بلجیم، جرمنی اور فرانس کی سیر

عرفان سعید

محفلین
سٹرازبرگ میں آپ کو فرنچ کے مقابلے میں جرمن رنگ نظر آیا؟ میں وہاں نہیں گیا لیکن ایک واقف کار وہاں سے تھا اور اس کا انگریزی لہجہ فرنچ کی بجائے جرمن تھا
شہر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پچھلی صدیوں میں کبھی جرمنی اور کبھی فرانس کا حصہ رہا ہے۔ جغرافیائی طور پر بالکل جرمنی کے ساتھ ہے۔ تو باقی فرانس کے مقابلے میں ان عوامل کے اثرات تو واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
لیکن ایک احساس عرض کرتا چلوں۔ سٹراس برگ جرمنی سے متصل ہے، لیکن جیسے ہی ہماری ٹرین جرمنی سے اس شہر میں داخل ہوئی، تو فورا ایک مختلف جگہ کا احساس ہوا۔ عمارات کی ساخت، زبان، اور بہت سی چیزیں فورا سے مختلف محسوس ہونا شروع ہو گئیں۔ جب جرمنی میں رہائش پذیر تھا تو فرانس کی سیر کو گئے۔ بعینہ یہی احساس اس وقت ہوا تھا۔
 

عرفان سعید

محفلین
فن لینڈ سے نکلے اب دو ہفتے ہو چکے تھے۔ آج اس ٹرپ کا آخری دن تھا۔صبح سویرے بیدار ہونے اور ناشتہ کرنے کے بعد واپسی کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ کھڑکیوں سے آتی ہوئی تازہ ہوا بہت خوش گوار احساس دے رہی تھی، سر سبز و شاداب باغات آنکھوں کو جلاوت اور روح کو طراوت بخش رہے تھے۔ کھڑکی سے نیچے باغات میں پھل توڑ کر اکٹھا کرتے ہوئے کریسٹا اور اس کے شوہر کی گفتگو بھی کبھی کبھی سنائی دے دیتی۔ تمام سامان باندھا جا چکا تھا۔کریسٹا نے بہت زیادہ تاکید کی تھی کہ جانے سے پہلے اس سے ضرور مل کر جائیں۔ سامان گاڑی میں رکھنے کے بعد ہم نزدیکی باغ میں چلے گئے جہاں کریسٹا موجود تھی۔
ہم نے جیسے ہی اسے بتایا کہ ہم رختِ سفر باندھ چکے ہیں تو اس نے فورا اپنے شوہر ڈیوڈ اور بیٹے مائیکل کو آواز دی۔ ڈیوڈ لکڑی کا ایک بہت بڑا کریٹ اپنے گلے میں لٹکائے آلو بخارے توڑنے میں مصروف تھا اور مائیکل گھر کے صحن میں لکڑیوں کے ساتھ بر سرِ پیکار تھا۔۔دونوں سے ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی اور انہوں نے اجازت چاہی۔ کریسٹا نے ہمارے لیے آج بھی تازہ آلو بخارے توڑ رکھے تھے، جسے اس نے گاڑی میں رکھوا دیا اور ہم سب کو ساتھ لیکر حسن اور سارہ کے ساتھ کیا ہوا ایک وعدہ پورا کرنے چل دی۔ ان لوگوں نے ہرن پال رکھے تھے جو کہ جنگل سے متصل ایک وسیع فارم میں موجود تھے۔ کریسٹا نے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ جانے سے پہلے ہرن ضرور دکھائے گی۔

فارم میں موجود ہرن

 

عرفان سعید

محفلین
حسن اور سارہ درختوں سے سیب اور آلو بخارے توڑ کر ہرنوں کو پیش کر رہے تھے اور کافی محظوظ ہو رہے تھے۔ ان سے پھل لینے ہرن لوہے کی باڑ کے بالکل قریب آ جاتے۔

 

عرفان سعید

محفلین
کچھ دیر اس فارم میں گزارنے کے بعد ہم واپس اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔ ہرزٹال (دل کی وادی) نامی اس گاؤں میں گزرے ہوئے تین دن بہت کم محسوس ہو رہے تھے۔ کریسٹا کی میزبانی مثالی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ دل بار بار یہی خواہش کر رہا تھا کہ کاش کچھ دن اور ہوتے! اور شہر کے ہنگاموں سے دور، فطرت کی آغوش میں، گھنے باغات کے سایہ دار پیڑوں کی رفاقت میں وقت گزارتے۔ لیکن جس طرح ریاضِ دہر میں قیام عارضی ہے، اسی طرح اس جنت نما قریے میں پڑاؤ بھی وقتی تھا۔ اب بس جانا تھا۔ دل جن جذبات اور احساسات سے دوچار تھا ان کے ہاتھوں مغلوب ہو کر یہاں کے ایک ایک گوشے کو تصویروں میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا۔

کریسٹا کے گھر سے باہر ایک کیاری

 

عرفان سعید

محفلین
واپسی کی فلائیٹ فرانکفرٹ ائیر پورٹ سے تھی۔ جہاں تک ڈرائیو تین گھنٹے کے قریب تھی۔ پلان یہ تھا کہ راستے میں پہلے آلرہائی لیگن آبشاروں کو دیکھتے ہوئے باڈن باڈن کے قصبے کو دیکھیں گے اور اس کے بعد فرانکفرٹ روانہ ہو جائیں گے۔
آلر ہائی لیگن آبشاروں اور باڈن باڈن جانے کا راستہ بلیک فارسٹ کی پہاڑی سڑکوں سے جاتا تھا اور ڈرائیو کا اپنا ہی ایک لطف تھا۔

 

عرفان سعید

محفلین
آلر ہائی لیگن آبشاروں کی تعداد سات ہے جو سطحِ زمین سے پانچ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ بلند ترین مقام پر جا کر بلندی سے اترتے ہوئے بتدریج سات آبشاروں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ بلند ترین مقام پر بارہویں صدی کی ایک خانقاہ کے باقیات موجود ہیں۔ یہاں تک آتے آتے موسم ابر آلود ہو چکا تھا۔

 
Top