بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں(بیدار کرنےکی تجاویز)

خاکسار کا مقصد ایسی تجاویز پر بات کرنا ہے کہ جن سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کیا جا سکے

http://nawa-e-islam.com/?p=3198
بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں

تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیق کی قوت پیدائشی نہیں، یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے، اس بارے میں امریکا کی مشہور یونیورسٹی میری لینڈ کی ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کہتی ہیں۔ ” تخلیق کے بارے میں اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پراسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔“

اس تحقیق سے ماں باپ اور اسکولوں کی ذمے داری میں اضافہ ہوگیا ہے جب ان کے بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے تمام راستے کھلے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے انداز میں کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہو جائے۔

تخلیق ہے کیا؟
مگر سوال یہ ہے کہ تخلیق ہے کیا؟تخلیق کے معنی ہیں نئی چیز بنانا۔ اس لحاظ سے تخلیق کار کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئی باتیں، نئے طریقے ، نئے راستے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت قوتِ متخیلہ بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی سوچ میں رکاوٹ نہیں آتی۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ وہ من موجی اور جذباتی ہوتا ہے اور فرسودہ طریقوں کو دوہرانے سے اجتناب کرتا ہے۔یہ تمام باتیں ہر بچے میں موجود ہوتی ہیں ۔ نہ صرف بڑے بچے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی یہ تمام باتیں ہوتی ہیں ۔ وہ ہر چیز ہر کام کو بغور دیکھتے ہیں ۔ ٹوہ لگاتے ہیں۔ کریدتے ہیں ۔ چھوتے ،سونگھتے ہیں۔ سوچتے ہیں، کھلونوں سے باتیں کرکے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسے اپنی اسکیمیں بتاتے ہیں ۔ ایک چیزمیں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں ۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں تو کبھی ڈھیر لگا لیتے ہیں ۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں ۔ گویا ہر بچہ اپنے آپ میں فلاسفر، تجزیہ نگار اور تخلیق کار ہوتا ہے

تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی
۔اس کی تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی اکثر والدین سے سرزد ہوتی ہے۔ مثلاً میرے ایک دوست ہیں شرافت علی، ان کے دو بچے ہیں ۔ میں انہیں بڑا ذہین سمجھتا تھا۔ کیوں کہ وہ باتیں بھی گہری کرتے تھے اور ڈرائینگ تو مت پوچھئے ، ایسی عمدہ تصویریں بناتے تھے کہ بس دیکھتے رہ جائیں ۔ عید کی آمد آمد تھی۔ شرافت علی نے بچوں سے کہا کہ اس بار ہم تمہارے ڈیزائن کردہ کارڈ اپنے دوستوں رشتے داروں کو بھیجیںگے۔ چار بائی چھ انچ کے گتے پر سرخ اور سبز رنگ سے پہاڑی اور ندی کی ایک تصویر بناﺅ۔ ندی میں کشتی بھی دکھانا۔بس یہیں پر انہوں نے غلطی کردی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے تصویر تو بنادی مگر اس میں وہ بات پیدا نہ ہو سکی جس کے وہ متلاشی تھے۔ دراصل انہوں نے بچوں کو پابندیوں میں جکڑ کر ان کے ذوق تخلیق کو قتل کردیا۔ یہی تجزیہ برینڈیز یونیورسٹی کی ماہر نفسیات پروفیسر ٹریسا امابیل کا بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوںکو پابندیوں میں جکڑنے سے ان کا ذوق تخلیق متاثر ہوتا ہے۔ وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے

۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا

۔کام میں وابستگی ، لگن ، جوش اور آزادی یہ چیزیں تخلیق کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں ، کامیابی دلاتی ہیں ۔ اگر نکتہ چینی کی ضرورت ہو تو حوصلہ افزائی اور مدد دینے کی نیت سے کریں۔ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے تجسس کو قائم رکھیں۔ جستجو ، تلاش اور نئی بات معلوم ہونے اور نیا کام کرنے کی بے حد خوشی ہوتی ہے۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا ہے جستجو، تلاش، جوش وخروش ، لگن، آزادی اور خوش دلی ۔ بچوں میں کھلنڈرا پن اور مزاح بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ اگر آپ کارٹون دیکھتے وقت بچوں کو دیکھیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ الٹی سیدھی باتوں اور حماقتوں کو دیکھ کرخوش ہوتے ہیں ۔ تبصرہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر میں ہوتا تو یوں کردیتا۔ بچوں کی اس روح کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ بے جا پابندیاں بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہیں

۔ماں باپ ہی بچوں کے لئے ماڈل ہوتے ہیں ۔ اگر والد صاحب جھنجھلاجھنجھلا کر کہیں کہ تم ہی نے بچے کو بگاڑا ہے۔ بچوں کوپالنا اور دیکھنا میرا کام نہیں، اگر ہر وقت ان کی پیشانی پر تیوری ہو اور بیگم صاحبہ سے بات بات پر الجھیں اور بیگم صاحبہ خود جوالا مکھی بنی رہیں ۔ بات بے بات پر غصہ نکالیں تو بچوں کا ذوق تخلیق کیا بیدار ہوگا۔ ان میں ذوق تخریب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔ماں باپ خوش مزاج ، زندہ دل، بچوں میں دلچسپی لینے والے ہوں تو ان کے بچے ترقی کے زینے طے کرتے چلے جاتے ہیں بچے تو پودے ہیں، کھاد ڈالی جائے، پانی دیا جائے اور پودے کا خاص خیال رکھا جائے تو وہ پودا پھلتا پھولتا ہے۔ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے۔ ان میں ذوق تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کی جائے تو ان کے اندر کا تخلیق کار بیدار ہو تا چلا جاتا ہے اس لئے ہر ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کومشورہ دیں، رہنمائی کریں لیکنہمت افزاءکے لہجے میں ۔ پیار کے ساتھ احتیاط کے ساتھ۔
 
مطالعہ غوروفکر پر آمادہ کرتا ہے۔
یہ تخیل کو تحریک دیتا ہے اور تخلیق کی طرف دھکیلتا ہے۔ جاننے اور سیکھنے سے نئے امکانات کا راستہ کُھلتا ہے
 
تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے والی 'تھنکنگ کَیپ'
ربط
اس تھنکنگ کَیپ کے ذریعے انسانی دماغ سے بہت ہی کم درجے کا کرنٹ گزارا جاتا ہے، جس سے اس فرد کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوجاتی ہیں۔

آسٹریلوی سائنسدانوں کے مطابق ان کی تیارکردہ انقلابی تھنکنگ کیپ کے ابتدائی نتائج بہت ہی حوصلہ افزا ہیں۔ یہ آلہ، جس میں دراصل دو کنڈکٹرز کو ایک ربڑ بینڈ کے ذریعے سر پر باندھ دیا جاتا ہے، حساب کے ایک سادہ ٹیسٹ کے دوران تجربے میں شریک افراد پر آزمایا گیا۔
محققین کے مطابق اس ٹیسٹ کو کامیابی سے حل کرنے والے ایسے افراد کی تعداد عام لوگوں کی نسبت تین گنا زیادہ تھی جنہوں نے اس مخصوص ٹوپی کا استعمال کیا۔ اس ٹیسٹ میں کل 60 افراد شریک تھے۔
سڈنی یونیورسٹی کے ذہن پر تحقیق کرنے والے سینٹر کے ڈائریکٹر ایلن سنائڈر نے اس تھنکنگ کیپ کے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس آلے کے ذریعے انسانی دماغ کے بائیں حصے کی صلاحیت کو، جس کا تعلق معلومات یا علم سے ہے، نسبتاﹰ کم کیا جاتا ہے، جبکہ دماغ کے دائیں حصے کو تحریک دی جاتی ہے۔ دماغ کے اس حصے کا تعلق تخلیق سے ہے۔

اس آلے کے ذریعے انسانی دماغ کے دائیں حصے کو تحریک دی جاتی ہے۔ دماغ کے اس حصے کا تعلق تخلیق سے ہے

سنائڈر کے بقول ان کی یہ ایجاد دراصل حادثات کا شکار ہونے والے ایسے افراد کے مشاہدے اور ان سے متاثر ہوکر تیارکی گئی ہے، جن کی ایسے حادثات کے بعد تخلیقی صلاحیتوں میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا ، ’انسانی ذہن کو پہنچنے والے مخصوص طرح کے نقصانات جن میں دماغ کا بایاں حصہ متاثر ہوتا ہے، یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد میں فنون لطیفہ اور دیگر طرح کی تخلیقی صلاحتیوں میں حیرت انگیز طور اضافہ ہوجاتا ہے۔‘
سنائڈر کے بقول یہ مخصوص آلہ دراصل ایک دہائی سے سائنسدانوں کے استعمال میں ہے تاہم یہ پہلی تحقیق ہے، جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ دماغ سے کرنٹ گزارنے سے اس میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سڈنی یونیورسٹی کے ذہن پر تحقیق کرنے والے سینٹر کے ڈائریکٹر کا مزید کہنا ہے کہ تھنکنگ کیپ دراصل آرٹس اور مسائل کو تخلیقی طور پر حل کرنے کے حوالے سے انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: عاطف بلوچ
 

شمشاد

لائبریرین
موجودہ دور میں بہت کم بچے تخلیقی ذہن رکھتے ہیں کہ سمارٹ فون اور ٹیبلٹ نے ان کو صرف اور صرف کھیلوں پر لگا دیا ہے۔
 
ویسے تخلیقی صلاحیت تو خداداد ہوتی ہے۔ ماحول اس کو صرف نکھارتا یا بگاڑتا ہے۔
میں آپ سے متفق ہوں ، آج تک ہم نے بھی یہی سنا اس لیے ہی عنوان میں (بیدار کرنےکی تجاویز) کا اضافہ کیا ہے، ویسے ہمارے روزمرہ معروف تصورات بہت وسیع ہوتے ہیں اور بعض اوقت ہم ان کے محدود معنے لے لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ تخلیقی صلاحتیں پیدا بھی کی جا سکتی ہوں

ہر بچہ اسلام کی فطرت پر ہوتا ہے ، میرا خیال ہے کہ قدرتی طور پر صلاحیتیں کم و بیش ہوتی ہیں

اگر اس بات کو بالکل درست مان لیں کہ تخلیقی صلاحیت صرف خداداد ہوتی ہے۔ پھر بھی ان کو جلا دینا اور نکھارنا کو بھی طریقہ کار اور تدابیر اختیار کرنی چاہییں
 

arifkarim

معطل
ویسے تخلیقی صلاحیت تو خداداد ہوتی ہے۔ ماحول اس کو صرف نکھارتا یا بگاڑتا ہے۔
غلط! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ذہانت اور تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو مشرقی اقوام جو مغربی اقوام سے مسلم اقوام کی طرح ہزار سال پیچھے تھیں ، آج انکے شانہ بشانہ یا انسے آگے کھڑی نہ ہوتیں۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کی تعلیمی قابلیت جاننے کیلئے بین الاقوامی ادارہ پِیسا ایسے ٹیسٹ لیتا رہتا ہے جس میں ان اقوام کی ذہانت اور تخلیقی قوت کا تقابل کیا جا سکے:
f000abe1af31da28440f6a7067002736.jpg
 

arifkarim

معطل
موجودہ دور میں بہت کم بچے تخلیقی ذہن رکھتے ہیں کہ سمارٹ فون اور ٹیبلٹ نے ان کو صرف اور صرف کھیلوں پر لگا دیا ہے۔
فضول بات۔ تخلیقی ذہن حصول علم کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ وہ چاہے آپ کتاب پڑھ کر کر لیں۔ ٹیبلٹ میں ای بک لیکر پڑھ لیں۔ یا کمپیوٹر پر نیٹ گردی کر کے۔ اصل مقصد تو حصول علم ہے۔ اور یہ اس کے مختلف ذرائع۔ ان ذرائع سے جنگ کیسی؟
 

نکتہ ور

محفلین
غلط! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ذہانت اور تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو مشرقی اقوام جو مغربی اقوام سے مسلم اقوام کی طرح ہزار سال پیچھے تھیں ، آج انکے شانہ بشانہ یا انسے آگے کھڑی نہ ہوتیں۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کی تعلیمی قابلیت جاننے کیلئے بین الاقوامی ادارہ پِیسا ایسے ٹیسٹ لیتا رہتا ہے جس میں ان اقوام کی ذہانت اور تخلیقی قوت کا تقابل کیا جا سکے
خداداد سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ سیدھے سادے والدین کے تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بچے کوئی انوکھی بات نہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
غلط! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ذہانت اور تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو مشرقی اقوام جو مغربی اقوام سے مسلم اقوام کی طرح ہزار سال پیچھے تھیں ، آج انکے شانہ بشانہ یا انسے آگے کھڑی نہ ہوتیں۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کی تعلیمی قابلیت جاننے کیلئے بین الاقوامی ادارہ پِیسا ایسے ٹیسٹ لیتا رہتا ہے جس میں ان اقوام کی ذہانت اور تخلیقی قوت کا تقابل کیا جا سکے:
f000abe1af31da28440f6a7067002736.jpg
سوال گندم جواب چنا۔ بات تخلیقی صلاحیت اور آپ کود پڑے ذہانت کو لے کر۔ ریاضی اور سائنس کے نتائج لے کر کیا ثابت کر رہے ہیں۔ یہ نتائج تب کہاں تھے۔ جب سرینواسا در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ جب آج کے روشن نام اپنے دور میں گارڈز کے ہاتھوں تھپڑ کھا رہے تھے۔
تخلیقی صلاحیتوں ساتھ حسب روایت اسلام کو برا کہنا نہیں بھولے۔اس کے لئے الگ سے داد حاضر ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فضول بات۔ تخلیقی ذہن حصول علم کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ وہ چاہے آپ کتاب پڑھ کر کر لیں۔ ٹیبلٹ میں ای بک لیکر پڑھ لیں۔ یا کمپیوٹر پر نیٹ گردی کر کے۔ اصل مقصد تو حصول علم ہے۔ اور یہ اس کے مختلف ذرائع۔ ان ذرائع سے جنگ کیسی؟
آپ کی نظر میں شاید حصول علم ہی تخلیقی صلاحیت ہے۔ اس لحاظ سے ایک کتاب لکھنے والے سے زیادہ کتابیں پڑھنے والا بہتر ٹھہرتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں آپ سے متفق ہوں ، آج تک ہم نے بھی یہی سنا اس لیے ہی عنوان میں (بیدار کرنےکی تجاویز) کا اضافہ کیا ہے، ویسے ہمارے روزمرہ معروف تصورات بہت وسیع ہوتے ہیں اور بعض اوقت ہم ان کے محدود معنے لے لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ تخلیقی صلاحتیں پیدا بھی کی جا سکتی ہوں

ہر بچہ اسلام کی فطرت پر ہوتا ہے ، میرا خیال ہے کہ قدرتی طور پر صلاحیتیں کم و بیش ہوتی ہیں

اگر اس بات کو بالکل درست مان لیں کہ تخلیقی صلاحیت صرف خداداد ہوتی ہے۔ پھر بھی ان کو جلا دینا اور نکھارنا کو بھی طریقہ کار اور تدابیر اختیار کرنی چاہییں
آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دس کتابیں پڑھ کر آپ ایک بہترین کتاب لکھ سکتے ہیں۔ اینٹن ہاورڈ کے میتھ کی کتاب پڑھ کر آپ اس جیسی کوئی کتاب کا ایک باب بھی لکھ سکتے ہیں۔ یا پھر Recursive مسائل حل کر کے آپ ان کے حل کے کلیہ ایجاد کرنے والے کو پہنچ سکتے ہیں؟
 
غلط! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ذہانت اور تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو مشرقی اقوام جو مغربی اقوام سے مسلم اقوام کی طرح ہزار سال پیچھے تھیں ، آج انکے شانہ بشانہ یا انسے آگے کھڑی نہ ہوتیں۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کی تعلیمی قابلیت جاننے کیلئے بین الاقوامی ادارہ پِیسا ایسے ٹیسٹ لیتا رہتا ہے جس میں ان اقوام کی ذہانت اور تخلیقی قوت کا تقابل کیا جا سکے:
f000abe1af31da28440f6a7067002736.jpg
اگر ذہانت یا تخلیقی صلاحیت خدادا صلاحیت نہیں تو پھر یہ آپکےمطابقکسبی صلاحیت ( یعنی محنت سے حاصل ہونے والی ) ہونا چاہیے
اب آتے ہیں آپ کی مثال کی طرف
پہلی بات ،آپ کے بیان کردہ اس تقابل میں تعلیمی صلاحیت کاموازنہ ہے یا ذہانت کا
۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کے بچوں کی تعلیمی قابلیت جاننے کیلئے بین الاقوامی ادارہ پِیسا ایسے ٹیسٹ لیتا رہتا ہے جس میں ان اقوام کی ذہانت اور تخلیقی قوت کا تقابل کیا جا سکے
چلیں اس کو لفظی غلطی تصور کرتے ہیں اور اس تقابل کو ذہانت کا موازنہ قرار دیتے ہیں
ایک مثال دیکھیں
فرض کریں ان دس ممالک کے بچے کو ایک جیسےحالات اور تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں توکیا ان کا تعلیمی نتیجہ یکساں ہوگا،
آپ کسبی صلاحیت مانتے ہیں تو تعلیمی نتیجہ یکساں ہونا چاہیےجس کے بہت کم امکانات ہیں (استثنا ،اصول نہیں بناتے)
ہم اس کو خداداد ،قدرتی صلاحیت مانتےہیں اورمزید یہ کہ موثر ماحول اور سہولیات ہوں گی تو یہ صلاحیت نکھرےگی
ہماری نہ مانیں تو اپنا ہی لنک دیکھ لیں
Nature vs. nurture
Some researchers believe that prodigious talent tends to arise as a result of the innate talent of the child, and the energetic and emotional investment that the child ventures. Others believe that the environment plays the dominant role, many times in obvious ways. For example, László Polgár set out to raise his children to be chess players, and all three of his daughters went on to become world-class players (two of whom are grandmasters), emphasizing the potency a child's environment can have in determining the pursuits toward which a child's energy will be directed, and showing that an incredible amount of skill can be developed through suitable training.[15]

But on the other hand George Frideric Handel was an example of the natural talent ... "he had discovered such a strong propensity to Music, that his father who always intended him for the study of the Civil Law, had reason to be alarmed. He strictly forbade him to meddle with any musical instrument but Handel found means to get a little clavichord privately convey'd to a room at the top of the house. To this room he constantly stole when the family was

asleep".[16] Despite his father's opposition, Handel became a skillful performer on the harpsichord and pipe organ.[17]
 

arifkarim

معطل
سوال گندم جواب چنا۔ بات تخلیقی صلاحیت اور آپ کود پڑے ذہانت کو لے کر۔
تخلیقی صلاحیت کیلئے انسان کا ذہین ہونا ضروری ہے۔ اور ذہانت علم کے حصول سے بڑھتی ہے۔ وگرنہ تو پانی سے چلنے والی آغا وقار کی گاڑی بھی توایک "تخلیقی "صلاحیت ہی تو ہے گو کہ اسمیں ذہانت نام کی کوئی چیز نہیں :)

آپ کی نظر میں شاید حصول علم ہی تخلیقی صلاحیت ہے۔ اس لحاظ سے ایک کتاب لکھنے والے سے زیادہ کتابیں پڑھنے والا بہتر ٹھہرتا ہے۔
تخلیقی صلاحیت کیلئے انسان کا پہلے عالم فاضل ہونا ضروری ہے۔ یہ تعداد کا نہیں معیار اور کارکردگی کا زمانہ ہے۔ ایک ہنر مند لیکن ان پڑھ انسان چاہئے جتنی مرضی نت نئی تخلیقات کر لے، جب تک وہ جدید سائنسی علوم سے نابلد رہے گا، اسکی یہ نئی تخلیقات بہت سوں کیلئے بے فائدہ ہی رہیں گی۔ یہ اسلئے کہ سائنسی تھیوریز پڑھنے سمجھنے کے بعد انسان اس قدر قابل ہو جاتا ہے کہ نئی ریسرچ پر مبنی مزید تخلیقات، ایجادات، مشاہدات وغیرہ کر سکے۔
جہاں تک غیر سائنسی علوم جیسے آرٹس کا سوال ہے تو یہاں بھی ایک ماہر مصور، مصنف، شاعر وغیرہ بننے کیلئے انسان کو پہلے گزشتہ آرٹس کے نمونوں کو اچھی طرح سے سمجھنا ضروری ہے۔

پہلی بات ،آپ کے بیان کردہ اس تقابل میں تعلیمی صلاحیت کاموازنہ ہے یا ذہانت کا

چلیں اس کو لفظی غلطی تصور کرتے ہیں اور اس تقابل کو ذہانت کا موازنہ قرار دیتے ہیں
ذہانت اور تعلیمی صلاحیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اوپر جو ممالک پیسا ٹیسٹس میں سر فہرست ہیں، قریباً وہی ممالک اوسط ذہانت (IQ) میں بھی سر فہرست ہیں:
b333.gif


قیصرانی
زیک

اگر صرف تخلیقیت کی بات کی جائے تو اسمیں سر فہرست یہودی اسرائیل ہے لیکن وہ ہمارے مومنانہ وقار کیخلاف ہو جائے گا :)
http://www.algemeiner.com/2012/05/04/israel-1-in-startups-per-capita-3-globally-in-patents/
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Israeli_inventions_and_discoveries
http://www.aish.com/jw/id/Israels-Top-45-Inventions.html
 
مدیر کی آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
اگر ذہانت یا تخلیقی صلاحیت خدادا صلاحیت نہیں تو پھر یہ آپکےمطابقکسبی صلاحیت ( یعنی محنت سے حاصل ہونے والی ) ہونا چاہیے
اب آتے ہیں آپ کی مثال کی طرف
پہلی بات ،آپ کے بیان کردہ اس تقابل میں تعلیمی صلاحیت کاموازنہ ہے یا ذہانت کا

چلیں اس کو لفظی غلطی تصور کرتے ہیں اور اس تقابل کو ذہانت کا موازنہ قرار دیتے ہیں
ایک مثال دیکھیں
فرض کریں ان دس ممالک کے بچے کو ایک جیسےحالات اور تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں توکیا ان کا تعلیمی نتیجہ یکساں ہوگا،
آپ کسبی صلاحیت مانتے ہیں تو تعلیمی نتیجہ یکساں ہونا چاہیےجس کے بہت کم امکانات ہیں (استثنا ،اصول نہیں بناتے)
ہم اس کو خداداد ،قدرتی صلاحیت مانتےہیں اورمزید یہ کہ موثر ماحول اور سہولیات ہوں گی تو یہ صلاحیت نکھرےگی
ہماری نہ مانیں تو اپنا ہی لنک دیکھ لیں
Nature vs. nurture
Some researchers believe that prodigious talent tends to arise as a result of the innate talent of the child, and the energetic and emotional investment that the child ventures. Others believe that the environment plays the dominant role, many times in obvious ways. For example, László Polgár set out to raise his children to be chess players, and all three of his daughters went on to become world-class players (two of whom are grandmasters), emphasizing the potency a child's environment can have in determining the pursuits toward which a child's energy will be directed, and showing that an incredible amount of skill can be developed through suitable training.[15]

But on the other hand George Frideric Handel was an example of the natural talent ... "he had discovered such a strong propensity to Music, that his father who always intended him for the study of the Civil Law, had reason to be alarmed. He strictly forbade him to meddle with any musical instrument but Handel found means to get a little clavichord privately convey'd to a room at the top of the house. To this room he constantly stole when the family was

asleep".[16] Despite his father's opposition, Handel became a skillful performer on the harpsichord and pipe organ.[17]
ہر انسان فطری طور پر ایک رحجان رکھتا ہے۔ ایک جیسی بنیادی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو بنیادی باتیں ہر فیلڈ سے متعلق معلوم ہوں لیکن ان کی پڑھائی کی تخصیص کسی ایک فیلڈ میں ہو جس میں ان کا رحجان ہو :)
 
آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دس کتابیں پڑھ کر آپ ایک بہترین کتاب لکھ سکتے ہیں۔ اینٹن ہاورڈ کے میتھ کی کتاب پڑھ کر آپ اس جیسی کوئی کتاب کا ایک باب بھی لکھ سکتے ہیں۔ یا پھر Recursive مسائل حل کر کے آپ ان کے حل کے کلیہ ایجاد کرنے والے کو پہنچ سکتے ہیں؟
گستاخی معاف محترم میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا وہ ایک عام سی بات تھی، کسی خاص موضوع یا علم کی بات نہیں تھی۔
تخلیقی صلاحیت کیلئے انسان کا ذہین ہونا ضروری ہے۔ اور ذہانت علم کے حصول سے بڑھتی ہے۔ وگرنہ تو پانی سے چلنے والی آغا وقار کی گاڑی بھی توایک "تخلیقی "صلاحیت ہی تو ہے گو کہ اسمیں ذہانت نام کی کوئی چیز نہیں :)


تخلیقی صلاحیت کیلئے انسان کا پہلے عالم فاضل ہونا ضروری ہے۔ یہ تعداد کا نہیں معیار اور کارکردگی کا زمانہ ہے۔ ایک ہنر مند لیکن ان پڑھ انسان چاہئے جتنی مرضی نت نئی تخلیقات کر لے، جب تک وہ جدید سائنسی علوم سے نابلد رہے گا، اسکی یہ نئی تخلیقات بہت سوں کیلئے بے فائدہ ہی رہیں گی۔ یہ اسلئے کہ سائنسی تھیوریز پڑھنے سمجھنے کے بعد انسان اس قدر قابل ہو جاتا ہے کہ نئی ریسرچ پر مبنی مزید تخلیقات، ایجادات، مشاہدات وغیرہ کر سکے۔
جہاں تک غیر سائنسی علوم جیسے آرٹس کا سوال ہے تو یہاں بھی ایک ماہر مصور، مصنف، شاعر وغیرہ بننے کیلئے انسان کو پہلے گزشتہ آرٹس کے نمونوں کو اچھی طرح سے سمجھنا ضروری ہے۔


ذہانت اور تعلیمی صلاحیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اوپر جو ممالک پیسا ٹیسٹس میں سر فہرست ہیں، قریباً وہی ممالک اوسط ذہانت (IQ) میں بھی سر فہرست ہیں:
b333.gif


قیصرانی
زیک

اگر صرف تخلیقیت کی بات کی جائے تو اسمیں سر فہرست یہودی اسرائیل ہے لیکن وہ ہمارے مومنانہ وقار کیخلاف ہو جائے گا :)
http://www.algemeiner.com/2012/05/04/israel-1-in-startups-per-capita-3-globally-in-patents/
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Israeli_inventions_and_discoveries
http://www.aish.com/jw/id/Israels-Top-45-Inventions.html
آپ کی باتیں کچھ عام طور پر کافی منفرد اور فکر انگیز ہوتیں ہیں ، اگر یہ طنز و تشنیع سے پرہیز کریں اور دوسرے کی رائے اور مذہب کا احترام کرتے ہوئے مناسب الفاظ میں اختلاف رائے کا اظہار کریں تو بہتر ابلاغ اور بہتر افہام و تفہیم کی فضا قائم ہوگی - آپ کی رائے کی اہمیت بہت ہوتئ ہے لیکں اپنے اندازبیان سے آپ مار کھا جاتے ہو۔
کچھ فقرات کی نشاندہی کر رہا ہوں -
ہمارے مومنانہ وقار کیخلاف ہو جائے گا :)
غلط! یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے
فضول بات۔ تخلیقی ذہن حصول علم کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
ہر انسان فطری طور پر ایک رحجان رکھتا ہے۔ ایک جیسی بنیادی تعلیم دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو بنیادی باتیں ہر فیلڈ سے متعلق معلوم ہوں لیکن ان کی پڑھائی کی تخصیص کسی ایک فیلڈ میں ہو جس میں ان کا رحجان ہو :)
میرے مراسلے کا مقصد خداداد یعنی قدرتی صلاحیت اور کسبی صلاحیت کا فرق واضح کرنا تھا نہ کہ ایک جیسی بنیادی تعلیم دینے پر اعتراض
 
Top