام جاری ہے ۔
ایسی باتیں فوری طور پہ تو کسی وہمی بندے کے ذہن کا اختراع لگتی ہیں ۔ لیکن اگر حالات کی کڑیوں کو ایک ایک کر کے ملایا جائے تو شاید کسی نہ کسی جگہ بہت کچھ ایسا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ۔۔ اللہ کرے کہ جو کچھ بھی ہو وہ پاکستان کے حق میں ہو ۔ آمین
ملکی سلامتی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے ۔ سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔۔
 

جان

محفلین
یوں معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر ہم اپنا ذہن پہلے سے بنا چکے ہوتے ہیں اور اپنے تصورات پہلے سے قائم کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی حقانیت کے لیے شاید کسی ہلکے پھلکے جواز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جوں ہی وہ جواز ہمیں مل جاتا ہے یا فراہم کر دیا جاتا ہے تو ہم حقیقت سے نظریں چرانے لگ جاتے ہیں۔ جی ہاں! جو باریک بین ہیں یا حقیقی ذمہ داران ہیں، وہ معاملات کی تہہ سے آگاہ ہوتے ہیں، تو وہ مصلحتاََ خاموش رہتے ہیں یا اگر کچھ کہیں بھی تو ان چند سو یا چند ہزار افراد کی میڈیا کی چکاچوند میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ آپ کی باتوں میں وزن ہے، تاہم، اگر میڈیا پر نگاہ دوڑائی جائے تو معاملات مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ چلیں، اس بات پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ میڈیا کی چکاچوند میں حقائق دب سے جاتے ہیں اور جب کبھی سامنے آئیں، تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور ہمارے سامنے نئے معاملات اور نئے مسائل آ چکے ہوتے ہیں اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔
کنفرمیشن بائس۔
 

فرقان احمد

محفلین
بلاشبہ عالمی برادری کا پاکستان پر شدید دباؤ ہے کہ شدت پسند تنظیموں سے فوری طور پر جان چھڑوائی جائے۔ اس حوالے سے اب قریب قریب سبھی ممالک بشمول 'دوست' ممالک کی اکثریت بھی اپنے قول و فعل سے اپنی 'لائن' اور اپنا موقف واضح کرتے جا رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ سول اور عسکری قیادت کایک بار پھرکڑا امتحان ہونے جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے مرکزی حکومت کے پاس تجربے کی کمی ہے اور ان کی سمت کا تعین 'خاکیان' ہی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری دانست میں، عسکری اذہان کی تربیت اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ تہہ دار معاملات اور سفارتی امور سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں اور ان میں فطری طور پر سخت گیری کا عنصر موجود ہوتا ہے جس کے باعث ہمارے لیے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادتیں، جیسی تیسی بھی کیوں نہ ہوں، امن کا پرچار کرتی دکھائی دیتی ہیں اور یہ محاذ بھی ان کے سپرد ہونا چاہیے کہ وہ دیگر ملکوں کے ساتھ معاملات کو طریقے سلیقے کے ساتھ نمٹائیں۔ شاہ محمود قریشی بظاہر ذہین فطین شخصیت ہیں تاہم انہیں بھی ایک کمزور کیس کو لڑتے ہوئے سخت مشکل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان صاحب نے پارلیمانی رہنماؤں کی میٹنگ میں جس طرح اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے، وہ بجائے خود نازیبا ہے۔ ایسے مواقع پر سول و عسکری قیادت اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو متحد ہو جانا چاہیے۔ ہم اندر سے کمزور ہوں گے تو ہم پر جو وار ہو گا، ہم اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہ رہیں گے۔ احتساب کا عمل اداروں پر چھوڑ کر ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ دوسری جانب، ہندوستان کے لیے فضا موافق ہے۔ عالمی برادری زیادہ تر اس کی پشت پر ہے۔ بہتر ہو گا کہ ہم کسی نہ کسی طرح ہندوستان کو مذاکرات کی میز پر لائیں اور اسی بہانے دیرینہ تنازعات سے نمٹنے کی تدابیر اختیار کریں۔ یہ وہ موقع ہے کہ ہم عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف استدلال کے ساتھ پیش کریں۔خدشہ ہے کہ اس بار نمائشی اقدامات سے عالمی برادری مطمئن نہ ہو پائے گی۔ ہمیں بھی منافقت ترک کرنا ہو گی کہ اب اس سے کچھ حاصل وصول نہ ہوگا۔ کشمیر کے حوالے سے بالخصوص ہمیں اپنا موقف واضح کرنا ہو گا کہ اگر کشمیری خود ہتھیار اٹھاتے ہیں تو ہمیں اس کا الزام نہ دیا جائے تاہم اگر پاکستانی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو ہمیں واقعی اپنا گھر صاف کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے نمائشی اقدامات شاید ہمارے کسی کام نہ آئیں گے۔ہمارا جو نیا بیانیہ ترتیب پائے، اس میں پراکسی وار کا عنصر شامل نہ ہو تو بہتر ہے۔ اب ہمیں اپنا گھر صاف کرنا ہو گا اور میڈیا کے محاذ پر اپنا کیس مضبوط انداز میں پیش کرنا ہو گا۔ سچ بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے سے قبل ہی ہمارا بیانیہ اسی طور طے پا جانا چاہیے تھا تاکہ ہمیں ان مسائل سے نہ گزرنا پڑتا۔
 
آخری تدوین:
بلاشبہ عالمی برادری کا پاکستان پر شدید دباؤ ہے کہ شدت پسند تنظیموں سے فوری طور پر جان چھڑوائی جائے۔
اہم اگر پاکستانی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو ہمیں واقعی اپنا گھر صاف کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے نمائشی اقدامات شاید ہمارے کسی کام نہ آئیں گے۔ہمارا جو نیا بیانیہ ترتیب پائے، اس میں پراکسی وار کا عنصر شامل نہ ہو تو بہتر ہے۔ اب ہمیں اپنا گھر صاف کرنا ہو گا

یہ سراسر غداری کی باتیں ہیں۔ ایک اور ڈان لیکس نا کریں۔ :)
 
ہماری دانست میں، عسکری اذہان کی تربیت اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ تہہ دار معاملات اور سفارتی امور سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں اور ان میں فطری طور پر سخت گیری کا عنصر موجود ہوتا ہے جس کے باعث ہمارے لیے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
2006-07 میں جنرل پرویز مشرف کا آئی پی پیز کو رقم کی ادائیگی سے انکار ہمیں اگلی ایک دہائی تک لوڈ شیڈنگ کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ :)
 
ہمارا جو نیا بیانیہ ترتیب پائے، اس میں پراکسی وار کا عنصر شامل نہ ہو تو بہتر ہے
اس بات سے کچھ متفق اور کچھ غیر متفق ہوں۔ یاد رہے کہ ہمارا ازلی دشمن مکار ہے، موقع ملنے پر ضرب لگانے سے کبھی نہیں چُوکے گا۔ پراکسی کبھی ختم نا ہونے والی چیز ہے، بس اس پراکسی میں سے ’مقامی اثاثوں‘ کو ’غیر مقامی اثاثوں‘ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دو سال قبل اپنی ہی لکھی ایک پوسٹ کا اقتباس دے رہا ہوں۔
زمانہ امن ہو تو عقلمند وہی ہوتا ہے جو دشمن کو اس کے اپنے ہی گھر میں انگیج کر کے رکھے۔ اور اس کی مثال آج سے پندرہ سال پہلے اور ابھی تک کے پاکستان سے زیادہ کیا دی جا سکتی ہے۔
 

جان

محفلین
جس قوم میں تدبر و حکمت عملی کی بجائے جذبات و تقدس ٹھونس دیے جائیں اس کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ تقدس و جذبات وہ فلٹرز ہیں جس میں سے سچ نہیں گزر سکتا۔ حقیقت کا ادراک نہ ہو تو ہر حکمت عملی الٹی پڑ سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
نندن کے استقبال کے بعد کیا تاثرات ہیں ؟
پاکستان کے عسکری نظام کی تعریف کر کے پھنس تو گیا ہوگا۔
بھارت کا پڑھا لکھا انٹیلیکچول طبقہ اپنے میڈیا کے بہکاوے میں نہیں آرہا۔ وہاں کوشش تو بہت ہوئی تھی کہ ابھی نندن کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔ مگر اہل علم نے اس کی مکمل نفی کر دی ہے
 
نندن کے استقبال کے بعد کیا تاثرات ہیں ؟
اس کے تاثرات ایک تصویر کی شکل میں سوشل میڈیا پر آوارہ ہیں۔ یہاں پوسٹ کردی تو امن کے پیامبروں نے سب کچھ قے کر دینا ہے۔ :)
پاکستان کے عسکری نظام کی تعریف کر کے پھنس تو گیا ہوگا۔

بدرنگی کی سریں تھیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس بات سے کچھ متفق اور کچھ غیر متفق ہوں۔ یاد رہے کہ ہمارا ازلی دشمن مکار ہے، موقع ملنے پر ضرب لگانے سے کبھی نہیں چُوکے گا۔ پراکسی کبھی ختم نا ہونے والی چیز ہے، بس اس پراکسی میں سے ’مقامی اثاثوں‘ کو ’غیر مقامی اثاثوں‘ سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دو سال قبل اپنی ہی لکھی ایک پوسٹ کا اقتباس دے رہا ہوں۔
مزید یہ کہ آپ کے الفاظ یہ بھی ہیں، "
زمانہ امن ہو تو عقلمند وہی ہوتا ہے جو دشمن کو اس کے اپنے ہی گھر میں انگیج کر کے رکھے۔ اور اس کی مثال آج سے پندرہ سال پہلے اور ابھی تک کے پاکستان سے زیادہ کیا دی جا سکتی ہے۔"

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------

ہندوستان نے یہ جو بیانیہ اختیار کیا ہے، اس میں فقط یہی جھول ہے کہ اگر کشمیری بذاتِ خود ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو اُس کے لیے یہ بات دردِ سر بن جاتی ہے تاہم اس کا کیا علاج کہ کشمیر میں ہتھیار اٹھانے والوں کا لنک ہندوستان پاکستان سے جوڑ دیتا ہے۔ ہماری دانست میں کشمیر میں جنگِ آزادی کے حوالے سے کوئی فطری اٹھان موجود نہیں ہے۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کے حوالے سے خود تذبذب کا شکار ہے۔ وہاں، آزادی کے لیے ایک ایسی تحریک سامنے نہیں آ رہی ہے جو کہ ہندوستان کو ہلا کر رکھ دے۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کشمیر میں مداخلت نہ کرے تو وہاں کے معاملات ہندوستان بخوبی چلا سکتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کشمیری ہندوستان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں تاہم وہ بوجوہ لڑنے جھگڑنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ اس طرح تو یہ معاملہ معلق رہے گا۔ بہتر ہو گا کہ ہندوستان اور پاکستان پراکسی وار سے ہٹ کر اب سنجیدگی سے دوستانہ تعلقات کے لیے قیام کے لیے کوششیں کریں۔یہاں یہ بات کرنا بہت ضروری ہے کہ مودی کے اندر وژن کا شدید فقدان ہے اور وہ ہندوستان کا ایک بدترین ترجمان ہے۔ جو سچ پوچھیں تو دراصل واجپائی اور مودی میں بہت فرق ہے اور اب تو ہمیں بھی واجپائی کی قدر محسوس ہو رہی ہے کہ پچھلی صدی کے آخر میں جو کچھ پاک و ہند کی سیاسی قوتیں کرنے جا رہی تھیں، وہ ناقابل یقین اور قریب قریب معجزانہ پیش رفت تھی۔ تاریخ میں ایسے مواقع بار بار نہیں آیا کرتے تاہم اس کا کیا کریں کہ ہمیں کارگل مچانے کا بہت شوق تھا۔ جب اس طرح کے مس ایڈونچر ہوتے ہیں تو پھر اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ اب ہم ہندوستان کو کیا انگیج کریں گے کہ ان کا بیانیہ پوری دنیا میں شد و مد سے دہرایا جا رہا ہے۔اس دور میں بات تو محض پرسیپشن کی ہوتی ہے؛ اس جنگ میں ہمیں ناکامی کا سامنا ہے۔ ہم بے سمتی کا شکار ہیں اور بدقسمتی سے حالات و واقعات ہمارے رخ کا تعین کر رہے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا ہم سفارتی سطح پر انڈیا کی مداخلت کے ثبوت (بلوچستان یا کلبھوشن وغیرہ ) کو انٹرنیشنل سیاسی ماحول میں موثر طریقے سے پاکستان کے حق میں استعمال کر سکے ہیں ؟ میرا خیال ہے نہیں ۔
اگر واقعی نہیں تو یہ سوچنا ہوگا کہ اس میں "کیا" امور مانع ہیں اور ہماری ایجنسیوں کی قابلیت کس میدان میں کام آرہی ہے ۔ اس میں ایک امر یہ بھی رہا ہے کہ سیاسی قیادتوں کو پاکستان کا کوئی حقیقی خیال نہ رہا محض خؤد پروری اور اقربا پروری ہوتی رہی اور یہ بہت بڑا جزو ہے اس کمزوری کا جسے ناکامی کہا جانا چاہیئے ۔
 

فرقان احمد

محفلین
کیا ہم سفارتی سطح پر انڈیا کی مداخلت کے ثبوت (بلوچستان یا کلبھوشن وغیرہ ) کو انٹرنیشنل سیاسی ماحول میں موثر طریقے سے پاکستان کے حق میں استعمال کر سکے ہیں ؟ میرا خیال ہے نہیں ۔
اگر واقعی نہیں تو یہ سوچنا ہوگا کہ اس میں "کیا" امور مانع ہیں اور ہماری ایجنسیوں کی قابلیت کس میدان میں کام آرہی ہے ۔ اس میں ایک امر یہ بھی رہا ہے کہ سیاسی قیادتوں کو پاکستان کا کوئی حقیقی خیال نہ رہا محض خؤد پروری اور اقربا پروری ہوتی رہی اور یہ بہت بڑا جزو ہے اس کمزوری کا جسے ناکامی کہا جانا چاہیئے ۔
ہندوستان کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت تک لے گیا ہے۔ کیا ہم بھی ایسا کرنے کو تیار ہیں کہ اپنی سرزمین پر موجود افراد کو کسی ایسے فورم پر پیش کریں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی ہے کہ دیگر ممالک کو مطلوب افراد شدید علیل ہیں اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے اور انہیں ملکی عدالتوں تک میں اب تک پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ بہرصورت، ہمیں کوئی مضبوط موقف اپنانے کی اشد ضرورت ہے جو کم از کم ہمیں ہی مطمئن کر دے۔ عالمی برداری کے مطالبات تو شاید بہت زیادہ ہیں۔
 
Top