بوندا باندی (اطہر شاہ خاں)

رضوان

محفلین
ایک بار ہم نے ایک صاحب سے جنہیں ہم اپنی طرح کم علم نہیں سمجھتے تھے، یہ سوال پوچھا کہ ”تہذیبوں کا تصادم کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟“ وہ ہماری لاعلمی پرشفقت سے مسکرائے اور بولے ”جب دو تہذیبوں کے درمیان خیالات و احساسات و ”جذباتات“ کا فرق ہو تو اس سے تہذیبوں کا تصادم وجود میں آتا ہے!“۔ پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا”اب یہی دیکھ لیجئے کہ ہمارے ملک میں جب سورج نکلا ہوا ہو تو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا، ہم گرمی کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور کے ای ایس سی کو ایسے ایسے کوسنے دیتے ہیں کہ اگر وہ انسان ہوتی تو اب تک چھت کے رُکے ہوئے پنکھے میں رسّی ڈال کر خودکُشی کرچکی ہوتی لیکن جب آسمان پر بادل گھرے ہوئے ہوں، ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہو تو ہمارے دِل کے نہاں خانوں میں کئی غنچہ ہائے ناشگفتہ کھل جاتے ہیں، ہم خوش ہوکر کہتے ہیں آہا: آج تو موسم بہت اچھا ہے!“ ”اس میں تصادم کہاں ہے؟“ ہم نے پوچھا اُنہوں نے ناراض ہوکر علم سے لبریز سر کو جھٹکا اور بولے ”پہلے پوری بات سُن لیجئے!“ ”جی ارشاد!“ ہم سہم گئے۔ وہ گویا ہوئے ”اپنے ان خیالات و احساسات و جذباتات کے برعکس ذرا انگریزوں کو دیکھئے، بونداباندی ہورہی ہو تو گھر سے نکلنا موقوف کردیتے ہیں یا چھتری ساتھ لے کر نکلتے ہیں اور سارے راستے موسم کو بُرا بھلا کہتے جاتے ہیں۔ حالانکہ اُن کے شہروں میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کا رواج اب تک نہیں ہے پھربھی اُنہیں بارش سے نفرت ہے، وہ ابرآلود موسم کو خراب موسم کہتے ہیں۔ اُن کے ہاں اچھا موسم صرف وہ ہوتاہے جب سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر دن Sun-Day ہو تاکہ وقت بے وقت کی بونداباندی سے جان چھوٹے!“ اُنہوں نے علم کے دریا کو اس آسانی سے بونداباندی کے کوزے میں بند کردیا تھا کہ ہم ان کے تبحر علمی پر عش عش کر اُٹھے اور اچھی طرح یہ جان گئے کہ تہذیبوں کا تصادم بونداباندی کی وجہ سے ہوتا ہے اُن کے جانے کے بعد جو ہم نے اپنی ذاتی عقل سے کام لیا تو فکروخیال کے دریچے کُھلتے چلے گئے، ہم نے سوچا کہ دوچار تہذیبوں کا تصادم تو دُور کی بات ہے ہماری اپنی تہذیب میں بونداباندی کی وجہ سے کئی تصادم ہوجاتے ہیں۔ سڑک پر پھسلن کی وجہ سے موٹرسائیکل پھسلتی ہے اور فٹ پاتھ پر خوانچے والے سے جاٹکراتی ہے، دہی بڑوں کا کونڈا اُلٹ جاتا ہے اور پھر موٹرسائیکل سوار اور خوانچے والے کا ایسا تصادم ہوتا ہے کہ دونوں کا گونڈا ہوجاتا ہے، یہی حال دوسری ٹرانسپورٹ اور کاروں وغیرہ کا ہے۔ ٹیلی فون لائن کے لئے بیچ میں سے کھودی ہوئی سڑک پر ذراسی بونداباندی سے ایسی کیچڑ ہوجاتی ہے کہ جب اگلی کار والا سڑک پر چوڑی، گہری نالی سے بچنے کے لئے تیزی سے بریک لگاتا ہے تو پیچھے آنے والی کار اچانک رک نہیں پاتی اور آپس میں تسلی بخش تصادم ہوجاتا ہے، دونوں کارسوار بہت پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے تہذیبی تصادم کا مطلب جانتے ہیں لہٰذا نہایت تہذیب سے ایک دوسرے کو گھونسے اور لاتیں رسید کرتے ہیں۔ کیسا دیدہ زیب منظر ہوتا ہے کہ فرحت بخش ہوائیں چل رہی ہیں، ہلکی ہلکی بونداباندی ہورہی ہے، عینک والے کی قمیض کی آستین دوسرا کھینچ رہا ہے، دوسرے کے پاس کھینچنے کے لئے اورکچھ نہیں ہے تو وہ اگلے کی مونچھ کھینچ رہا ہے، تھوڑی دیر بعد ایک کے ہاتھ میں آدھی آستین اور دوسرے کے ہاتھ میں آدھی مونچھ آجاتی ہے اور دونوں خوش خوش اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ بونداباندی کے دوران صرف دنگافساد اور لڑائی مارکٹائی سے لبریز مناظر ہی نہیں ہوتے، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہوتاہے اور تقریباً ہر گھر میں ہوتا ہے۔ مثلاً ذرا بونداباندی شروع ہوئی اور گھروں میں کڑائی چولہے پر چڑھادی گئی، کیسے کیسے مزیدار پکوان بنتے ہیں کہ بچے ہر روز بونداباندی کی دُعا مانگتے ہیں۔ بچوں کے ابا آواز میں نقاہت و لرزاہٹ لاکر دفتر کو فون کردیتے ہیں کہ اچانک تیز بخار ہوگیاہے، یوں اُن کی چھٹی سے گھر کا ماحول اچانک خوشگوار ہوجاتا ہے اور سب مل کر کسی کے گھر جانے کی تیاری کرلیتے ہیں کہ آج وہاں کھانا کھایا جائے لیکن جب وہاں پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ تو کھانا کھانے کسی اور کے گھر گئے ہوئے ہیں چنانچہ بچوں کی امی کی فرمائش پر کھانا کسی ہوٹل میں کھایا جاتا ہے اور اس طرح پورے گھرانے کی یہ آرزو کہ بہت دنوں سے کڑائی گوشت، تکے پراٹھے اور بہاری کباب نہیں کھائے بہ حسن و خوبی اور یہ صرف کثیر پوری ہوجاتی ہے۔ جس زمانے میں گھروں میں آنگن ہوا کرتے تھے (جنہیں پڑھے لکھے لوگ صحن کہتے تھے) بونداباندی کا مزاہی کچھ اور ہوتا تھا، سارا خوشحال گھراناکرسیاں ڈال کر برآمدے میں بیٹھ جایا کرتا تھا، کم خوشحال لوگ دالان میں اور غریب غربا ”دلّان“ میں بیٹھتے تھے، اِدھر آنگن میں بونداباندی شروع ہوئی اُدھر برآمدے، دالان یا دلّان میں چائے کا دور شروع ہوگیا، مگر لڑکیاں کسی سائے میں نہیں بیٹھتی تھیں وہ آم یا نیم کے درخت پر جھولا ڈال کر لمبی لمبی پینگیں لیا کرتی تھیں! آج کل کے فلیٹوں میں رہنے والی بچیاں جھولے کے مزے کیا جانیں، بالفرض محال فلیٹ کی بالکنی میں جھولا ڈال بھی لیا تو ذراسی لمبی پینگ لی اور سامنے والے کی کھڑکی توڑ کر اُس کے فلیٹ میں جاپہنچیں (گویا تہذیبی تصادم کا آغاز ہوگیا) بونداباندی بچوں اور بڑوں کے علاوہ کے ای ایس سی اور واپڈا کو بھی بہت پسند ہے، بارش کی پہلی بوند گرتے ہی بجلی کی ترسیل بند کردیتے ہیں اور اسے لوڈشیڈنگ کی جگہ احتیاطی تدابیر کہتے ہیں۔ بعض پُرانے شہروں مثلاً لاہور، پشاور اور ملتان وغیرہ میں چونکہ انگریزوں نے بجلی لگائی تھی اور ساری تنصیبات اُنہی کے دور سے اب تک چلی آرہی ہیں تو ہلکی سی بونداباندی کے بعد بجلی کے تاروں اور ٹرانسفارمروں سے چنگاریاں بھی جھڑتی دیکھی گئی ہیں جو تہذیبوں کے تصادم کی عملی مثال ہیں۔ یہ انگریز کم بخت بجلی کا ایسا کم وقتی نظام کرگئے تھے کہ صرف ساٹھ ستّر سال میں بجلی کے تار اور ٹرانسفارمر خراب ہوجائیں اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جن شہروں میں ہمارے اپنے بجلی کے محکمے نے ٹرانسفارمر، تار اور کھمبے لگائے تو ٹھیکے دینے میں اس بات کا خاص التزام رکھا کہ یہ تار اور ٹرانسفارمر وغیرہ ساٹھ ستر دن سے زیادہ نہ چلنے پائیں چنانچہ بونداباندی شروع ہوتے ہی دھماکے کی آواز سے ٹرانسفارمر پھٹ جاتے ہیں اور جتنی دیر میں بجلی والے بجلی بند کریں، تار ٹوٹ کر زمین پر گرپڑتے ہیں۔ مگر کچھ ایسی خوش نصیب بستیاں بھی ہوتی ہیں جہاں کھمبوں کے درمیان سے بجلی کے تار ہرگز نہیں گرتے۔ گریں تو جبکہ موجود ہوں، وہ تو چوری ہوچکے ہوتے ہیں!!
بشکریہ جنگ 14 مئی 2007
 

یوسف-2

محفلین
جیدی، جیدی ہے۔ بہت خوب۔ اطہر شاہ خان کے مزاح کی کیا بات ہے۔ بہت بہت شکریہ رضوان بھائی
 
Top