بچو ں کو شرارتیں کرنے سے مت روکیں

آپ اس تحقیق سے کس حدتک متفق ہیں؟

  • بالکل متفق نہین ہیں۔

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    4
آپ کے بچے بڑے ہو رہے ہیں تو اپنے بچوں کو شرارتیں کام کرنے سے مت روکیں، کیونکہ اس سے بچے میں اعتماد اور خود اعتمادی کی تعمیر ہوتی ہے ۔بچے کی حوصلہ افزائی کو فروغ ملتا ہے زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں زندگی کے ساتھ منسلک خطرات کے بارے میں شعور میں اضافہ ہوتا ہے آنے والے وقت کے لئے منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔جیسا کہ اپنے بچوں کو درختوں پر چڑھنے دیں بہت سے والدین اپنے بچوں کو درخت پر چڑھنے سے منع کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بچوں کے لئے درخت پر چڑھنے کے بہت سارے فوائد ہیں اس سے نا صرف ان کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے بلکہ ان میں کامیابی کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے ، اس سے وہ متوازن رہنا سیکھتے ہیں اور وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو سمجھتے ہیں۔اپنے بچے کو اکیلے چلنا سیکھائیں۔یہ سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ ہے ، اس سے آپ کا بچہ چلنا سیکھتا ہے جب بچہ چلنا سیکھتا ہے تو صرف اس کو والدین کے ساتھ ہونے کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔
 
آخری تدوین:
یہ جو تاثر یا معنی دیا گیا ہے کہ خطرناک کاموں سے نہ روکیں۔ یہ بات حلق سے نہیں اترتی۔ ووٹنگ والے جملے بہت تشنہ ہیں۔ انسانیات پر کوئی بات اتنی سادہ بھی نہیں ہوتی۔
 

arifkarim

معطل
یہ جو تاثر یا معنی دیا گیا ہے کہ خطرناک کاموں سے نہ روکیں۔ یہ بات حلق سے نہیں اترتی۔ ووٹنگ والے جملے بہت تشنہ ہیں۔ انسانیات پر کوئی بات اتنی سادہ بھی نہیں ہوتی۔
خطرناک کاموں سے مراد وہ کام نہیں ہیں جن سے بچوں کو حادثاتی طور پر تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
 
یہ جو تاثر یا معنی دیا گیا ہے کہ خطرناک کاموں سے نہ روکیں۔ یہ بات حلق سے نہیں اترتی۔ ووٹنگ والے جملے بہت تشنہ ہیں۔ انسانیات پر کوئی بات اتنی سادہ بھی نہیں ہوتی۔
جناب آپ دوبارہ غور کریں اس جملہ پر بات خود بخود سمجھ جائیں گے کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔
 
خطرناک کاموں سے مراد وہ کام نہیں ہیں جن سے بچوں کو حادثاتی طور پر تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
جناب آپ نے بجا فرمایا۔لیکن حادثات تو قدرت کی طرف سے ہوتے ہیں ان پر کوئی انسانی اختیار نہیں یہ سب مسلمانوں کا ایمان ہے۔ان کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو کیوں بلا وجہ پابندیوں کا شکار بنائیں۔
 
جناب آپ نے بجا فرمایا۔لیکن حادثات تو قدرت کی طرف سے ہوتے ہیں ان پر کوئی انسانی اختیار نہیں یہ سب مسلمانوں کا ایمان ہے۔ان کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو کیوں بلا وجہ پابندیوں کا شکار بنائیں۔

۔1۔ حادثات سے بچنے یا بچانے کی کوشش تو انسان پر لازم ہے نا، اپنا کام پورے خلوص اور پوری صلاحیت سے کر کے نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑ دیجئے۔
۔2۔ بچوں کی تربیت بھی تو کرنی ہے! کچھ نہ کچھ روک ٹوک تو کرنی پڑے گی۔

نکتہء نظر اپنا اپنا ۔ بہت شکریہ آپ کا۔
 

arifkarim

معطل
جناب آپ نے بجا فرمایا۔لیکن حادثات تو قدرت کی طرف سے ہوتے ہیں ان پر کوئی انسانی اختیار نہیں یہ سب مسلمانوں کا ایمان ہے۔ان کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو کیوں بلا وجہ پابندیوں کا شکار بنائیں۔
مطلب اگر بچہ شرارتاً بجلی کے سوئچ میں ہاتھ ڈالے یا آگ کے قریب جائے تو اسکو منع نہیں کرنا چاہئے؟
 
مطلب اگر بچہ شرارتاً بجلی کے سوئچ میں ہاتھ ڈالے یا آگ کے قریب جائے تو اسکو منع نہیں کرنا چاہئے؟
جناب جملے کے مطلب پر غور کریں ہمارا کام یہاں پر کوئی ضد بازی یا ہار جیت تو تھوڑی ہے اصلاح کے لئے آتے ہیں جو مل جل کر ہوتی ہے ۔
کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔
بجلی کے سوئچ میں ہاتھ ڈالنا یا آگ کے قریب جانا اس زمرے میں نہیں آتا۔
 

نایاب

لائبریرین
کافی حد تک متفق ہوں اس موضوع سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کو آزادی کے ساتھ کھیلنے کودنے دینا چاہیئے ۔ بجائے براہ راست پابندی لگانے کے بچوں کو یہ آگاہ کر دینا چاہیئے کہ اس عمل سے یہ نقصان ہو سکتا ہے ۔ اس لیئے لاپرواہی سے بچیں اور ایسی شرارت سے دور رہیں جس سے انسانی جان خطرے میں پڑ جائے ۔ چوٹ درد و تکلیف کا باعث ہوتی ہے لیکن چوٹ ہی بچے کو محتاط رہنا بھی سکھاتی ہے ۔ بچوں کو آزادی دیتے ان کی شخصیت میں خود اعتمادی پیدا کرنا اچھی بات ہے ۔ بلاوجہ کی روک ٹوک بچے کی شخصیت میں بغاوت پیدا کر دیتی ہے ۔ اور بچہ روک ٹوک کرنے والے بزرگوں کی نگاہ سے چھپ کر اپنے تجسس کی تسکین کرتا ہے اور زیادہ نقصان اٹھاتا ہے ۔۔۔۔۔
سوچ اپنی اپنی خیال اپنا اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

loneliness4ever

محفلین
بچوں کو خطرناک کاموں سے روکنا چاہیئے مگر ایسے کاموں سے نہیں روکنا چاہیئے جو ان کے دائرہ اختیار میں، ان کی بساط میں کسی مہم سے کم نہ ہوں

بچوں کی روک ٹوک بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی مرضی پر اپنے بڑوں کی مرضی کو فوقیت دینا سیکھ سکھیں
 
آخری تدوین:
بچوں کو خطرناک کاموں سے روکنا چاہیئے مگر ایسے کاموں سے نہیں روکنا چاہیئے جو ان کے دائرہ اخیتار میں، ان کی بساط میں کسی مہم سے کم نہ ہوں

بچوں کی روک ٹوک بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی مرضی پر اپنے بڑوں کی مرضی کو فوقیت دینا سیکھ سکھیں
محترم آپ کی یہ بات بالکل درست ہے۔
 
کافی حد تک متفق ہوں اس موضوع سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کو آزادی کے ساتھ کھیلنے کودنے دینا چاہیئے ۔ بجائے براہ راست پابندی لگانے کے بچوں کو یہ آگاہ کر دینا چاہیئے کہ اس عمل سے یہ نقصان ہو سکتا ہے ۔ اس لیئے لاپرواہی سے بچیں اور ایسی شرارت سے دور رہیں جس سے انسانی جان خطرے میں پڑ جائے ۔ چوٹ درد و تکلیف کا باعث ہوتی ہے لیکن چوٹ ہی بچے کو محتاط رہنا بھی سکھاتی ہے ۔ بچوں کو آزادی دیتے ان کی شخصیت میں خود اعتمادی پیدا کرنا اچھی بات ہے ۔ بلاوجہ کی روک ٹوک بچے کی شخصیت میں بغاوت پیدا کر دیتی ہے ۔ اور بچہ روک ٹوک کرنے والے بزرگوں کی نگاہ سے چھپ کر اپنے تجسس کی تسکین کرتا ہے اور زیادہ نقصان اٹھاتا ہے ۔۔۔۔۔
سوچ اپنی اپنی خیال اپنا اپنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
اللہ سب کو آپ کی طرح سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
بھائی میرے مضمون کا اصل مفہوم غیرضروری روک ٹوک کے حوالے سے ہے۔ تربیت اور چیز ہے ہر وقت بلا وجہ کی روک ٹوک اور بات ہے۔

جناب جملے کے مطلب پر غور کریں ہمارا کام یہاں پر کوئی ضد بازی یا ہار جیت تو تھوڑی ہے اصلاح کے لئے آتے ہیں جو مل جل کر ہوتی ہے ۔
کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔
بجلی کے سوئچ میں ہاتھ ڈالنا یا آگ کے قریب جانا اس زمرے میں نہیں آتا۔


ایک کام کر دیجئے، کہ کوئی اِشکال نہ رہ جائے ۔ اپنی منقولہ ذیل عبارت میں کسی مناسب مقام پر لفظ "غیرضروری" شامل کر لیجئے

آپ کے بچے بڑے ہو رہے ہیں تو اپنے بچوں کو شرارتیں کام کرنے سے مت روکیں، کیونکہ اس سے بچے میں اعتماد اور خود اعتمادی کی تعمیر ہوتی ہے ۔بچے کی حوصلہ افزائی کو فروغ ملتا ہے زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں زندگی کے ساتھ منسلک خطرات کے بارے میں شعور میں اضافہ ہوتا ہے آنے والے وقت کے لئے منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔جیسا کہ اپنے بچوں کو درختوں پر چڑھنے دیں بہت سے والدین اپنے بچوں کو درخت پر چڑھنے سے منع کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بچوں کے لئے درخت پر چڑھنے کے بہت سارے فوائد ہیں اس سے نا صرف ان کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے بلکہ ان میں کامیابی کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے ، اس سے وہ متوازن رہنا سیکھتے ہیں اور وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو سمجھتے ہیں۔اپنے بچے کو اکیلے چلنا سیکھائیں۔یہ سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ ہے ، اس سے آپ کا بچہ چلنا سیکھتا ہے جب بچہ چلنا سیکھتا ہے تو صرف اس کو والدین کے ساتھ ہونے کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔


اجازت چاہتا ہوں۔ اللہ حافظ۔​
 

حسینی

محفلین
درست فرمایا۔۔۔ شرارتوں کے بغیر بچپنے کا تصور ہی درست نہیں۔۔۔ جس بچے کے بچپنے میں شرارتیں نہیں اس کا بچپن کھوکھلا پن اور اس کا اثر اس کی شخصیت کے کھوکھلا پن میں ظاہر ہوتا ہے۔
سید محمد حسین طباطبائی ایران کا پانچ سالہ بچہ تھا۔۔ ۔ جس نے پانچ سال کی عمر میں سار ا قرآن اس کے مفاہیم سمیت یاد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا۔۔۔ اور یورپ کی کسی یونیورسٹی نے ان کو پانچ سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نواز تھا۔
جب ان کو عارف زمان حضرت آیت اللہ بہجت کے سامنے لایا گیا تو ان کی نصیحت یہی تھی۔۔۔ اس کے بچپنے کو ضائع ہونے مت دینا۔۔ پڑھائی کے ساتھ اس کو کھیل کود کے لیے بھی وقت دیں۔ ورنہ اس کی شخصیت ناقص رہ جائے گی۔
سنا ہے ۔۔ بچوں کو مٹی سے کھیلنے دینا چاہیے۔۔ ۔(یقینا اس کے بعد اچھے طریقے سے صابون وغیرہ سے ہاتھ دھو لیں)۔۔۔ اس سے ان کے جسم کے بہت سارے جراثیم ختم ہوجاتے ہیں۔۔
 
ہمارے ہاں عام طور پر بچوں کی باقاعدہ تربیت نہیں کی جاتی "جیسے تیسے" پل جاتے ہیں رُل کھُل کے جیسا ماحول ملے گھر کا یا گھر کے باہر کا۔ باقاعدہ خصوصی طور پر ہر معاملہ میں ایک ایک بات ایک ایک لمحہ کو تربیت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔
 
درست فرمایا۔۔۔ شرارتوں کے بغیر بچپنے کا تصور ہی درست نہیں۔۔۔ جس بچے کے بچپنے میں شرارتیں نہیں اس کا بچپن کھوکھلا پن اور اس کا اثر اس کی شخصیت کے کھوکھلا پن میں ظاہر ہوتا ہے۔
سید محمد حسین طباطبائی ایران کا پانچ سالہ بچہ تھا۔۔ ۔ جس نے پانچ سال کی عمر میں سار ا قرآن اس کے مفاہیم سمیت یاد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا۔۔۔ اور یورپ کی کسی یونیورسٹی نے ان کو پانچ سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نواز تھا۔
جب ان کو عارف زمان حضرت آیت اللہ بہجت کے سامنے لایا گیا تو ان کی نصیحت یہی تھی۔۔۔ اس کے بچپنے کو ضائع ہونے مت دینا۔۔ پڑھائی کے ساتھ اس کو کھیل کود کے لیے بھی وقت دیں۔ ورنہ اس کی شخصیت ناقص رہ جائے گی۔
سنا ہے ۔۔ بچوں کو مٹی سے کھیلنے دینا چاہیے۔۔ ۔(یقینا اس کے بعد اچھے طریقے سے صابون وغیرہ سے ہاتھ دھو لیں)۔۔۔ اس سے ان کے جسم کے بہت سارے جراثیم ختم ہوجاتے ہیں۔۔
بجا فرمایا آپ نے جناب۔
 
ہمارے ہاں عام طور پر بچوں کی باقاعدہ تربیت نہیں کی جاتی "جیسے تیسے" پل جاتے ہیں رُل کھُل کے جیسا ماحول ملے گھر کا یا گھر کے باہر کا۔ باقاعدہ خصوصی طور پر ہر معاملہ میں ایک ایک بات ایک ایک لمحہ کو تربیت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں بچوں کی تربیت پہ اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔
 

الشفاء

لائبریرین
یعنی
بچوں کو مشکل اور مہم جویانہ کام کرنے سے روکنا نہیں چاہیئے بلکہ اس میں ان کی حوصلہ افزائی اور جہاں ضرورت ہو مدد کرنی چاہیئے۔۔۔:)
 
Top