بلاعنوان۔۔۔

نوید ناظم

محفلین
انسان نے اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے سائنس کا سہارا تو لے لیا مگر خود بے سہارا ہو کر رہ گیا ہے. اس کی زندگی میں آرام دہ اشیاء ہیں مگر آرام نہیں ہے. اس کے پاس سکون آور ادویات ہیں مگر سکون نہیں ہے..انسان کے اندر خلاء پیدا ہو چکے ہیں مگر نہ جانے یہ کن خلاوں کا سفر طے کرنا چاہتا ہے. خدا نہ کرے کہ ایسا ہو کہ انسان کو انسان کے اعمال کے حوالے کر دیا گیا ہو. کہتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں جب کسی کا خون سفید ہوتا تو آسمان سرخ ہو جاتا تھا مگر اب آسمان' انسان کی بے حسی پر خاموش کیوں ہو جاتا ہے. ہم کمزور انسان اس قابل نہیں کہ آسمانوں یا سمندروں کی خاموشیاں برداشت کر سکیں کہ یہ دونوں خاموشیاں اپنے اندر طوفان چھُپاے ہوتی ہیں. ہمارے بازاروں میں رونقیں اور زندگی میں ویرانیاں بڑھتی جا رہی ہیں ...اس لیے کہ ہم نے انسانیت پر مادیت کو فوقیت دے ڈالی...ہم نے رنگین کیمرے ایجاد کیے اور ہمارے چہرے بے رنگ ہوگئے...تصویروں کے چہرے صاف ہو گئے اور چہروں کی تصویریں دھندلا گئیں...انسان دماغ کی کاروائیوں میں مصروف اور دل کی کارفرمائیوں سے محروم ہوتا گیا...ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی رفتار کا جائزہ لیں' اپنی سمت کا تعین کریں...ہمیں ہمارے پرودگار نے غور کرنے کی دعوت دی ہے ...کیوں نہ یہ دعوت قبول کر لی جائے. اور ہم اس بات پر بھی غور کر سکیں کہ ہم بڑی برق رفتاری سے جا رہے ہیں....مگر ہم جا کدھر رہے ہیں؟
 

اکمل زیدی

محفلین
انسان نے اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے سائنس کا سہارا تو لے لیا مگر خود بے سہارا ہو کر رہ گیا ہے. اس کی زندگی میں آرام دہ اشیاء ہیں مگر آرام نہیں ہے. اس کے پاس سکون آور ادویات ہیں مگر سکون نہیں ہے..انسان کے اندر خلاء پیدا ہو چکے ہیں مگر نہ جانے یہ کن خلاوں کا سفر طے کرنا چاہتا ہے. خدا نہ کرے کہ ایسا ہو کہ انسان کو انسان کے اعمال کے حوالے کر دیا گیا ہو. کہتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں جب کسی کا خون سفید ہوتا تو آسمان سرخ ہو جاتا تھا مگر اب آسمان' انسان کی بے حسی پر خاموش کیوں ہو جاتا ہے. ہم کمزور انسان اس قابل نہیں کہ آسمانوں یا سمندروں کی خاموشیاں برداشت کر سکیں کہ یہ دونوں خاموشیاں اپنے اندر طوفان چھُپاے ہوتی ہیں. ہمارے بازاروں میں رونقیں اور زندگی میں ویرانیاں بڑھتی جا رہی ہیں ...اس لیے کہ ہم نے انسانیت پر مادیت کو فوقیت دے ڈالی...ہم نے رنگین کیمرے ایجاد کیے اور ہمارے چہرے بے رنگ ہوگئے...تصویروں کے چہرے صاف ہو گئے اور چہروں کی تصویریں دھندلا گئیں...انسان دماغ کی کاروائیوں میں مصروف اور دل کی کارفرمائیوں سے محروم ہوتا گیا...ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی رفتار کا جائزہ لیں' اپنی سمت کا تعین کریں...ہمیں ہمارے پرودگار نے غور کرنے کی دعوت دی ہے ...کیوں نہ یہ دعوت قبول کر لی جائے. اور ہم اس بات پر بھی غور کر سکیں کہ ہم بڑی برق رفتاری سے جا رہے ہیں....مگر ہم جا کدھر رہے ہیں؟

بلکل متفق ہوں نوید صاحب .... بس اتنا کہونگا ..کے ہر شے کا ایک مرکز ہوتا ہے جب جب شے وہ اپنے مرکز سے دور ہوتی ہے ..اس میں بکھار آتا ہے اور جب جب قریب ہوتی ہے نکھار آتا ہے ...سارا بکھار اور نکھار مرکزیت سے دوری اور قربت کا نتیجہ ہے ۔
 
ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے مختلف اصناف زندگی میں زوال پذیر ہوتے جار ہے ہیں۔ اچھی تحریر ہے
'ر' شاید دو بار آتی ہے
ہم اس بات پر بھی غور کر سکیں کہ ہم بڑی برق رفتاری سے جا رہے ہیں....مگر ہم جا کدھر رہے ہیں؟
عارضی نمود و نمائش کی تلاش میں۔

ایک مشورہ ہےآپ کی تحریروں میں یکسانیت سی ہے بات کہنے کا انداز بدلیے۔
 

نوید ناظم

محفلین
ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے مختلف اصناف زندگی میں زوال پذیر ہوتے جار ہے
جی۔۔۔۔ معاشرہ' فرد سے ہے اور فرد' باطن سے۔۔۔ جب افراد اپنے اندر کے انسان سے توجہ ہٹا کر صرف ظاہر کو سنوارنے میں مصروف ہو جائیں تو زوال آ سکتا ہے۔۔۔ تاہم ایسا کوئی بھی زوال یا عروج' دائمی نہیں ہوتا۔۔۔۔ بہتر ہو جائے گا انشاءاللہ.
 
Top