ام اویس

محفلین
“آج پھر تم کسی سے لڑ کر آئے ہو؟” یوسف صاحب نے گھر آتے ہی بلال سے سوال کیا
“ہاں لڑا ہوں۔ اور کیوں نہ لڑتا ؟ کیا مار کھا کر آجاتا ؟ جب بھی مجھے کوئی کچھ کہے گا میں اس کا منہ توڑ دوں گا” بلال نے انتہائی غصے اور بدتمیزی سے جواب دیا
یوسف صاحب نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور صحن میں بچھی چارپائی پر بلال کے پاس بیٹھ گئے ۔ “دیکھو بیٹا چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسی سے جھگڑا اور مارکٹائی نہیں کرتے بلکہ برداشت سے کام لیتے ہیں” انہوں نے پیار سے بلال کو سمجھانے کی کوشش کی ۔
بلال نے غصے سے سرہلا کر اونہہ کہا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔
اتنے میں اس کی امی ان کے لیے پانی لے آئیں بلال کو پانی کا گلاس دیا تو اس نے ہاتھ مار کر پیچھے پھینک دیا اور غصے سے پاؤں پٹختا کمرے میں چلا گیا۔
اس کی امی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ “ اسے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ؟ روزبروز بدتمیز اور جھگڑالو ہوتا جا رہا ہے” انہوں نے اس کے والد سے کہا جو پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔
یوسف صاحب انتہائی تحمل مزاج ، امانتدار اور شریف آدمی تھے۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کرتے تھے اور شام کو محلے کی مسجد میں بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ دفتر ، مسجد اور محلے میں ان کی شرافت ، ایمانداری اور عمدہ اخلاق کی تعریف کی جاتی تھی ۔ ان کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی جو علاقے کے سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ بڑا بیٹا کمال آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ہر سال اپنی جماعت میں اول پوزیشن لیتا تھا۔ اس سے چھوٹی بیٹی حلیمہ چھٹی جماعت میں تھی اور اس کا شمار بھی جماعت کے ذہین بچوں میں ہوتا تھا جبکہ سب سے چھوٹا بلال چوتھی جماعت کا طالب علم تھا ۔ بلال پڑھنے لکھنے میں خاص دلچسپی نہ لیتا ، ہر ایک سے بات بات پر الجھتا اور بدتمیزی کرتا ، اکثر سکول اور پاس پڑوس سے اس کی شکایات آتی رہتی تھیں ۔ اس کے والد ہر وقت اسے سمجھاتے رہتے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا اس کی والدہ بھی اس کی عادتوں سے پریشان رہتی تھیں ۔
آج بھی گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے گیند لگ جانے پر اس کا اپنے دوست بابر سے جھگڑا ہوگیا حالانکہ معمولی بات تھی مگر نوبت گالم گلوچ تک پہنچ گئی پھر مار کٹائی بھی ہوئی ، اس کی قمیض پھٹ گئی غصہ میں اس نے بابر کو دھکا دیا تو اس کا سر دیوار میں جالگا ۔ چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کے ماتھے پر گومڑ بن گیا دونوں بچوں کے منہ لال ، بال پریشان اور برے حال تھے۔ محلے کے کچھ لوگوں نے ان کے درمیان بیچ بچاؤ کروایا ، اور سمجھا بجھا کر دونوں کو ان کے گھر بھیج دیا۔ دفتر سے واپسی پر یوسف صاحب کو گھر سے باہر ہی ان کے پڑوسی میاں سلیم نے اس جھگڑے کی تفصیل سنا دی ۔
بلال ماں باپ کی ڈانٹ کھا کرکمرے میں چلا گیا ۔ کچھ ہی دیر میں منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلے اورناراضگی کے عالم میں اپنی نانو کے گھر کی طرف چل پڑا ، جو دو تین گلیوں کے بعد واقع تھا۔ جب وہ گلی کا موڑ مڑنے لگا تو اس نے دیکھا وہاں ان کے پڑوسی میاں سلیم اور عبید صاحب کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ ان کے منہ سے اپنے والد کا نام سن کر اس کے کان کھڑے ہوگئے اس نے اپنی رفتار دھیمی کی اور بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
“ بے چارے یوسف صاحب ! اپنے بیٹے کی وجہ سے کس قدر پریشان ہیں۔” عبید صاحب کی آواز اس کے کان میں پڑی۔
“ ہاں بھائی! اکثر نیک اور شریف لوگوں کو بھی أولاد کی طرف سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو حضرت نوح علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر بھی اس آزمائش سے گزرے ، ان کا بیٹا بھی نافرمان تھا۔ اللہ سب کی أولاد کو نیکی کی ھدایت دے۔”
بلال نے شرمندگی محسوس کی ۔ وہ آنکھیں نیچی کرکے ان کے پاس سے گزر گیا۔ نانو جان کے گھر پہنچ کر خاموشی سے برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ گیا۔ نانو جان عصر کی نماز کے لیے وضو کرکے آئیں اور اپنے تخت پر اس کے پاس بیٹھتے ہوئی بولیں: بلال ! کیا بات ہے آپ اس طرح اداس کیوں بیٹھے ہیں ؟
بلال ایکدم اپنے خیالوں سے چونکا، جھٹ نانو جان کو سلام کیا پھر بولا: نانو جان یہ حضرت نوح کون تھے اور ان کے بیٹے کا کیا قصہ ہے؟
نانو جان نے کہا: حضرت نوح علیہ السلام ایک عظیم المرتبت اور اولو العزم پیغمبر تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
“نانو جان آپ مجھے ان کے متعلق تفصیل سے بتائیں “ بلال سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔
اتنے میں اس کے ماموں زاد بہن بھائی عمر اور مرحی بھی وہاں آکر بیٹھ گئے۔
“حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جب شیطان نے لوگوں میں خوب گمراہی پھیلا دی تو الله تعالی نے نوح علیہ السلام کو انسانوں کی ھدایت اور راہنمائی کے لیے بھیجا”: نانو جان نے تفصیل بتانا شروع کی ۔
“حضرت نوح علیہ السلام نو سو پچاس سال تک اپنی قوم میں توحید کی تبلیغ کرتے رہے لیکن ان کی قوم اس قدر گمراہ ہو چکی تھی کہ بس چند لوگ ہی ان پر ایمان لائے۔” “اتنے لمبے عرصہ تک تبلیغ کے باوجود کسی نے ان کا کہا نہیں مانا ؟” عمر نے حیران ہوتے ہوئے نانو جان سے سوال کیا:
“ جی بیٹا ! کیونکہ وہ توحید سے منہ موڑ کر گمراہی میں پڑ گئے تھے اور اپنے بڑے بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے تھے ان کی تصویریں اور مورتیاں بنا کر اپنی ہر مشکل میں ان سے مدد مانگتے تھے۔ نوح علیہ السلام کی دعوت توحید کے جواب میں کہتے تھے کہ تم نبی کیسے ہو سکتے ہو تم تو ہمارے جیسے انسان ہو؟”
نانو جان سانس لینے کو رکیں تو بلال فورا بولا : “پھر کیا ہوا نانو جان “
پھر الله تعالی نے انہیں اپنی نگرانی میں ایک کشتی بنانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا اس کشتی میں رکھ لیں اور جتنے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں انہیں بھی اپنے ساتھ کشتی میں سوار کر لیں۔”
“کیا یہ کشتی بہت بڑی تھی؟” مرحی نے تعجب سے سوال کیا۔
جی یقینا بڑی تھی اور کئی منزلہ جہاز کی مانند تھی اسی لیے اس میں تمام جانداروں کے جوڑے رکھے گئے تھے۔ نانو جان نے جواب دیا۔
لوگ جب ان کو کشتی بناتے دیکھتے تو ان کا مذاق اڑاتے اور انکی قوم کے سردار جو کافر تھے کہتے کہ تم ہمارے جیسے آدمی ہو اور تمہارے ماننے والے غریب اور سطحی رائے رکھنے والے لوگ ہیں ۔ تم میں آخر کون سی بڑائی ہے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
اس پر نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ نہ تو میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہوں ۔ جو بھی الله ہر ایمان لائے گا وہ اگرچہ غریب ہو الله اسے اس کا اجر ضرور دے گا ۔
بہرحال انہوں نے نہ ماننا تھا نہ مانے بلکہ الٹا کہنے لگے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہواپنے الله سے کہو وہ ہم پر نازل کر دے ۔
“استغفر الله ! کس قدر ظالم لوگ تھے “ بلال نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا:
“اسی لیے الله تعالی نے ان سب کو ہلاک کر دیا “ نانو جان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔ “ نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی اپنے والد کی بات کو نہیں مانا، انہیں جھٹلاتا رہا اور ان پر ایمان نہیں لایا ۔ جو بھی اچھی اور حق بات سن کر نصیحت قبول نہ کرے الله تعالی اس سے ناراض ہوجاتے ہیں”
بلال سوچ میں پڑ گیا ۔
“نانو جان پھر کیا ہوا؟ “ مرحی نے سوال کیا:
پھر الله تعالی کے حکم سے زمین نے اپنا پانی اگلنا شروع کر دیا اور آسمان سے مسلسل بارش ہونے لگی ۔ زمین پانی سے بھر گئی اور کشتی انکو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی ۔ لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے۔
اس وقت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پکار کر کہا:
“بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔”
لیکن بیٹے نے ایک نہ سنی اور جواب دیا:
“ میں ابھی پہاڑ سے جا لگوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔”
نوح علیہ السلام نے فرمایا: “آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں اور صرف وہی بچ سکے گا جس پر اللہ رحم کرے۔ “
چنانچہ ایسا ہی ہوا دونوں کے درمیان ایک بڑی لہر حائل ہو گئ اور وہ پانی میں ڈوب گیا۔
اتنے میں عصر کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔ نانو جان خاموشی سے اذان سننے لگیں ۔ گفتگو بھی مکمل ہو چکی تھی چنانچہ سب عصر کی نماز کے لیے اٹھ گئے۔
اگلے دن سکول میں وقفے کے دوران کھیلتے ہوئے بلال سے جماعت کا ایک بچہ ٹکرا گیا۔ اس نے غصے سے مڑ کر اسے دیکھا ، دھکا دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر پھر رک گیا ، کچھ سوچ کر اس نے ہاتھ نیچے گرا دئیے وہ لڑکا سوری کہتا ہوا آگے چلا گیا۔ کمرہ جماعت میں داخل ہوا تو اس کی کرسی پر اس کا ایک ہم جماعت بیٹھا اپنے دوست سے بات کر رہا تھا اس نے بلال کو دیکھا تو گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔ بلال نے مسکرا کر اسے دیکھا اور ایک طرف ہوکر اسے اٹھنے کا موقع دیا۔ شام کے وقت گلی میں کرکٹ کھیلنے کے لیے ٹاس کرتے ہوئے ہارنے پر غصہ تو آیا لیکن برداشت کرتے ہوئے کچھ نہ کہا ، گیند پکڑی اور بالنگ کروانے کھڑا ہوگیا۔ اور تو اور فیلڈنگ کے دوران بیٹس مین کے شاٹ سے گیند سامنے والوں کے گھر چلی گئی تو خاموشی سے گیا اور گیند اٹھا لایا ۔ اس کے جھگڑالو دوست بھی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن اس نے پکا عہد کر لیا تھا کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان بیٹا نہیں بنے گا۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ام اویس بہن! آپ نے جس زمرے کا آغاز کیا ہے اللہ رب العزت آپکو اس کی جزا دے۔ بہت ہی ایمان افروز تحریر ہے۔یونہی لکھتی رہیں۔ ہمارے بچوں کی تربیت کے لیے یقینا آج کے دور میں ایسی سبق آموز کہانیوں کی اشد ضرورت ہے۔ جزاک اللہ۔
 
ام اویس بہن! آپ نے جس زمرے کا آغاز کیا ہے اللہ رب العزت آپکو اس کی جزا دے۔ بہت ہی ایمان افروز تحریر ہے۔یونہی لکھتی رہیں۔ ہمارے بچوں کی تربیت کے لیے یقینا آج کے دور میں ایسی سبق آموز کہانیوں کی اشد ضرورت ہے۔ جزاک اللہ۔
بہت خوب،سبق آموز کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی کہانیاں ہمارے معاشرے کی ماؤں کی ضرورت ہیں تاکہ بچوں کو سنائی جائیں۔جزاک اللہ خیراً کثیرا۔۔سدا سلامتی ہو آپ پر
 
Top