بچے من کے سچے؟

deja vu لفظ فرانسیسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ایک ایسی سنسنی خیزکیفیت ہے جس میں انسان ایک تجربے یا واقعے میں سے گزرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ ایسا واقعہ یا تجربہ پہلے بھی اس پر گزر چکا ہے۔ چاہے ایسا واقعہ یا تجربہ حقیقت حال میں رونما نہ ہوا ہو۔
اردو میں اس کے لئے لفظ ”دزاوا“ ہے جس کا مطلب التباس۔ابہام و تجنیس یا پہچانی دھوکا ہے۔
بہر حال دھاگے کا موضوع اور نیرنگ خیال بھائی کا deja vu کا خیال دو مختلف چیزیں ہیں۔ :):):)
لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اور اسکی حقیقت کیا ہے؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
deja vu لفظ فرانسیسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ایک ایسی سنسنی خیزکیفیت ہے جس میں انسان ایک تجربے یا واقعے میں سے گزرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ ایسا واقعہ یا تجربہ پہلے بھی اس پر گزر چکا ہے۔ چاہے ایسا واقعہ یا تجربہ حقیقت حال میں رونما نہ ہوا ہو۔
اردو میں اس کے لئے لفظ ”دزاوا“ ہے جس کا مطلب التباس۔ابہام و تجنیس یا پہچانی دھوکا ہے۔
بہر حال دھاگے کا موضوع اور نیرنگ خیال بھائی کا deja vu کا خیال دو مختلف چیزیں ہیں۔ :):):)
تصحیح۔
Deja Vu میرا خیال نہیں ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اور اسکی حقیقت کیا ہے؟
لمبی بحث ہے۔ قیصرانی بھائی اور فلک شیر چیمہ صاحب جیسی صاحب علم ہستیاں ہی جواب دے سکتی ہیں۔ یا پھر اپنے حاتم راجپوت بھائی۔ جن سے سوال داغا گیا ہے۔ اور انہوں نے انتہائی مشکل اردو میں اس کا جواب بھی دیا ہے۔ :)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اور اسکی حقیقت کیا ہے؟
یوں تو اس پر بہت سی تھیوریز بن چکی ہیں لیکن میں جسے مانتا ہوں وہ یہ کہ کسی بھی واقعے یا تجربے سے گزرتے ہوئے ہم چیزوں کو پہچانی شکل دینے کیلئے ایک خاکے کا لاشعوری استعمال کرتے ہیں جیسے آپ اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اور آپ کی ٹیبل کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ ہے۔ اگر آپ آنکھیں بند کر کے یا منہ دوسری طرف کر کے کمرے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنائیں گے تو آپ کو میز شمالی دیوار کے ساتھ ہی بنی نظر آئے گی۔ سمجھئے کہ اگر اسی میز پر ایک چھوٹا سا کلاک ہے تو وہ بھی اسی خاکے میں میز پر پڑا نظر آئے گا۔ اب آپ نے جب بھی ٹائم دیکھنا ہوتا ہے تو آپ گردن گھما کر ہر طرف کلاک کی تلاش نہیں کرتے بلکہ سیکنڈ کے سوویں حصہ میں آپ کی نظر میز پر پڑے کلاک پر چلی جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کسی بھی جگہ اور کسی بھی سچویشن میں ہم چیزوں کا سرسری جائزہ لے کر ایک پہچانی خاکہ قائم کرتے ہیں ۔اور اسی کی بنیاد پر ہمارے اگلے خیالات جنم لیتے ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ یہ پہچانی خاکہ ایک امکانی خاکے کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ اس امکانی خاکے میں وہ تمام تر انفارمیشن ذخیرہ ہے جس کا ہم اس پہچانی خاکے میں امکان رکھ سکتے ہیں لیکن وہ انفارمیشن ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی ہے لہذا صرف سوچنے سے ہم اس پر گرفت نہیں کر پاتے۔ ہمارے دماغ میں موجود نیورل سسٹم بڑے غیر محسوس طریقے سے اس پہچانی خاکے میں برقی رو چھوڑ کر آؤٹ پٹ ہماری میموری تک پہنچاتا رہتا ہے جسے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال اوپر دی جا چکی ہے لیکن کبھی کبھی نیورل سسٹم کی برقی رو پہچانی خاکے کے گرد چکر پورا کرنے کے بجائے اپنا رستہ چھوٹا کرتی ہے اور پہچانی خاکے کے اندر بنے امکانی خاکے میں سوراخ کر کے واپس آ جاتی ہے۔یہ سارا عمل سیکنڈ کے ہزارویں سے بھی کم حصے میں مکمل ہوتا ہے اور دوبارہ سے برقی رو کا نارمل روٹ بحال ہو جاتا ہے لیکن امکانی خاکے میں سے گزری برقی رو نے پہچانی امکان کی بہت سے لاشعوری یادداشتوں کے اوپری خاکے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہوتا ہے ۔یہ یاد داشتیں جب ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہیں تو وہ انہیں بھی میموری کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب نارمل روٹ سے گزری برقی رو ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور ہمیں کاشن دینے لگ جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ مختلف ڈیٹا لیکن ایک ہی ایکسٹینشن کی ایک سے زیادہ فائلز کو ایک ہی نام سے ایک فولڈر میں سیو کریں تو آپ کا کمپیوٹر انہیں ایک ہی فائل کے نام سے پہچانتے ہوئے دوسری فائل کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح جب برقی رو امکانی خاکے میں سے گزرتی ہے تو صرف امکانی خاکے کی ایکسٹینشن کو کاپی کرتی ہے لیکن اس میں موجود ڈیٹا کو نہیں۔
تو اس طرح ہمیں ایک ایکسٹینشن کا دھوکا ہوتا ہے اس میں موجود ڈیٹا کا نہیں لیکن چونکہ ہمارا دماغ فوری طور پر اس کی تشریح نہیں کر پاتا لہذا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں موجود ڈیٹا بھی وہی ہے جو ایکسٹینشن ہم سے بیان کر چکی ہے۔اور یہی احساس déjà-vu کہلاتا ہے۔

نوٹ: یہ کچھ جگاڑی سی تشریح ہے۔ اصل اصطلاحات کے ساتھ بھی پیش کر دوں گا لیکن وہ ہے بہت مشکل۔ کبھی کبھی میرے اپنے پلے نہیں پڑتی ;););)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
تصحیح۔
Deja Vu میرا خیال نہیں ہے۔ :)
جی ہاں آپ نے درست فرمایا۔ میرا مطلب یہی تھا کہ وہ اس دھاگے میں بیان کیا گیا ایک علیحدہ موضوع ہے۔
بہرحال آپ کا بیان کیا گیا خیال نہ سہی موضوع سہی۔۔ :):):)

پچھلی پوسٹ میں بھی خیال کی جگہ لفظ موضوع مدون کر دیا گیا ہے۔ :)
 
یوں تو اس پر بہت سی تھیوریز بن چکی ہیں لیکن میں جسے مانتا ہوں وہ یہ کہ کسی بھی واقعے یا تجربے سے گزرتے ہوئے ہم چیزوں کو پہچانی شکل دینے کیلئے ایک خاکے کا لاشعوری استعمال کرتے ہیں جیسے آپ اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اور آپ کی ٹیبل کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ ہے۔ اگر آپ آنکھیں بند کر کے یا منہ دوسری طرف کر کے کمرے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنائیں گے تو آپ کو میز شمالی دیوار کے ساتھ ہی بنی نظر آئے گی۔ سمجھئے کہ اگر اسی میز پر ایک چھوٹا سا کلاک ہے تو وہ بھی اسی خاکے میں میز پر پڑا نظر آئے گا۔ اب آپ نے جب بھی ٹائم دیکھنا ہوتا ہے تو آپ گردن گھما کر ہر طرف کلاک کی تلاش نہیں کرتے بلکہ سیکنڈ کے سوویں حصہ میں آپ کی نظر میز پر پڑے کلاک پر چلی جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کسی بھی جگہ اور کسی بھی سچویشن میں ہم چیزوں کا سرسری جائزہ لے کر ایک پہچانی خاکہ قائم کرتے ہیں ۔اور اسی کی بنیاد پر ہمارے اگلے خیالات جنم لیتے ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ یہ پہچانی خاکہ ایک امکانی خاکے کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ اس امکانی خاکے میں وہ تمام تر انفارمیشن ذخیرہ ہے جس کا ہم اس پہچانی خاکے میں امکان رکھ سکتے ہیں لیکن وہ انفارمیشن ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی ہے لہذا صرف سوچنے سے ہم اس پر گرفت نہیں کر پاتے۔ ہمارے دماغ میں موجود نیورل سسٹم بڑے غیر محسوس طریقے سے اس پہچانی خاکے میں برقی رو چھوڑ کر آؤٹ پٹ ہماری میموری تک پہنچاتا رہتا ہے جسے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال اوپر دی جا چکی ہے لیکن کبھی کبھی نیورل سسٹم کی برقی رو پہچانی خاکے کے گرد چکر پورا کرنے کے بجائے اپنا رستہ چھوٹا کرتی ہے اور پہچانی خاکے کے اندر بنے امکانی خاکے میں سوراخ کر کے واپس آ جاتی ہے۔یہ سارا عمل سیکنڈ کے ہزارویں سے بھی کم حصے میں مکمل ہوتا ہے اور دوبارہ سے برقی رو کا نارمل روٹ بحال ہو جاتا ہے لیکن امکانی خاکے میں سے گزری برقی رو نے پہچانی امکان کی بہت سے لاشعوری یادداشتوں کے اوپری خاکے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہوتا ہے ۔یہ یاد داشتیں جب ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہیں تو وہ انہیں بھی میموری کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب نارمل روٹ سے گزری برقی رو ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور ہمیں کاشن دینے لگ جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ مختلف ڈیٹا لیکن ایک ہی ایکسٹینشن کی ایک سے زیادہ فائلز کو ایک ہی نام سے ایک فولڈر میں سیو کریں تو آپ کا کمپیوٹر انہیں ایک ہی فائل کے نام سے پہچانتے ہوئے دوسری فائل کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح جب برقی رو امکانی خاکے میں سے گزرتی ہے تو صرف امکانی خاکے کی ایکسٹینشن کو کاپی کرتی ہے لیکن اس میں موجود ڈیٹا کو نہیں۔
تو اس طرح ہمیں ایک ایکسٹینشن کا دھوکا ہوتا ہے اس میں موجود ڈیٹا کا نہیں لیکن چونکہ ہمارا دماغ فوری طور پر اس کی تشریح نہیں کر پاتا لہذا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں موجود ڈیٹا بھی وہی ہے جو ایکسٹینشن ہم سے بیان کر چکی ہے۔اور یہی احساس déjà-vu کہلاتا ہے۔

نوٹ: یہ کچھ جگاڑی سی تشریح ہے۔ اصل اصطلاحات کے ساتھ بھی پیش کر دوں گا لیکن وہ ہے بہت مشکل۔ کبھی کبھی میرے اپنے پلے نہیں پڑتی ;););)
میرا خیال ہے اس موضوع پر ایک الگ مکمل دھاگا ہونا چاہئے۔ میں بھی اپنے کچھ خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔:)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میرا خیال ہے اس موضوع پر ایک الگ مکمل دھاگا ہونا چاہئے۔ میں بھی اپنے کچھ خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔:)
جی لازماً کیجئے۔ دھاگہ بناتے کونسی دیر لگے گی۔ ویسے اسی موضوع پر ایک دھاگہ پہلے سے موجود ہے۔ اس پر بھی طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
اگرچہ بچوں کو پوری طرح علم نہیں ہوتا لیکن عام طور پر بھولی بھالی یا ڈرا دینے والی باتیں کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسروں سے سیکھی ہوئی باتیں دہراتے ہوں۔ بعض اوقات ہمارے سامنے ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ جن کو نظر انداز کرنا یا جن کی وضاحت کر پانا ہمارے لئے مشکل تر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اتنی ڈراونی ہوتی ہیں۔
ذیل میں سنگل ڈیڈ لافنگ بلاگ سے لی گئی تحاریر کا مجموعہ ہے:
[...]

یہاں بھی دیکھیے گا:
Parents of Reddit, what is the creepiest thing your young child has ever said to you?

:)
 
Top