بنا کے رب نے جہان سارا یہ حکم اپنا ہمیں سنایا----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
----------
بنا کے رب نے جہان سارا یہ حکم اپنا ہمیں سنایا
مری عبادت کرو ہمیشہ اسی لئے ہے تمہیں بنایا
---------------
حصار میں کائنات ساری خدا کی کرسی لئے ہوئے ہے
نظر میں اس کی جہان سارا ، اسی کا ہر اک جگہ پہ سایا
----------------
کیا ہے ممتاز سب جہاں پر ،بنا کے انساں ،شعور دے کر
اسی کی ساری یہ نعمتیں ہیں ، اسی نے جینا ہمیں سکھایا
-------------
بنا چلائے ہی چل رہا ہو نظامِ دنیا ہے کیا یہ ممکن
مرا خدا ہی چلا رہا ہے ، اسی نے سارا جہاں بنایا
------------
وہ کھیتیاں بھی اُگا رہا ہے ، وہ پھل بھی سارے پکا رہا ہے
گرا کے پانی زمیں پہ رب نے، زمیں سے سبزہ سبھی اُگایا
----------
زمیں خزانے اُگل رہی ہے رہیں گے ایسے ہی کم نہ ہوں گے
ہے شکر لازم خدا کا ہم پر کہ سب ہمارے لئے بنایا
-------------
نہ ختم ہوں گی خدا کی باتیں، بنیں سیاہی جو سب سمندر
خدا کی باتیں کرے گا ارشد اسی نے اس کو ہے یہ سکھایا
 

الف عین

لائبریرین
بنا کے رب نے جہان سارا یہ حکم اپنا ہمیں سنایا
مری عبادت کرو ہمیشہ اسی لئے ہے تمہیں بنایا
--------------- درست

حصار میں کائنات ساری خدا کی کرسی لئے ہوئے ہے
نظر میں اس کی جہان سارا ، اسی کا ہر اک جگہ پہ سایا
---------------- پہلے مصرع کا نصف آخر اگر نصف اول بنا دیا جائے تو؟
دوسرے مصرعے میں دونوں ٹکڑوں میں 'ہے' کی کمی ہے، لیکن کیا خدا کا سایہ کہنا درست ہے؟

کیا ہے ممتاز سب جہاں پر ،بنا کے انساں ،شعور دے کر
اسی کی ساری یہ نعمتیں ہیں ، اسی نے جینا ہمیں سکھایا
------------- جینا سکھایا... غیر متعلق ہے

بنا چلائے ہی چل رہا ہو نظامِ دنیا ہے کیا یہ ممکن
مرا خدا ہی چلا رہا ہے ، اسی نے سارا جہاں بنایا
------------ 'جہاں بنایا' غیر متعلق ہے

وہ کھیتیاں بھی اُگا رہا ہے ، وہ پھل بھی سارے پکا رہا ہے
گرا کے پانی زمیں پہ رب نے، زمیں سے سبزہ سبھی اُگایا
---------- پہلے مصرع کا حال کا صیغہ دوسرے مصرعے سے ربط نہیں دے رہا

زمیں خزانے اُگل رہی ہے رہیں گے ایسے ہی کم نہ ہوں گے
ہے شکر لازم خدا کا ہم پر کہ سب ہمارے لئے بنایا
------------- پہلے مصرع کا فاعل زمین ہے، لیکن دوسرے ٹکڑے کا خزانے!

نہ ختم ہوں گی خدا کی باتیں، بنیں سیاہی جو سب سمندر
خدا کی باتیں کرے گا ارشد اسی نے اس کو ہے یہ سکھایا
.. سکھایا.. کا آخری ٹکڑا پھر بے ربط ہو گیا
 
الف عین
(ایک بار پھر )
بنا کے رب نے جہان سارا ، یہ حکم اپنا ہمیں سُنایا
مری عبادت کرو ہمیشہ ، اسی لئے ہے تمہیں بنایا
------------
خدا کی کرسی لئے ہوئے ہے ، حصار میں کائنات ساری
جہان سارا نظر میں اُس کی ، اسی کا ہر اک جگہ پہ سایا
------------------
بِنا چلائے ہی چل رہا ہے نظامِ دنیا نہیں یہ ممکن
وہی تو اس کو چلا رہا ہے ، نظام جس نے ہے یہ بنایا
-----------
وہی اُگاتا ہے کھیتیاں بھی ،وہی پکاتا ہے پھل بھی سارے
زمیں پہ بارش گرا کے رب نے ، زمیں کو سبزے سے ہے سجایا
----------------
چھپے خزانے زمیں کو دیکھو خدا کی مرضی سے دے رہی ہے
-------------یا
خدا کی مرضی نہ ہو اگر یہ ، زمیں بھی ہم کو نہ دے گی کچھ بھی
مرے خدا نے طرح طرح کا زمیں سے ہے رزق سب اگایا
--------------
خدا کی باتیں نہ ختم ہوں گی بنیں سیاہی جو سب سمندر
بہت ہی تھوڑا ہے علم ارشد خدا نے انساں کو جو بتایا
-----------------
 

الف عین

لائبریرین
جہان سارا نظر میں اُس کی ، اسی کا ہر اک جگہ پہ سایا
میرے پچھلے کومنٹ پر غور پھر کریں
اس غزل یا حمد میں سب سے بڑی پریشانی ردیف کا صیغہ ہے، بغیر 'ہے' کہ یہ محض ماضی کا ہو جاتا ہے۔

بِنا چلائے ہی چل رہا ہے نظامِ دنیا نہیں یہ ممکن
وہی تو اس کو چلا رہا ہے ، نظام جس نے ہے یہ بنایا
----------- صیغے کے لحاظ سے درست لیکن نظام دونوں مصرعوں میں اور وہ بھی ایک ہی مقام پر گوارا نہیں

وہی اُگاتا ہے کھیتیاں بھی ،وہی پکاتا ہے پھل بھی سارے
زمیں پہ بارش گرا کے رب نے ، زمیں کو سبزے سے ہے سجایا
---------------- بارش گرانا بھی اچھا نہیں لگتا اور زمین بھی دونوں ٹکڑوں میں دہرایا جانا اچھا نہیں۔
اسی نے بارش بھی ہم کو بخشی
شاید بہتر ہو

چھپے خزانے زمیں کو دیکھو خدا کی مرضی سے دے رہی ہے
-------------یا
خدا کی مرضی نہ ہو اگر یہ ، زمیں بھی ہم کو نہ دے گی کچھ بھی
مرے خدا نے طرح طرح کا زمیں سے ہے رزق سب اگایا
-------------- دوسرا متبادل بہتر ہے
ٹھیک ہے شعر

خدا کی باتیں نہ ختم ہوں گی بنیں سیاہی جو سب سمندر
بہت ہی تھوڑا ہے علم ارشد خدا نے انساں کو جو بتایا
----------------- علم بتایا؟ اس کی جگہ
جو رب نے انسان کو سکھایا
بہتر ہو گا
مجموعی طور پر وہی بات کہ اس میں بھی سارے مضامین وہی ہیں جو آپ کم از کم سو غزلوں میں کہہ چکے ہیں، کوئی نئی بات نہیں ہے، غیر مردف ہونے کی وجہ سے اور وہ بھی ماضی کے صیغے کی وجہ سے بیانیہ بھی ایسا ہو گیا ہے کہ روانی متاثر ہے۔
اس پر مزید محنت نہ کریں، مشق کے لیے اچھی غزل ہے بلکہ اسے تک بندی ہی کہیے!
 
Top