بھائی چین رائے لُنڈ سامی ( 1850- 1743 )۔ پھر رات ڈھلی پھر دِید مجھے، اِک عالم نیند کا

طارق شاہ

محفلین
بھائی چین رائے لُنڈ سامی
1850- 1743
( شکارپور سندھ )
پھر رات ڈھلی پھر دِید مجھے، اِک عالم نیند کا جاتا ہے
پھر مورا پاپی من مجھ کو، مدھ پینے پر اُکساتا ہے
میں کیسے تجھے سمجھاؤں سکھی، وہ پُھولوں کی کومَلْتا ہے
میں ایک مہک بن جاتی ہوں، جب ساجن گھر کو آتا ہے
وہ گاؤں کی گوری پنگھٹ پر، جس وقت مٹکتے آتی ہے
ہر تیاگ لرزنے لگتا ہے، بیراگ بہت بل کھاتا ہے
اے کوئل اتنا کُوک، کہ اُس پاپی کے من سے ہُوک اُٹھے
جو اِس جِیوَن کے پگ پگ پر ہربھگوَن کو ٹُھکراتا ہے
میں اپنے من میں اِک سُورج کی کھوج لگائے رہتا ہوں
جب رَین اندھیری ہوتی ہے، جب نِیل کنْوَل کُمْلاتا ہے
یہ پرِیت یہاں کی پرِیت نہیں ہے تیرے میرے نینوں میں
اک درد درد کا بندھن ہے، اِک جنم جنم کا ناتا ہے
جو جنم جنم بھٹکاتا ہے، جو نئے نئے دکھ دیتا ہے
یہ سامی مدھرا پی کر کیوں اُس پاپی کے گُن گاتا ہے
چین سے لُنڈ سامی
(ترجمہ: شیخ ایاز)
 

باباجی

محفلین
واہ شاہ جی کیا خوب کلام شیئر کیا ہے


جو جنم جنم بھٹکاتا ہے، جو نئے نئے دکھ دیتا ہے
یہ سامی مدھرا پی کر کیوں اُس پاپی کے گُن گاتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
واہ شاہ جی کیا خوب کلام شیئر کیا ہے


جو جنم جنم بھٹکاتا ہے، جو نئے نئے دکھ دیتا ہے
یہ سامی مدھرا پی کر کیوں اُس پاپی کے گُن گاتا ہے

تشکّر بابا جی اظہارِ خیال اور انتخاب کی پذیرائی کے لئے
بہت خوش رہیں صاحب!
 

طارق شاہ

محفلین
یعنی کم از کم اس زمانے میں چین میں غزلیں کہی جاتی تھیں!!
بہت خوب
عبید صاحب!
قوائدِ تحریر و خواندگئ زبان اردو ، کی رُو سے جس تحریر پر کوئی اعراب ثلا ثہ نہ ہو اُسے فتح (زبر ) سے پڑھا جائے گا
(یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کی پابندی نہیں کرتے ) میں نے اِسی وجہ، مبالغہ یا خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی
شاعرکے نام، کے نیچے شکارپور سندھ لکھ دیا تھا :)

اظہارِ خیال اور داد کے لئے متشکّر ہوں
بہت شاد رہئے
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب طارق شاہ صاحب
اے کوئل اتنا کُوک، کہ اُس پاپی کے من سے ہُوک اُٹھے
جو اِس جِیوَن کے پگ پگ پر ہربھگوَن کو ٹُھکراتا ہے
عمدہ انتخاب
تشکّرسید صاحب!
اظہارِ خیال اور انتخاب پر داد کے لئے ممنون ہوں
مُسّرت ہوئی، جو انتخاب پسند آیا
بہت خوش رہیں
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کلام شریک محفل کیا ہے محترم بھائی
میں کیسے تجھے سمجھاؤں سکھی، وہ پُھولوں کی کومَلْتا ہے
میں ایک مہک بن جاتی ہوں، جب ساجن گھر کو آتا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
واہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کلام شریک محفل کیا ہے محترم بھائی
میں کیسے تجھے سمجھاؤں سکھی، وہ پُھولوں کی کومَلْتا ہے
میں ایک مہک بن جاتی ہوں، جب ساجن گھر کو آتا ہے
بہت نوازِش اظہارِ خیال اور اِس پذیرائیِ اِنتخاب پر نایاب صاحب
خوشی ہُوئی، جو اِنتخاب آپ کو پسند آیا
تشکّر
بہت شاد رہیں
 

الف عین

لائبریرین
قوائدِ تحریر و خواندگئ زبان اردو ، کی رُو سے جس تحریر پر کوئی اعراب ثلا ثہ نہ ہو اُسے فتح (زبر ) سے پڑھا جائے گا​
(یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کی پابندی نہیں کرتے ) میں نے اِسی وجہ، مبالغہ یا خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی​
شاعرکے نام، کے نیچے شکارپور سندھ لکھ دیا تھا​
لیکن پھر ترجمہ سے کیا غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ میں سمجھا کہ چِین سے کوئی صاحب کبھی سندھ آئے ہوں گے۔ اور یہاں اردو غزلوں سے متاثر ہو کر چینی میں بھی غزلیں کہی ہوں گی، جن کا ترجمہ کیا گیا ہے۔​
 

طارق شاہ

محفلین
لیکن پھر ترجمہ سے کیا غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ میں سمجھا کہ چِین سے کوئی صاحب کبھی سندھ آئے ہوں گے۔ اور یہاں اردو غزلوں سے متاثر ہو کر چینی میں بھی غزلیں کہی ہوں گی، جن کا ترجمہ کیا گیا ہے۔​
عبید صاحب کتاب سے ذرا سا اقتباس پہلے ہی ڈال دینا چاہئے تھا، چلیں دیر آید درست آید :)

بھائی چین رائے لُنڈ سامی
1850- 1743
( شکارپور سندھ )
سندھی شاعری کی زندہ روایت میں بھائی چین لُنڈ سامی اپنے ویدانتی طرز اسلوب نگارِش کی بنا پر ایک جداگانہ شخصیت کے حامل ہیں کہ اُن کے بغیر سندھی شعری روایت
کی تکمیل ممکن نہیں ہے. وہ شکارپور کے ایک ایسے ہندو گھرانے میں پیدا جو لُند قوم سے تعلق رکھتا تھا .تمام تر عیش و آرام اور آسائشیں میّسر ہونے پر بھی، وہ بچپن سے
ہی ویدانت کی طرف مائل تھے، اُن کی اِس رحجان اور شخصیت کی تکمیل میں اُن کے استاد سنت سوامی مینگھراج کا بہت گہرا ہاتھ رہا. وہ اپنے استاد سے اس قدر، بوجہ
عقیدت و فن متاثر تھے کہ اپنا تخلص بھی، اُن کی نسبت سے سامی اختیار کیا.
بھائی چن رائے سامی 97 برس کی عمر پائی وہ 1850 میں سورگ باش ہوئے
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے پینسٹھ کی عمر پائی تھی جبکہ سچل نے ٩٠ سال کی عمر میں وفات پائی تھی

سامی نے کلہوڑہ دور کے آخری چند سال، تالپورعہد اور سندھ پر انگریزوں کا راج و حال دیکھا تھا اور سندھی سماج اور معاشرے کی اُتھل پَتھل
اور شکست و ریخت کا مشاہدہ کیا تھا

عام آدمی کی زندگی میں جو آزردگی شامل ہوگئی تھی اُسے شاہ لطیف نے محاکاتی شاعری سے، سچل نے اپنے باغی للکار سے اور
سامی نے اپنے مَدُھرتا سے دُور کرنا چاہا تھا، چنانچہ شاہ لطیف، سچل اورچین رائے سامی سندھی مزاج کے آئینہ دار اور سندھی روح کی پُکار ہیں
تینوں سندھی سماج کے بحرانی دَور کے پیداوار ہیں اور سندھی سماج کے نئے جنم کے نقیب ہیں.
یہ فطری و روحانی اعتبار سے ایسے مفکر شاعر اور فنکارجنھوں نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی

بے شک سامی کے سلوک سندھ کی دکھی ہوئی روح پر فرحت افزا مرہم ہے،سامی کے سلوک سندھی شاعری کی روایت میں ویدانتی سکون اور مدھرتا کی پھوار ہیں

سید مظہر جمیل کے "جدید سندھی ادب" سے اقتباس
 
Top