بوڑھے لاہور نے دیکھا۔۔۔ فرخ سہیل گوئندی

farrukhsohailgoindicopy.jpg

لاہور کو برصغیر کی تاریخ میں بے حد نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس شہر میں اس خطے کی تاریخ کے اہم اور بڑے فیصلے کیے گئے۔ اسی شہر میں ہر دَور کے عظیم ادیب، دانشور، سیاسی رہنما، اداکار، گلوکار پیدا ہوئے جن کی صلاحیتیں اور فن متحدہ ہندوستان بلکہ اس کے بعد بھی اثرات مرتب کرتے رہے۔ لاہور کو برصغیر کا قدیم شہر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن قلم جب جذبات میں تاریخ کو Exaggerate کرتا ہے تو اس سے تاریخ مسخ ہوتی ہے اور اس طرح محدود یا کمزور مطالعہ بھی تاریخ کو مسخ کر دیتا ہے۔ لاہور کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے اکثر مؤرخین ایک مقام پر خاموش ہو جاتے ہیں اور اسے دو بھائیوں لہو اورقصو کی کہانی پر ختم کر دیتے ہیں، تقریباً ڈیڑھ دو ہزار سال تک۔ لیکن خطوں کی تاریخ کو آرکیالوجی کے علم سے پرکھا جائے تو خطوں کی تاریخ کے نئے باب کھلتے ہیں۔ وادئ سندھ کی تہذیب پر مامور آرکیالوجسٹ اب یہ طے کر چکے ہیں کہ لاہور ، ہڑپہ کے زمانے کا ایک شہر ہے اور اس کا ثبوت راوی پار ہڑپہ دَور کے ملنے والے آثار ہیں ۔ان ماہرین آثارِقدیمہ کا یقین ہے کہ لاہور ان بستیوں میں سے ایک بستی ہے جس کے کھنڈرات موہنجوداڑو، ہڑپہ اور کوٹ ڈیجی سے ملے ہیں جو کم از کم پانچ ہزار قبل مسیح کے شہر ہیں۔ جغرافیائی تبدیلیوں اور زمانے کی تبدیلیوں سے ہڑپہ کے زمانے کے اس شہر کی آبادی شہر کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوتی رہی، جس کا ثبوت شہر کی سطح میں اونچے نیچے ٹیلے ہیں۔ اور یوں ماہرین آثارِ قدیمہ کے بقول اسے دنیا کے ان تین شہروں میں شمار کیا جا سکتا ہے جو مسلسل آباد رہے ہیں، یعنی شام کے شہر دمشق اور عراقی کردستان کے شہر اربیل کے ساتھ۔ اس شہر نے ان ہزاروں برسوں میں کیا دیکھاہوگا، اس کا مکمل گواہ صرف خداتعالیٰ ہے یا اس شہر کی سرزمین۔
لاہور کا جدید یا ہم عصر تاریخ میں بھی کردار ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوتا ہے جب میں بھارت کا سفر کرتا ہوں جہاں لاہور سے محبت کرنے والے لاکھوں اور لاہور کی کہانیوں سے متاثر کروڑوں لوگ سرحد کے قیام کے سبب اس کے درشن سے محروم ہو گئے۔ سرحد پار لاہور کو شہرِ رومانس بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ذکر بھارت کی سیاست، صحافت اور ادب میں ہمیشہ ہوتا ہے۔ آزادئ ہند کی باقاعدہ ابتدا اسی شہر سے ہوئی۔ دریائے راوی کے کنارے آل انڈیا کانگرس نے اپنی سنگ میل میٹنگ میں ہند کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا جس کو ’’پورنا سوراج‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی مکمل آزاداور خودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ 31دسمبر 1929ء کو راوی کنارے اس ’’پورنا سوراج‘‘ یعنی مکمل آزادی نامی اجلاس میں جواہر لعل نہرو نے ترنگا لہرا کر ایک نئی آزاد اور خود مختار مملکت کا مطالبہ کیا جس کی تقریباً تمام جماعتوں نے حمایت کی۔اس اجلاس کے بعد کانگرس نے اپنی قرارداد 26جنوری 1930ء میں مکمل کی اور یوں آزادی کی تحریک کا بھرپور آغاز کر دیا گیا جس میں سبھاش چندربوس کی مکمل آزادی کی قراردار فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ اسی لیے آج بھی بھارت کا یومِ جمہوریہ 26جنوری کو ہی منایا جاتا ہے۔ اسی شہر میں 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے لیے قرارداد منظور کی۔ راوی کنارے منٹو پارک میں پاکستان کے لیے قرارداد اور اس سے سترہ سال قبل راوی کے دوسرے کنارے ہی برصغیر کی مکمل آزادی کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ ان دونوں اجلاسوں نے برصغیر کی سیاست ہی نہیں اس کا جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔
لاہور کے اس قدیم شہر نے جہاں خطے کی سیاست پر اَن مٹ اثرات مرتب کیے ہیں وہیں یہاں تاریخ کے لہو بھرے واقعات بھی برپا ہوئے۔ تاریخ صرف شان شوکت کا نام نہیں، اس بوڑھے شہر نے کیا کچھ نہیں دیکھا! ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اور اگر ہر زمانے کی تاریخ کو کھنگالنے لگ جائیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، بوڑھے لاہور نے اپنے سامنے حکمرانی کی سیاست دیکھتے دیکھتے اپنی آنکھیں تو بند نہیں کر لیں۔ ہاں ، اس کا بوڑھا راوی تو خشک ہو گیا، جس دریا کنارے یہ شہر آباد تھا، اس نے اس شہر سے اپنا رخ موڑ لیاکہ وہ ان واقعات کے کرب کی تاب نہیں لا سکتا تھا۔ اس دریا کو ہم نے پہلے خشک کر دیا اور پھر اسے گندگی کا ڈھیر بنا کر اپنے نام نہاد ’’زندہ دلانِ لاہور‘‘ ہونے کا ثبوت مہیا کر دیا۔
اسی شہر میں لالہ لاجپت رائے پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے اور اسی شہر میں آزادی کے سپوتوں بھگت سنگھ، راج گرو اورسکھ دیو کو سزائے موت دی گئی۔ ان کی لاشوں کو راتوں رات جلا کر دریا برد کر دیا گیا۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والی سلطنت برطانیہ آزادی کے ان متوالوں کی لاشوں سے بھی خوف زدہ تھی۔ لاہور کی سرزمین نے ان سپوتوں کو سولی پر چڑھتے ہوئے بھی دیکھا اور ان کی لاشوں کے خوف سے دنیا کے حکمرانوں کے ہوش وحواس اڑے ہوئے تھے۔
حکمرانی کی سفاکیوں کا ایک باب مغلیہ دَور کا بھی ہے، جس پر عقیدت کا غلاف ڈالا گیا ہے اور ’’عدلِ جہانگیری‘‘ کی عقیدت بھری کہانی کے بوجھ تلے لوگ جس سے محروم رہ گئے۔ 1626ء میں دو انگریز سیاحوں نے جب لاہور دیکھا تو وہ اس کا حسن و جمال دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے بقول:
’’لاہور، ہندوستان میں چوٹی کا شہر ہے۔ یہاں ہر چیز باافراط مل جاتی ہے۔ حقیقت میں ایسا خوبصورت، ہموار اور ایسا آباد قطع�ۂزمین دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہندوستان کے ہر علاقے کے سوداگر یہاں موجود ہیں۔ تجارت اپنے عروج پر ہے۔ سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ کے لیے سوداگر جہازوں پر اپنا مال لاتے ہیں(دریائے راوی کے ذریعے) اور دریا کنارے ایک حیرت انگیز رونق برپا رہتی ہے۔ ہر سال بارہ چودہ ہزار اونٹ مال و اسباب سے لدے ہوئے قندھار کے راستے ایران جاتے ہیں۔‘‘
مغل بادشاہ جہانگیر نے لاہور کو کئی سال اپنا پایۂ تخت بنائے رکھا۔ اس دوران لاہور نے جو دیکھا اسے یاد کرکے لاہور کی قدیم عمارتیں اب بھی لرز جاتی ہوں گی کیوں کہ جہانگیر نے انہیں یہ ہیبت ناک منظرنامہ اپنی حکمرانی کا رعب و دبدبہ طاری کرنے کے لیے دکھایا تھا۔جہانگیر کی تخت نشینی کے چوتھے مہینے جہانگیر کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے آگرہ سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے والد کے خلاف فوج اکٹھی کی اور لاہور کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے دہلی اور متھرا جیسے اہم شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لاہور آتے ہی خسرو نے مغل شہنشاہ جہانگیر کے پایۂ تخت لاہور کو لوٹنے کا اعلان کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں، غرض جو بھی ملے اسے قتل کر دیا جائے اور جو عمارت دکھائی دے جلا دی جائے۔ باغی شہزادے کی سپاہ نے اپنے سپہ سالار کے حکم پر عمل درآمد شروع کیا اور شہر کا ایک دروازہ مغل شہزادے کے قتال کا نشانہ بنا ہی تھا کہ شہنشاہ جہانگیر کی افواج نے خسرو کی افواج کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دے دی۔ خسرو شکست کھا کر کابل کی طرف بھاگا لیکن جہانگیر کے سپاہیوں نے وزیرآباد کے قریب سودھرہ میں خسرو کو اس کے والد بادشاہ جہانگیر کے حکم پر سات سو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔
جہانگیر،اس وقت کامران کی بارہ دری میں قیام پذیر تھا۔ حکمِ جہانگیر کے مطابق، حکمرانی کا رعب و جلال قائم رکھنے کے لیے اس شہر میں اجتماعی پھانسیوں کا اعلان کیا گیا اور یوں کامران کی بارہ دری سے قلعہ لاہور کی فصیل تک سات سو پھانسی گھاٹ بنائے گئے جن پر ان سات سو باغی سرداروں، عہدے داروں کو سرعام لٹکا دیا گیا اور سارے شہر کے باسیوں کو اس منظرنامے کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ خسرو کے اہم سپہ سالاروں عبدالرحیم دیوان کو گدھے کی کھال میں اور حسین بیگ کو گائے کی کھال میں لپیٹ کر سارے شہر میں گھمایا گیا۔ بادشاہ نے خود اپنے بیٹے خسرو کو زنجیروں میں جکڑ کر ہاتھی پر سوار کروا کے اس منظر کا نظارہ کروایا۔ اس واقعے نے سارے ہندوستان پر جہانگیر کی حکمرانی کی ہیبت طاری کر دی۔ خسرو کو کال کوٹھڑی میں قید کیا گیا اور پانچ سال کے اندر وہ کال کوٹھڑی میں سسک سسک کر مر گیا۔ یوں جہانگیر کی رگوں میں دوڑنے والے منگول خون نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشا۔ تاریخ کے ایسے ہزاروں ابواب اسی بوڑھے شہر نے دیکھے اور پھر اس شہر کے قلعے میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جو اذیتیں دی گئیں، اُن کے بارے میں پھر کبھی سہی۔
 

شمشاد

لائبریرین
لہور لہور اے۔

ابھی تو بہت مختصر بیان ہوا ہے۔
امید ہے اور بھی تحریریں شامل محفل کریں گے۔
 
Top