" بغل میں جوتا "

عندلیب

محفلین
" بغل میں جوتا "
راوی :سردار سلیم

جوتا چرانا اور جوتا چھپانا ایک ہی قبیل سے تعلق رکھنے والے دو الگ الگ فن ہیں ۔۔ اور ذرا فراخدلی سے کام لے کر آپ اس " فن" کو فنون لطیفہ سے بھی جوڑ سکتے ہیں ۔۔۔ شادیوں میں دولہا کی جوتی چرانے کا دل خوش کن فریضہ عموماً سالیاں اور خصوصاً سالیاں ہی انجام دیتی ہیں ۔۔ اس سرقۂ دلپذیر سے مابدولت کو خدا واسطے کی محبت ہے مگر برا ہو اس شاعرانہ طبیعت کا جو ہر وقت خود پر بڑھاپا طاری کئے رہتی ہے اور اسی طبیعت کی وجہ سے مابدولت نے اپنی شادی میں سیاہ رنگ کی "جلسہ" جوتی پہنی تھی اور نٹ کھٹ سالوں نے غلط فہمی کی بنا پر مابدولت کی برات میں آئے ہوئے عبدالغفور کی "سلیم شاہی " پر ہاتھ صاف کردیا تھا ، نتیجتاً دونوں فریقین ایک دوسرے کے آگے شرمندہ تھے یعنی سالیاں مجھ سے اور میں سالیوں سے ۔۔۔ عبدالغفور تو مفت میں "موج بنجارا لے گیا" کی تصویر بنے دانت نکوستے رہے اور مابدولت دانت پیستے ہوئے اپنا جلوہ ڈلواتے رہے ۔۔ حقیقتا جوتے چرانا ایک معشوقانہ جرم ہے ، اگر کوئی اسے غیر سماجی حرکت سے تشبہہ دیتا ہے تو مجھے اعتراض ہے ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ الشرفاء الغافلین کی جیبیں کترنے والے اور بٹوے اڑانے والے نرے بدذوق ہوتے ہیں ۔ ان سارقین نامراد کو خبر ہونی چاہیے کہ یہ کارخیر صرف سگھڑ ، گھریلو بیبیوں کے لیے مخصوص ہے ۔۔۔ اگر سچ پوچھئیے تو میں ایسے سارقین کو زیادہ نمبر دینا پسند کرتا ہوں جو چپلیں ، جوتے ، چشمے اور انگشتریوں کو چرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس سے چور کے جمالیاتی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے ۔۔۔ پیسہ کیا ہے ہاتھ کا میل ہے ، اصل دولت تو یہ پہناوے ہیں اور پھر مرد حضرات کا زیور بھی یہی چیزیں ہیں اور ان چیزوں کو چوری کرنا آنکھ سے کاجل چرانے سے بھی زیادہ نازک کام ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ جوتا یا چپل چرانے کے مقابلے میں کسی کا دل چرا لینا زیادہ آسان ہے ۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ "ناتجربہ کاری سے ۔۔۔" مابدولت کی یہ باتیں ہیں ۔۔۔۔
دراصل کئی بار ایسا ہوا ہے کہ میں مسجد میں جب بھی نماز پڑھنے جاتا ہوں لاکھ جتن کر کے اپنی چپل کسی محفوظ مقام پر چھپاتا ہوں لیکن آخر وہ غائب ہوہی جاتی ہے اور میں اپنی قسمت پر صبر کرکے ننگے پاؤں گھر لوٹ آتا ہوں ، دلہن شہزادی جب مجھے اس حالت میں دیکھتی ہیں تو خوش ہوکر کہتی ہیں ۔۔۔ "چلو اچھا ہوا! بلا گئی !!۔"
گویا کہ جتنی آفتیں تھیں وہ سب اسی چپل کی وجہ سے تھیں ۔۔۔ حکیم جاروب کش صاحب قبلہ حفاطت خود اختیاری کا اپنا ایک منفرد معیار رکھتے ہیں ، یعنی ایک چپل مسجد کے صدر دروازے کے پاس چھوڑتے ہیں تو دوسری چپل اندر کہیں دور دراز گوشے میں چھپا دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی چپلیں غائب ہوکر ہی رہتی ہیں اور وہ یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ "ہو نہ ہو ضرور کوئی ضرورت مند میری چپل لے گیا ہوگا ۔ "لہذا فوری بارگاہ ایز دی میں سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے کسی اور چپل آناً فاناً منتخب کرکے پہن لیتے ہیں اور خراماں خراماں اپنے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ایک اور حکیمانہ ترکیب بھی ہے ، وہ یہ کہ اکثر مسجد کو جاتے وقت دونوں پیروں میں دو الگ الگ رنگوں کی چپلیں پہن لیتے ہیں ، اس ترکیب سے انہیں چاہے کوئی فائدہ ہو کہ نہ ہو مگر دیکھنے والے ان سے اس دورنگی سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ، بہر کیف !
بعض جوتا چور بڑے نفیس الطبع ہوتے ہیں ، معمولی ، گھسی پٹی اور سستی پاپوش کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ ان کی نظر صرف نئے اور معیاری جوتوں ، چپلوں اور سینڈلوں پر ہوتی ہے ۔۔۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ہمارے محلے کی ایک مسجد میں ایک ایسا عجیب وغریب جوتا چور آتا ہے جسے صرف " عربہ " چپلیں ہی پسند ہیں ۔۔۔
حالانکہ وہاں ہمہ اقسام کی بھاری بھاری چمچماتے ہوئے جوتے اور چپلیں رکھی ہوتی ہیں مگر وہ اس ڈھیر میں سے چن چن کر صرف " عربہ" چپلیں ہی نکالتا ہے اور بغل میں داب کر رفو چکر ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔ یقین مانیے میں آپ کو بالکل سچا واقعہ سنا رہا ہوں ، مسجد کی انتظامی کمیٹی کے ذمہ داروں نے کئی بار اس دھن کے پکے چور کو گھات بھی لگائی مگر وہ باکمال و خوش خیال آج تک پکڑا نہیں گیا ، بخدا اس چور کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں زبان سے بے ساختہ غالب کا یہ مصرع آجاتا ہے ۔
" نظر لگے نہ کہیں اس کے ، دست و بازو کو "
سچ کہوں تو ایک بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ بستی بستی قریہ قریہ انواع و اقسام کی دعوتیں ہوتی ہیں ، طرح طرح کی محافل سجتی ہیں مگر بالعموم ایسی جگہوں پر جوتے چوری نہیں ہوتے ، خدا جانے یہ سارقین پاپوش اپنا ہنر دکھانے کے لیے عبادت گاہوں کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں ۔۔۔ کیا ۔۔۔۔ آپ نے کبھی کسی میکدے میں کسی کا جوتا چوری ہونے کی خبر سنی ہے ۔۔۔؟ یا پھر آپ نے کبھی یہ سنا فلاں جوے کے اڈے سے فلاح شخص کی چپل غائب ہوگئی ہے ۔۔۔؟
خدا جانے اس میں کیا بھید ۔۔۔ میں نے ایک بار چشم تصور سے ایک جوتا چور کو دیکھا اور اسے پکڑ کر پوچھا کہ میاں اس میں کیا راز ہے کہ تم صرف عبادت گاہوں سے ہی جوتے چراتے ہو ؟
اس چور نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔ "ابے چغد ! قدرت نے مجھے تیری آزمائش کے لیے اس انوکھے کام پر لگا رکھا ہے ۔۔۔۔ دراصل میں یہ دیکھتا ہوں کہ تیری توجہ عبادت میں ہے یا چمڑے کے بے وقعت چھلکوں میں ہے ۔۔۔"
اس کا جواب سن کر میں دھک سے رہ گیا ، ایمان سے کہہ رہا ہوں اس وقت میرے اندر کا چور اس چور کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا تھا ۔۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
عندلیب یہ ’راوی سردار سلیم‘ کا کیا مطلب ہے۔ ’آدمی کے بچے‘ میں بھی یہی الفاظ ہیں!! یہ سردار سلیم کی اپنی تحریریں ہیں؟ ان کی کسی کتاب سے دیکھ کر ٹائپ کر رہی ہو یا کسی ان پیج فائل تک دسترس ہو گئی ہے؟
 
Top