بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں(بیدار کرنےکی تجاویز)

کسی خاص موضوع نہیں۔ تخلیق ہر عمل میں تخلیق ہی رہتی ہے۔
ایک بندے کی اہلیت ہی عمومی موضوعات ہوں اور اس کی کوشش ہی اس میں ہو اور اس کا دعوی بھی اس میں ہو اور آپ اسے چیلنج خاص علوم پر کر دیں، یہ تو نا انصافی ہوئی نا۔ لیکن ہم آپ پھر بھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے :bighug:، آپ کا اصرار ہے تو ایک بات سنیں، آپ ، دس تو کیا ، مجھے کوئی بھی ایک کتاب دے دیں میں آپ کو اس جیسی کتاب بنا کر دے سکتا ہوں،یقین کریں ہوبہو ہوگی:rollingonthefloor:

جناب من، کوشش میں ہوں کہ ایک ایسا گوشہ نقلیات تخلیق کر سکوں، جو اسم با مسمی ہو یعنی جس کی بنیاد ہی نقل پر ہو، ویسے اس کی ضرورت ہے تو نہیں کہ پہلے ہی پورا معاشرہ بھرا پڑا ہے نقالوں سے، تخلیق کار تو بہت ہی کم ہیں ، جو کام یا تصور مقبول ہو جائے اس کی نقل کے پیچھے پوری قوم بھاگ پڑتی ہے
آپ کی نقل یا کسی اور کی ، نقل تو نقل ہوتی ہے
کہ ہمارے ہاں تو اس کا سکوپ بھی زیاد ہ ہے، ذرائع آمدو رفت بھی نقل ،امتحانوں میں بھی مفید، پرنٹنگ پریس میں بھی،​
 
تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیازتخلیق کر تا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تخلیقی سوچ کی بالعموم حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ایک ماہرنفسیات کے الفاظ میں:
’’ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرمانبردارہے، دوسروں کا ادب کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے، اس کے ہم عصر اسےپسند کرتے ہیں، اور جو دوسروں میں مقبول ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کوپسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختارہوتے ہیں، اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسیبااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔
پہلی قسم کے بچے کو ہم ’’اچھا بچہ ‘‘ کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو ہم بدتمیز یانافرمان بچہ سمجھتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنیکی جاتی ہے۔ اگر ایک بچہ امتحان میں کسی سوال کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہارکرتا ہےتو اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ٹی وی اور ریڈیو پر ذہنی آزمائش کےپروگرام سوچنے کی صلاحیت کی بجائے یادداشت کی آزمائش کرتے ہیں۔
مذہبی تعلیم میں بھی قرآن کو حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس کو سمجھ کر روزمرہ زندگی پراطلاق کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔
بچوں کو کامیابی حاصل کرنے اور اول آنے کی ترغیب دی جاتی ہے،لیکن علم حاصل کرنے یا نئی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہم غلطیاں کرنے اور ان کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ ناممکن ہے۔ ------
ہمارے یہاں اگر کچھ فنکاروں اور ان کی تخلیق کو اہمیت دیجاتی ہے تو اس عمل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی تصویر، دھنوغیرہ کی تخلیق ہوئی ہے، یعنی تخلیق کے نتائج کو تو سراہا جاتا ہے لیکن اس محنتاور جدوجہد کو نظر انداز کیا جاتا ہے جسے تخلیقی عمل کہتے ہیں۔‘‘ (رفیق جعفر،نفسیات ص 486-487 )
تخلیقی سوچ میں تین اہم عناصر ہوتے ہیں:

  • (۱) جدت؛
  • (۲) کسی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت ؛ اور
  • (۳) کوئی قابل قدر مقصد حاصل کرنے کی صلاحیت۔

جدت سے مراد موجودہ یا روایتی انداز میںپائی جانے والی چیزوں ، تصورات وغیرہ کو انفرادی انداز میں آپس میں ملانا یا نئےسرے سے ترتیب دینا ہے۔
عقل مند انسان دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے اور بے وقوف اپنی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھتا۔ لاطینی کہاوت
دنیامیں جتنے تخلیقی کام کئے گئے ہیں، ان میں پرانی چیزوں یا تصورات کو نئے اندازمیں دیکھاگیا ہے۔ مثلاً جب نیوٹن نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو یہ عمل نہ تونیوٹن کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے انوکھا واقعہ تھا لیکن نیوٹن نے اس عمل کو ایک خاص انداز میں دیکھا، اسے نئے معنی دیے اور اس طرح کشش ثقل (Gravity) کا قانون دریافت کیا۔ تاہم صرف جدت ہی کسی سوچ یا عمل کو تخلیقی نہیں بنا دیتی بلکہ اس میں مسائل کا حل بھی بہت ضروری ہے۔
تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں دوسروں سےنمایاں کرتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق

  • یہ لوگ انفرادیت پسند ہوتےہیں اور روایتی سوچ اور کردار کے مقابلے میں اپنی ذات اور سوچ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
  • یہ دوسروں پر کم انحصار کرتے ہیں
  • اور اکثر معاملات میں خود مختار ہوتےہیں
  • حتی کہ ان کے جاننے والے انہیں ضدی اور سرکش قرار دے دیتے ہیں۔
  • ان میں عموماً لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا احساس کم ہوتا ہے۔
  • یہ مستقل مزاج ہوتےہیں،
  • جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں، اسے تندہی سے کرتے ہیں
  • اور ناکامیوں اورمشکلات سے نہیں گھبراتے۔
  • اگر ان کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ بھی جائیں تو یہ ثابت قدم رہتے ہیں۔
تخلیقی افراد کی شخصیت
عام لوگ چیزوں میں سادگی، تسلسل اور ترتیب کو پسند کرتے ہیں ، ابہام اور تضاد سے دوربھاگتے ہیں اور خیالات کی توڑ پھوڑ سے گھبراتے ہیں۔ان کے برعکس تخلیقی افراد کی شخصیت میں بہت لچک ہوتی ہے۔ وہ پیچیدہ، الجھی ہوئی ، غیر متوازن اور نامکمل چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ نئے نئے خیالات کو ٹٹولنے، انہیں توڑنے مروڑنے اورمختلف حل تلاش کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ وہ تخلیق شدہ چیزوں میں دلچسپی لینےکی بجائے تخلیقی عمل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ اپنے خیالات میں پائی جانےوالی شورش، عدم استحکام، پیچیدگی اور افراتفری سے نہیں گھبراتے۔
یہ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ دوسروں کےعلاوہ خود کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ ان کا گھریلو ماحول بالعموم مثبت ہوتا ہے ۔گھریلولڑائی جھگڑے بہت کم ہوتے ہیں۔ والدین بچوں کو آزاد ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں بچہ خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ یہ جن اداروں میںت علیم حاصل کرتے ہیں وہاں ماحول آمرانہ نہیں ہوتا بلکہ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ استاد کا تعلق بالعموم ان سے دوستانہ ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نشوونما دی جاتی ہے۔
ان معلومات کی روشنی میں خود میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے کچھ باتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے۔ اپنے فکر پر کبھی پہرے نہ بٹھائیے۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے محض شیطانی وسوسہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیجئے بلکہ اہل علم سے اس کا جواب مانگنے کی کوشش کیجئے۔ ذہن میں ایسے خیالات کو موجود رکھنے کی مشق کیجئے جو ایک دوسرے کے متضاد ہوں۔ متضاد ، پیچیدہ، الجھی ہوئی اور نامکمل چیزوںاور خیالات سے نہ گھبرائیے۔ اپنے گھر اور اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیجئے جوتخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے۔ اپنے اداروں میں ڈسپلن کے نام پر خواہ مخواہ تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹئے بلکہ نئے خیالات کو خوش آمدید کہیے۔


برین اسٹارمنگ (Brainstorming)
تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ برین اسٹارمنگ (Brainstorming)ہےجس میں ایک گروپ کو کسی مسئلے کے زیادہ سے زیادہ حل تجویز کرنے کے لئے کہاجاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ کوئی حل اچھا اور قابل عمل ہے یا نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہر شخص محض اس خوف سے خاموش نہیں رہتا کہ کہیں اس کا مذاق نہ اڑایا جائے یا اس کے خیال کو مسترد نہ کر دیا جائے۔ اگلے مرحلے پران تجاویز کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لے کر ان میں سے اچھی تجاویز کاانتخاب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح گروپ کی صورت میں مختلف آئیڈیاز اور چیزوں پر غور وفکر کرکے کسی اقدام کے فوری اور دوررس نتائج کا اندازہ لگانے، کسی چیز کی وجوہاتا ور مقاصد پر غور و فکر کرنے، کسی کام کی پلاننگ کرنے، کسی مسئلے کے مختلف ممکنہ پہلوؤں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے، متبادل راستے تلاش کرنے ، فیصلے کرنے اوردوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی سوچ نمو پذیر ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنےدوستوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینک بنا کر یہ کام کر سکتے ہیں۔

دین کے معاملے میں فکر و عمل یا تخلیقی ذہنیت

تخلیقی سوچ کے ضمن میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ بعض لوگ دین کے معاملے میں فکر و عمل کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں جو کہ درست نہیں جیسا کہ زمانہ قدیم میں فرقہ باطنیہ اور دور جدید میں بعض حلقوں نے دین کے بنیادی تصورات توحید، رسالت، آخرت،نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ میں کئی ترامیم تجویز کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین ہمیں عطا فرمایا ہے، اپنی creativityکو استعمال کرکے اس میں کوئی تبدیلی کرنا بالکل غلط ہے۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین جس طرح ملا ہے اسے قبول کیجئے۔ دین کےمعاملے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کا اصل میدان دینی احکامات کو سمجھنا،دین کے فروغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرنا، اور زندگی میں دین پر عمل کرنے کیراہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں سے نمٹنے کے قابل عمل طریق ہائے کار دریافتکرناہے۔ اگر ہم دین ہی میں کوئی ترامیم کرنے لگ گئے تو دنیا میں بھی خائب و خاسرہوں گے اور آخرت میں بھی ناکام و نامراد۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر) یہ تحریر مصنف کی شخصیت یا اس کے مذہبی خیالات سے قطع ںظر ، اس اسلامی سوچ کے تحت شامل کی ہے کہ اچھی چیز جہاں سے ملے لے لو
 

arifkarim

معطل
تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیازتخلیق کر تا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تخلیقی سوچ کی بالعموم حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ایک ماہرنفسیات کے الفاظ میں:
’’ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرمانبردارہے، دوسروں کا ادب کرتا ہے، اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے، اس کے ہم عصر اسےپسند کرتے ہیں، اور جو دوسروں میں مقبول ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کوپسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں، سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختارہوتے ہیں، اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں، کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسیبااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔
پہلی قسم کے بچے کو ہم ’’اچھا بچہ ‘‘ کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو ہم بدتمیز یانافرمان بچہ سمجھتے ہیں۔

شاید یہ آپکی محفل پر پہلی پوسٹ ہے جس سے میں 100 فیصد متفق ہوں۔ پاکستانیوں اور اسرائیلیوں میں یہی ایک بنیادی فرق ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت "اچھے" بچے کی طرح کرتے ہیں جبکہ وہ اسکے برعکس "گندے" بچے کی طرح۔ جہاں پاکستان میں بچوں کو فرمانبردار اور اطاعت کرنے والا بنایا جاتا ہے وہاں اسرائیل میں مجبور کیا جاتا ہے کہ بچے زیادہ سے زیادہ سوال اپنے بڑوں سے پوچھیں۔ جب امریکی کمپیوٹر چپ کمپنی اینٹل اسرائیل میں اپنا دفتر 70 کی دہائی میں کھولنا چاہتی تھی تو اسکو وہاں ایک سخت قسم کا کلچر شاک لگا:
When the Intel Corporation began building its Israeli teams in the 70′s, the Americans found Israeli chutzpah so jarring that Intel started running “cross-cultural seminars on Israeliness.” Intel-Israel’s Mooly Eden, who ran the seminars, said that “from the age of zero we are educated to challenge the obvious, ask questions, debate everything, innovate.” As a result, he adds, “it’s more complicated to manage five Israelis than 50 Americans because [the Israelis] will challenge you all the time — starting with ‘Why are you my manager; why am I not your manager?’”
http://freakonomics.com/2009/12/04/how-did-israel-become-start-up-nation/

ذرا سوچئے۔ ایک ایسا ملک جہاں ملازمین اپنے مالکان سے یہ پوچھنے کی کھلے عام جسارت رکھتےہوں کے تم ہمارے مالک کیوں ہو، وہ ملک نئی تخلیقیات میں اول نمبر پر نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟
 
بچوں میں تخلیقی صلاحتیں بیدار کریں (روحہ شہزادی‘بہاولپور)
تحریر کے پیرا گراف کی ترتیب میں کچھ تبدیلی کی گئ ہے
ربط

ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے‘ سمجھدار والدین کو چاہیے کہ اس خیالی کارخانے کو مثبت ایندھن فراہم کرتے رہیں‘ بچے کیلئے غیرمشروط محبت سب سے بڑا تحفہ ہے۔ بچے کی صلاحیتوں کو آزادی کے ساتھ پروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں شکست قبول کرنے کا حوصلہ اور دوبارہ کوشش کرنے کی ترغیب ملے‘ سیکھنے سے مراد محض ایک مخصوص سبق کو ذہن نشین کرنا ہرگز نہیں۔

بچوں کی صلاحیتیں نکھارنے کیلئے ان کی خیالی دنیا آباد کیجئے۔ یہ خیالی پلاو دراصل بچوں کی اصل کیفیات کو باہر نکالتا ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل بچوں کی بہترین صلاحیتوں کو جلابخشے ہیں۔ تخیل کی آبیاری اپنے بچوں کے اندر تخیل کی صلاحیت کو بیدار کرنے کیلئے انہیں مناسب وقت دیجئے۔کھانے کے اوقات‘ تفریح کے اوقات‘ بچوں کے خاص مواقع جیسے سالگرہ وغیرہ فیملی کے ساتھ گزارئیے بالخصوص سوتے وقت اور ہوم ورک کے وقت والدین کی موجودگی بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بہت زیادہ بڑھاتی ہے اور ان کی شخصیت میںنکھار پیدا کرتی ہے۔

تنہائی تخلیق کاری کیلئے کچھ وقت کی تنہائی بہت موثر ہے‘ یہ وقفہ چھوٹے بچوں میں کم اور بڑوں میں زیادہ دیا جاسکتا ہے۔ ان تنہا اوقات میں بچہ اپنے ذہن سے کچھ ایسی کار گزاریاں کرتا ہے جو مستقبل میں اس کی صلاحیتوں کو نکھار دیتی ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ تنہائی کسی منفی کارکردگی کو نہ پھلنے پھولنے دے۔

تخلیقی ماحول کیسے قائم کیا جائے چاندانی رات میں اختر شماری کیجئے‘ بچے سے کہیے کہ اگر آسمان کا چاند زمین پر آجائے تو؟ اگر ستارے پیڑ پر اگنے لگیں تو؟ ہر بچہ اپنے ذہن کے مطابق ان سوالات کا جواب دے گا۔

بول چال چھوٹے بچوں سے سادہ جملے بولئے اور انہیں بولنے پر اکسائیے جیسے آپ تنہا ہوں یا سفر میں ہوں تو نئے الفاظ استعمال کیجئے۔ بڑے بچوں کو ثقیل جملے سنائیے جیسے کالے بادلوں نے سائے کی چھتری ٹانگ دی وغیرہ۔ کتاب بچوں سے کہانیاں سنیے اور ان کی ایک کتاب بنائیے‘ چھٹیوں میں یہ نانانانی کیلئے ایک بہترین تحفہ ہے۔چھٹیوں کی یادداشت محفوظ کیجئے۔ بچوں سے متعلق خبروں کا اخبار مرتب کیجئے۔ مزاح نگاری کیجئے جیسے اگر میرے انکل درخت پر لٹک جائیں آگے بچوں کی سوچ سنئے‘ ہر موقع کو پرتخیل بنائیے جیسے شاپنگ ٹرالی دراصل عمرو کی زنبیل ہے وغیرہ۔

تجدیدی سوچ کو پروان چڑھائیے کوشش کیجئے کہ بچہ ہر چیز کو اس کی اصل حقیقت سے الگ کرکے کچھ خیالی پیکر تراشے اس عمل میں ریاضی کے اصول فائدہ مند مانے گئے ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق گنتی شمار کرنااور چیزوں کی اشکال ساخت پہچانا ایک تخلیقی ذہن کو زور آور بناتا ہے جیسے ”گنتی کیجئے“ہر چیز کی تعداد شمار کرائیے مثلا ً سیڑھیاں‘ استعمال کے برتن وغیرہ ۔ ریاضی کے مسائل حساب کتاب کے چھوٹے چھوٹے مسائل بیان کیجئے جیسے دھوبی کا حساب گھر کا خرچ وغیرہ بچوں سے حل کرائیے۔
بچوں میںصحیح سوال کرنے کی روش بیدار کیجئے۔ یاد رکھئے آپکا بچہ ہر ممکن طور پر قابل ہے اس کو ضرورت ہے آپ کی روزانہ کے معمولات سے فراغت کی ۔تھوڑا وقت سربراہی کیلئے۔تنہا مصائب سے مقابلہ کرنے کی۔چیزوں کی صحیح شناخت کی۔اپنی عمر کے مطابق وسائل کی۔کچھ لمحے تنہائی کے۔پھر یقینا ان میں سے کچھ ادیب ہیں کچھ نقاد کچھ سائنسدان اور کار جہاں دراز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی شخصیت کو متوازن بنانے کیلئے انہیں تعمیری مشورے دیں‘ اگر ایک کام کو غلط یا برا کہیں تو ساتھ صحیح اور اچھے کام کی بھی نشاندہی بھی کریں اس طرح ایک مثبت ذہن تیار ہوگا‘ ذہنی صحت اور توازن کی بنیاد پڑے گی تو بچے ذہنی طور پر زیادہ توانا ہونگے
بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں‘ پیار محبت کی شدت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم ان کی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں‘ چاہتے ہیں ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے‘ وہ جذباتی طور پر بھی صحت مند رہیں اور جسمانی و ذہنی طور پر بھی‘ ان کا کردار اور ان کی عادات اچھی ہوں اور وہ بڑے ہوکر ایک متوازن انسان بن کر ایک کامیاب اور بے مثال زندگی بسر کریں لیکن اس خواہش میں شدت کا نتیجہ بیشتر اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم بچوں کو متوازن بنانے کی کوشش میں خود متوازن نہیں رہتے جس کے باعث اکثر تربیت کیلئے غیرموزوں طریقے اپنالیے جاتے ہیں ان میں سے ایک منفی اور دوسرا تحکم‘ یہ دونوں تعمیر کے نہیں تخریب کے انداز ہیں جو تربیت اور شخصیت کی تعمیر کیلئے سخت مضر ہیں۔
ٹین ایج کے مسائل
بچوں کو عمر کے اس دور میں جسے ٹین ایج کہا جاتا ہے والدین کی توجہ اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹین ایج بچے اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں گھر سے باہر کی دنیا میں انہیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ پڑھائی کے مسائل ‘ امتحان کا دباو ‘ پڑھنے کے بعد کیا کرنا ہے‘ کیا بننا ہے اور اس طرح کے دیگر بہت سے مسائل میں انہیں والدین کی اخلاقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو پہلے سے تیار کریں‘ ان کے ساتھ بیٹھیں‘ باتیں کریں‘ مضامین کے انتخاب میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں‘ کیریئر بنانے میں ان کی رہنمائی کریں۔ ان کے ساتھ دوستانہ برتاو رکھیں لیکن ان کے لئے کسی پیشے کا انتخاب زبردستی نہ کریں ان کے رجحان کے خلاف کیریئر کا انتخاب نہ کریں اس کے علاوہ یہ دیکھیں ان کے دوست کیسے ہیں‘ ان کو بتائیں کہ وہ اپنی فرینڈشپ کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں‘ بچوں کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کو مناسب آزادی ضرور دیجئے تاکہ وہ اپنی اصلی شخصیت کو ظاہر کرسکیں‘ اگر ان کے مسائل کا حل نہیں ملے گا تو وہ غلط راستے پر چل پڑیں گے وہ سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیاءکا استعمال شروع کرسکتے ہیں

آپ بچوں کی شخصیت کو دبائیں نہیں اور نہ ہی اپنی شخصیت کو ان پر مسلط کریں۔ ان کی شخصیت آپ سے مختلف بھی ہوسکتی ہے اور آپ سے اچھی بھی‘ جہاں تک ممکن ہو اپنے ”بڑے پن“ کو کام میں نہ لائیں بچے سے معمول کے لہجے میں بات کریں۔ بات چیت اور روئیے میں غصے‘ جھنجھلاہٹ‘ اکتاہٹ اور چڑچڑے پن کا اظہار نہ کریں۔ بچے ماں باپ سے ہی سیکھتے ہیں ان کی ہی نقل کرتے ہیں‘ ہر کام میں ویسا ہی ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ آپ کرتے ہیں۔ آپ کے روئیے میں درشتگی کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی اور لجاجت بھی نہیں ہونی چاہیے۔

ہر بچے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو دریافت کرکے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔ یوں تو ہم زندگی کے تمام معاملات میں جمہوریت اور آزاد رائے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر والدین بچوں کی پرورش کے معاملے میں آمرانہ روش اختیار کرلیتے ہیں اس طرح دراصل ہم اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن کیا یہ طریقہ درست ہے؟
 

arifkarim

معطل
ہر بچے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو دریافت کرکے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔ یوں تو ہم زندگی کے تمام معاملات میں جمہوریت اور آزاد رائے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر والدین بچوں کی پرورش کے معاملے میں آمرانہ روش اختیار کرلیتے ہیں اس طرح دراصل ہم اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن کیا یہ طریقہ درست ہے؟
درست۔ ہمارے اس آمرانہ رویہ کی وجہ سے بعض بچے بڑے ہوکر باغی بھی ہو جاتے ہیں اور جہاں انہیں والدین کی بات ماننی چاہئے وہاں بھی نہیں مانتے۔
 
http://nawa-e-islam.com/?p=23858
طاہر منصوری
انسان اور جانوروں کے اندر بنیادی فرق دماغ ہی کا ہے۔ انسانی ذہن میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور سائنس دان یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ایک چھوٹا بچہ بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اپنی پیدائش کے دن سے سات اور آٹھ سال کی عمر تک یہ تخلیقی صلاحیتیں بہت تیزی سے پروان چڑھتی ہیں ۔ ہر بچہ بہت حد تک تخلیقی دماغ کا حامل ہوتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔ عام طور پر والدین بچے کی شخصیت کے اس پہلو پر توجہ نہیں دیتے۔ جب بھی کوئی بچہ اپنے طور پر کوئی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر اوقات اس سے بہت زیادہ روک ٹوک کی جاتی ہے۔ بچے کو مختلف کاموں سے روکنے کی بجائے انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی دینی چاہیے۔ وگرنہ اس کا بچے کی تخلیقی صلاحیتوں پر نہایت منفی اثر پڑے گا اور یہ عمل اس کی شخصیت کو پھلنے پھولنے سے روکے گا۔
اساتذہ اکثر اوقات نئی سوچ کو رد کردیتے ہیں بلکہ ہمیشہ محدود طریقہ کار کے گرد گھومتے رہتے ہیں ۔ وہ تخلیقی سے زیادہ تربیتی کاوشوں پر وقت صرف کرتے ہیں اور بذات خود کوئی کام سر انجام دینے کی مزاحمت کرتے ہیں ۔ ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے جہاں ماحول کسی بچے کی صلاحیتوں کو جانچنے کا بہترین پیمانہ ہے وہیں خاندانی صلاحیتیں اور خواص بھی بچے کی شخصیت پر نہایت گہرا اثر چھوڑتے ہیں ۔
اگر کوئی بچہ بہت زیادہ غصیلا ہے یا بہت زیادہ پریشان رہتا ہے تو آپ اسے دوسری سرگرمیوں میں مصروف رکھ کر اس کی مشکلات میں کمی کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھنے سے پریشانی رفع ہو جاتی ہے۔ ایسے کاموں کو کرتے وقت بچے کو مکمل آزادی دینی چاہیے ۔ مثال کے طور پر وہ اپنی پسند کی شکل یا تصویر بنائے۔ ڈرائنگ کی استاد بھی بچے کی ایسی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس طرح کے کام بچے کو تمام غیر ضروری اور غیر فطری سرگرمیوں سے دور رکھتے ہیں ۔ ایسے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے سے نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہوگی بلکہ اس کا بچے کی شخصیت پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ آج کل کئی اسکولوں نے بچوں کی ذہنی سطح بلند کرنے کے لئے ان کے روزانہ کے اسباق میں کوئز پروگرام اور معلوماتی دستاویزی ویڈیو فلمیں دکھانے کا اہتمام کر رکھا ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں کو نمایاں کیا جاسکے۔
 
رواجی ذہن
ایلس ہووے (Elis Howe) امریکہ کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کاریگر تھا۔ وہ 1819 میں پیدا ہوا اور صرف 48 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔
ایلس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے ابتداً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا ہے۔ اس لیے ایلس ہووے نے جب سلائی مشین کی تیاری کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتاتھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین میں ممکن نہ تھی۔ ایلس ہووے ایک عرصے تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا۔ آخرکار اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر سلائی مشین بنا کر تیار کرے، ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہو گیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا۔ ایلس ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ یہی دیکھتے ہوئے اس کی آنکھ کھل گئی۔
ایلس ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

ایلس ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے وہی صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملے کو سمجھا اور اس کو فوراً حل کر لیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے، تو وہ کسی نہ کسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پایا۔
(مصنف: وحید الدین خان)
ذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شدید مخالفت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البرٹ آئن اسٹائن
 

قیصرانی

لائبریرین
رواجی ذہن
ایلس ہووے (Elis Howe) امریکہ کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کاریگر تھا۔ وہ 1819 میں پیدا ہوا اور صرف 48 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔
ایلس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے ابتداً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا ہے۔ اس لیے ایلس ہووے نے جب سلائی مشین کی تیاری کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتاتھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین میں ممکن نہ تھی۔ ایلس ہووے ایک عرصے تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا۔ آخرکار اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر سلائی مشین بنا کر تیار کرے، ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہو گیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا۔ ایلس ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ یہی دیکھتے ہوئے اس کی آنکھ کھل گئی۔
ایلس ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

ایلس ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے وہی صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملے کو سمجھا اور اس کو فوراً حل کر لیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے، تو وہ کسی نہ کسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پایا۔
(مصنف: وحید الدین خان)
ذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شدید مخالفت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البرٹ آئن اسٹائن
اس بات کا جواب یہ ہے کہ جب آپ انتہائی شدت سے کسی مشکل کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں تو کسی بھی طرح سے آپ کو جواب مل جاتا ہے۔ یعنی یہ جواب اس کے پاس پہلے سے تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اسے آزمانا نہیں چاہ رہا تھا :)
ویسے بھی یہ تحقیق دیکھی تھی کچھ ماہ قبل، کہ برے خواب دراصل حقیقی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں :)
 
[quote="قیصرانی, post: 1557659, member: 380"یعنی یہ جواب اس کے پاس پہلے سے تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اسے آزمانا نہیں چاہ رہا تھا :)
[/quote]
:eek:آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے
 

قیصرانی

لائبریرین
[quote="قیصرانی, post: 1557659, member: 380"یعنی یہ جواب اس کے پاس پہلے سے تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اسے آزمانا نہیں چاہ رہا تھا :)
:eek:آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے[/quote]
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ رواجی ذہن کے مطابق سوچتے ہیں۔ اگر انتہائی سادہ حل بھی رواج سے ہٹ کر ہو تو انسان اسے شعوری طور پر نظرانداز کرتا ہے۔ خواب میں وہی بات اسے زیادہ شدت کے ساتھ دکھائی گئی (کہ خواب میں بھی اس نے جنگلیوں کے لئے سلائی مشین ہی بنانی تھی) تو اس نے درست حل کو قبول کر لیا
 

arifkarim

معطل
اسی معاملے پر ایک وڈیو بھی ہے۔ جس کے مطابق سکول کے نظام سے تخلیقی صلاحیتیں کم ہوتی ہیں۔

http://www.ted.com/talks/ken_robinson_says_schools_kill_creativity


یہ تو اس علاقہ یا ملک کے تدریسی نظام پر منحصر ہے کہ وہاں کے سیاست دان اور اساتذہ اپنے بچوں کیلئے کیسی تعلیمی پالیسی بناتے ہیں۔ اپنے مستقبل کی قوم کے رٹی فرمانبردار طوطے بناتے ہیں یا نئی تحقیق و تخلیق کرنے والے جدیدسائنسدان۔ یہ سچ ہے کہ اسکول کے نظام سے بچے کی تخلیقی صلاحیت پر مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے۔ لیکن صرف اسکے منفی اثرات کی وجہ سے ہم آنے والی نسلوں کو انپڑھ جاہل گنوار نہیں بنا سکتے۔ :) اسکول جاکر کم از کم بچہ لکھنا، پڑھنا، بنیادی حسابیات، سائنسز اور معاشرتی علوم تو حاصل کر ہی لیتا ہے۔ باقی جہاں تک تخلیقیت کا سوال ہے تو اسکے لئے والدین اور دیگر کوچز موجود ہیں۔
جیسے اسرائیل اپنی سالانہ خام پیداوار کا صرف 10 فیصد تعلیم پر خرچ کر کے دنیا میں تعلیمی اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور تخلیقی اعتبار سے اول نمبر پر آسکتا ہے:
http://www.jfns.org/page.aspx?id=43769
http://en.wikipedia.org/wiki/Education_in_Israel

اسی طرح دنیا کی 100 بہترین یونی ورسٹیوں میں سے تین کا تعلق یہودی اسرائیل سے ہے اور اس لسٹ میں ایک بھی مسلم دنیا کی یونی ورسٹی شامل نہیں:
http://www.shanghairanking.com/ARWU2013.html

یاد رہے کہ یہ رینکنگ کسی یہود و ہنود و نصاریٰ کی سازش نہیں کیونکہ یہ شانگھائی، چین کی طرف سے کی گئی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ تو اس علاقہ یا ملک کے تدریسی نظام پر منحصر ہے کہ وہاں کے سیاست دان اور اساتذہ اپنے بچوں کیلئے کیسی تعلیمی پالیسی بناتے ہیں۔ اپنے مستقبل کی قوم کے رٹی فرمانبردار طوطے بناتے ہیں یا نئی تحقیق و تخلیق کرنے والے جدیدسائنسدان۔ یہ سچ ہے کہ اسکول کے نظام سے بچے کی تخلیقی صلاحیت پر مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے۔ لیکن صرف اسکے منفی اثرات کی وجہ سے ہم آنے والی نسلوں کو انپڑھ جاہل گنوار نہیں بنا سکتے۔ :) اسکول جاکر کم از کم بچہ لکھنا، پڑھنا، بنیادی حسابیات، سائنسز اور معاشرتی علوم تو حاصل کر ہی لیتا ہے۔ باقی جہاں تک تخلیقیت کا سوال ہے تو اسکے لئے والدین اور دیگر کوچز موجود ہیں۔
جیسے اسرائیل اپنی سالانہ خام پیداوار کا صرف 10 فیصد تعلیم پر خرچ کر کے دنیا میں تعلیمی اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور تخلیقی اعتبار سے اول نمبر پر آسکتا ہے:
http://www.jfns.org/page.aspx?id=43769
http://en.wikipedia.org/wiki/Education_in_Israel

اسی طرح دنیا کی 100 بہترین یونی ورسٹیوں میں سے تین کا تعلق یہودی اسرائیل سے ہے اور اس لسٹ میں ایک بھی مسلم دنیا کی یونی ورسٹی شامل نہیں:
http://www.shanghairanking.com/ARWU2013.html

یاد رہے کہ یہ رینکنگ کسی یہود و ہنود و نصاریٰ کی سازش نہیں کیونکہ یہ شانگھائی، چین کی طرف سے کی گئی ہے۔


غلط!

بچوں کو صرف مدرسوں میں دینی تعلیم دینی چاہیے۔
یہ دیکھیں اسرائیل کے سکولوں میں کیا ہو رہا ہے:

http://en.wikipedia.org/wiki/Religion_in_Israeli_Schools


(نوٹ: یہ آپ کے مراسلات پر طنز ہے۔ اس کو ہرگز سنجیدہ نہ لیا جائے۔ شکریہ۔)
 

arifkarim

معطل
(نوٹ: یہ آپ کے مراسلات پر طنز ہے۔ اس کو ہرگز سنجیدہ نہ لیا جائے۔ شکریہ۔)

ہاہاہا۔ اسرائیلی وزارت تعلیم نے حال ہی میں تمام مذہبی و سیکولر اسکولوں میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء مڈل اسکول کے طلباء کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ظاہر ہے وہاں بھی ہمارے محبوب وطن پاکستان کی طرح یہودی طالبان اور مذہبی شدت پسند موجود ہیں جنکے مقدس صحیفوں کے مطابق اس زمین کی عمر صرف 6000 سال ہے اور بابائے آدم سیدھا جنت سے ready made اس زمین پر اتارے گئے تھے :)
http://www.jpost.com/National-News/...srael-to-begin-teaching-Darwins-theory-355046

لیکن وہاں خوش آئین بات یہ ہے کہ مذہب اور تعلیمی نصاب ابھی تک سینٹرل حکومتی وزارتوں کے نیچے ہے اور ہر کسی ایرے غیرے کو جو چاہے پڑھانے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کی بیس فیصد آبادی جو کہ فلسطینی عرب ہے کیلئے نصاب باقاعدہ اسرائیلی وزارت تعلیم سے منظور ہونے کے بعد آتا ہے کہ کہیں یہاں آزاد پالیسی اپنانے پر تعصب زدہ عرب اپنے بچوں کو مقبوضہ فلسطینیوں کی طرح خود کش بمبار ہی نہ بنا دیں :)
hamas2.jpg
 
بچوں کے لٹریچر کی اہمیت:
بچوں کو نفسیاتی اعتبار سے عمر کے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک ۰؍ تا ۶؍ سال کی عمر اور دوسرا ۶؍ تا ۱۴؍ سال کی عمر۔ حضرت علیؓ نے انسانی زندگی میں مراحل کا تذکرہ کیا ہے، اس میں پہلا مرحلہ رحمِ مادر ، دوم ۰؍۔۷؍، سوم ۷؍۔۱۴؍، چہارم ۱۴؍۔۲۱؍، پنجم ۲۱؍ سے زائد ہے۔ انسانی

زندگی میں بچپن کی بڑی اہمیت ہے۔
بچپن (۰؍۔۶؍ سال) ہی کے دوران بچے کا ۹۰؍فیصد دماغ تشکیل پاتا ہے۔ اسی عمر کے دوران بچہ میں motor skill, sensorial skills اورmathematical skillپروان چڑھتے ہیں۔ بچپن کا دوسرا مرحلہ ۷؍ سے ۱۴؍ سال والا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ۵؍ سال کی عمر سے بچہ مختلف سوالات کرنے لگتا ہے، جس میں زیادہ سوالات اس کے اپنے وجود اور اطراف کی چیزوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ یہ عمر کیوں؟ اور کیسے؟ کی کھوج کرتی ہے۔ ۸؍ سال کی عمر تک کو cognetiveعمر بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس عمر میں بچہ اپنی زندگی کی تشکیل کی بنیادیں تیار کرتا ہے۔ اس مختصر سی بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بچپن کی صحیح تربیت کتنی ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد ازاں اس کے ماں باپ اور ماحول یا تو اسے مومن بناتے ہیں یا مجوسی و یہودی۔ اس حدیث سے اس عمر کی اہمیت اور اس عمر کے دوران تربیت کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بچپن کی تربیت کے کئی عناصر ہیں: ماں باپ، ماحول اور اسکول۔ ماحول میں جہاں دوست شامل ہیں، وہیں اس زمرے میں کتابوں (لٹریچر) اور دیگر میڈیا کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔ میڈیا میں ٹی وی اور موجودہ دور میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوجائے گا۔
 
اس بات کا جواب یہ ہے کہ جب آپ انتہائی شدت سے کسی مشکل کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں تو کسی بھی طرح سے آپ کو جواب مل جاتا ہے۔ یعنی یہ جواب اس کے پاس پہلے سے تھا لیکن وہ جان بوجھ کر اسے آزمانا نہیں چاہ رہا تھا :)
ویسے بھی یہ تحقیق دیکھی تھی کچھ ماہ قبل، کہ برے خواب دراصل حقیقی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں :)
آپ کی بات سے ایک حکایت یاد آگئی، پڑھا تھا کہیں، بس مفہوم یاد ہے کہ کوئی صاحب تھے،جب بھی نماز پڑھتے تھے، نوٹ بک اور قلم ، ایک طرف رکھ لیتے تھے، جونہی سلام پھیرتے، نوٹ بک میں کچھ لکھتے تھے، پوچھا گیا تو بتایا کہ نماز میں شیطان ،ایسے ایسے نادر خیالات اور مسائل کے حل کی طرف توجہ دلاتا ہے، نماز سے توجہ ہٹانے کے لیے، تو وہ لکھ لیتے ہیں،
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، جونہی نماز شروع کی، مسائل اور الجھنوں کے حال اور نادر خیالات آنے شروع، ایک کشمش شروع، نماز میں ارتکاز کی کوشش ہوتی کہ ذہن کسی اور طرف نہ جائے، لیکں شیطان ،توجہ ہٹانے کی کوشش میں رہتا ہے ۔
ایک لطیفہ بھی ہے، کہ نمازی نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ نے بھول کر 4 کی بجائے 3 رکعت پڑھائی ہیں، مولوی صاحب کے ساتھ تکرار شروع، دلیل دی کہ ایک رکعت میں ایک ٍفیکٹری کے معاملات ذہن میں آتے ہیں تو ابھی تین ہی ہوئی تھیں کہ سلام پھیر دیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
چیز بعد میں آتی ہے،تیا پانچہ پہلے شروع۔
کوئی کھلونا ہی ثابت حالت میں ہو گا۔
ایمن کے ہار،،پنیں وغیرہ گڑیوں کے پہنی ہوتی ہیں۔
ٹوٹے کھلونے ہم سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان سے کبھی بھی کوئی بھی چیز بنانی ہوتی ہے۔
ہر چیز کی جگہ بدلتی رہتی ہے۔
سٹیشنری ،گتہ کے ڈبوں،الا بلا سے جدید فیکٹریاں بنتی ہیں۔۔۔۔
رف کاپیوں کے صفحات پھٹتے رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ماں کے ساتھ فٹبال کھیلی جاتی ہے۔
امّی دوپٹے کو کوڑا بنا کر کوکلا چھپاکی کھیل رہی ہیں،بچے سر نیچے کئے گول دائرے میں بیٹھے ہیں۔
امّی اور ایمن کیکلی ڈال رہی ہیں۔
آج امی گٹے لے کر آئی ہیں۔ ایمن نے اس سے پہلے کبھی گٹے نہیں کھیلے تھے۔
داؤد صاھب نے نائی،سبزی والا،ٹرین ڈرائیور،پائلٹ،انجینئر،ڈاکٹر،ایک ہی وقت میں صبح کے وقت میں ائیر فورس میں،دوپہر کو نیوی میں اور شام کو آرمی میں ہؤا کروں گا۔ مما بس میں نے سوچ لیا ہے کہ میں نے یہ تینوں ہی پیشے اپنانے ہیں۔ دن کےتین حصوں میں تین پروفیشن۔
بس میں نے تو وزیرِاعلیٰ ہی بننا ہے۔ بس اب آخری ہے۔
کینٹ کا چیف
ایمن نے بھی ڈھیروں پیشوں کے بعد آج کل سائنسدان بننے پر زور دیا ہؤا ہے۔
 
چیز بعد میں آتی ہے،تیا پانچہ پہلے شروع۔
کوئی کھلونا ہی ثابت حالت میں ہو گا۔
ایمن کے ہار،،پنیں وغیرہ گڑیوں کے پہنی ہوتی ہیں۔
ٹوٹے کھلونے ہم سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان سے کبھی بھی کوئی بھی چیز بنانی ہوتی ہے۔
ہر چیز کی جگہ بدلتی رہتی ہے۔
سٹیشنری ،گتہ کے ڈبوں،الا بلا سے جدید فیکٹریاں بنتی ہیں۔۔۔ ۔
رف کاپیوں کے صفحات پھٹتے رہتے ہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔ماں کے ساتھ فٹبال کھیلی جاتی ہے۔
امّی دوپٹے کو کوڑا بنا کر کوکلا چھپاکی کھیل رہی ہیں،بچے سر نیچے کئے گول دائرے میں بیٹھے ہیں۔
امّی اور ایمن کیکلی ڈال رہی ہیں۔
آج امی گٹے لے کر آئی ہیں۔ ایمن نے اس سے پہلے کبھی گٹے نہیں کھیلے تھے۔
داؤد صاھب نے نائی،سبزی والا،ٹرین ڈرائیور،پائلٹ،انجینئر،ڈاکٹر،ایک ہی وقت میں صبح کے وقت میں ائیر فورس میں،دوپہر کو نیوی میں اور شام کو آرمی میں ہؤا کروں گا۔ مما بس میں نے سوچ لیا ہے کہ میں نے یہ تینوں ہی پیشے اپنانے ہیں۔ دن کےتین حصوں میں تین پروفیشن۔
بس میں نے تو وزیرِاعلیٰ ہی بننا ہے۔ بس اب آخری ہے۔
کینٹ کا چیف
ایمن نے بھی ڈھیروں پیشوں کے بعد آج کل سائنسدان بننے پر زور دیا ہؤا ہے۔
بہت خوب، بچوں کے لیے سب سے بدترین چیز، مباح کاموں میں روک ٹوک ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ درخت کو بلند کرنے کے لیے اس کی نا مناسب شاخوں کو تراشنا پڑتا ہے کہ وہ سیدھا ہو اور بلند ہو، میرے خیال میں بچوں کی مناسب تربیت ، دنیا کے مشکل تریں کاموں میں سے ایک ہے، آج کل تو اور بھی مشکل ہے کہ معلومات کا سیلاب ہے، تو کونسی بات کس وقت بچے کو بتائی جاے، اس کا اختیار والدیں کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے ، ایک بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے
 
Top