بغرض ا صلاح: ’’ وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی ‘‘

فاخر

محفلین
غزل

افتخاررحمانی فاخرؔ

اپنے غیظ و غضب کو بھلاتے کبھی
اور آکے صنم تم نہ جاتے کبھی !!

کرکے وعدہ صنم ، کیوں بھلایا اسے
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی

جس رخ ِ ماہ رو کا میں دیوانہ ہوں
وہ رخِ ماہ رو تم دکھاتے کبھی

آئے جس سے سکوں قلب ِ مغموم کو
وہ نوید ِ مسرت سناتے کبھی

جوش زن دل میں ہے آتشِ عشق جو
دست ِ شفقت سے اس کو بجھاتے کبھی

ہو خبر یہ کہ میں، دائمی رند ہوں !!
اپنے ہونٹوں سے تم مے پلاتے کبھی

صد چراغاں شود ، در جہانِ جنوں
پیار کا اک دیا تم جلاتے کبھی !!
 

الف عین

لائبریرین
اپنے غیظ و غضب کو بھلاتے کبھی
اور آکے صنم تم نہ جاتے کبھی !!
.. بھئی یہ صنم، جان، وغیرہ فلمی گیتوں کے الفاظ سے پرہیز کرو۔ اس کے بغیر تاثر بہتر ہو سکتا ہے
ایسے آتے کہ پھر تم نہ جاتے کبھی

کرکے وعدہ صنم ، کیوں بھلایا اسے
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی
... وعدہ بھی رپیٹ نہ کیا جائے تو اچھا ہے،( اور صنم)

جس رخ ِ ماہ رو کا میں دیوانہ ہوں
وہ رخِ ماہ رو تم دکھاتے کبھی
... رخ ماہ رو عجیب ترکیب ضرور ہے لیکن شعر درست لگ رہا ہے

آئے جس سے سکوں قلب ِ مغموم کو
وہ نوید ِ مسرت سناتے کبھی
.. درست

جوش زن دل میں ہے آتشِ عشق جو
دست ِ شفقت سے اس کو بجھاتے کبھی
کیا محترمہ بزرگ خاتون ہیں؟ شفقت تو بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے
روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے
جوش زن دل میں جو آتش عشق ہے
دست الفت؟ پ

ہو خبر یہ کہ میں، دائمی رند ہوں !!
اپنے ہونٹوں سے تم مے پلاتے کبھی
... ردیف' کبھی' کی وجہ سے پہلا مصرع جم نہیں رہا۔ یہ تمنائی صیغہ لگتا ہے

صد چراغاں شود ، در جہانِ جنوں
پیار کا اک دیا تم جلاتے کبھی !!
فارسی گھسانے کی کیا ضرورت دریں زبان ِ اردو
شعر یوں بھی دو لخت ہے
 
کیا محترمہ بزرگ خاتون ہیں؟ شفقت تو بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے
روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے
جوش زن دل میں جو آتش عشق ہے
دست الفت؟ پ
رات کو موبائل پر جب یہ غزل دیکھی تو بعینہ یہی تاثر میرے ذہن میں بھی قائم ہوا تھا :)

آخری شعر کی بابت بھی استادِ محترم کی رائے عین مناسب ہے، خصوصاً جب دوسرا مصرعہ ہندی الفاظ اور لہجے سے زیادہ قریب ہے ۔۔۔ ایسے میں پہلے مصرعے کی فارسی کچھ خاص تاثر نہیں چھوڑ رہی۔
 

فاخر

محفلین
اپنے غیظ و غضب کو بھلاتے کبھی
اور آکے صنم تم نہ جاتے کبھی !!
.. بھئی یہ صنم، جان، وغیرہ فلمی گیتوں کے الفاظ سے پرہیز کرو۔ اس کے بغیر تاثر بہتر ہو سکتا ہے
ایسے آتے کہ پھر تم نہ جاتے کبھی

کرکے وعدہ صنم ، کیوں بھلایا اسے
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی
... وعدہ بھی رپیٹ نہ کیا جائے تو اچھا ہے،( اور صنم)

جس رخ ِ ماہ رو کا میں دیوانہ ہوں
وہ رخِ ماہ رو تم دکھاتے کبھی
... رخ ماہ رو عجیب ترکیب ضرور ہے لیکن شعر درست لگ رہا ہے

آئے جس سے سکوں قلب ِ مغموم کو
وہ نوید ِ مسرت سناتے کبھی
.. درست

جوش زن دل میں ہے آتشِ عشق جو
دست ِ شفقت سے اس کو بجھاتے کبھی
کیا محترمہ بزرگ خاتون ہیں؟ شفقت تو بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے
روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے
جوش زن دل میں جو آتش عشق ہے
دست الفت؟ پ

ہو خبر یہ کہ میں، دائمی رند ہوں !!
اپنے ہونٹوں سے تم مے پلاتے کبھی
... ردیف' کبھی' کی وجہ سے پہلا مصرع جم نہیں رہا۔ یہ تمنائی صیغہ لگتا ہے

صد چراغاں شود ، در جہانِ جنوں
پیار کا اک دیا تم جلاتے کبھی !!
فارسی گھسانے کی کیا ضرورت دریں زبان ِ اردو
شعر یوں بھی دو لخت ہے

نظر ثانی اور مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر یہی غزل اصلاح کیلئے پیش ہے!

اپنے غیظ و غضب کو بھلاتے کبھی
ایسے آتے کہ پھر تم نہ جاتے کبھی!

جز ترے کوئی مہر وفا تو نہیں
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی

جس رخ ِ ماہ رو کا میں دیوانہ ہوں
وہ رخِ ماہ رو تم دکھاتے کبھی

آئے جس سے سکوں قلب ِ مغموم کو
وہ نوید ِ مسرت سناتے کبھی

’’ تجھ سےقائم ہیں یہ زیست کے سلسلے‘‘
کاش اس راز کو جان جاتے کبھی

جوش زن دل میں ہے آتش عشق جو
اس کو لطف و کرم سے بجھاتے کبھی

دائمی رند کے دل کی ہیں خواہشیں!
اپنے ہونٹوں سے تم مے پلاتے کبھی

شمع عشق و جنوں ، لاکھوں روشن ہوئیں !
اک دیا پیار کا تم جلاتے کبھی
 
آخری تدوین:
شمع عشق و جنوں ، لاکھوں روشن ہوئے
اک دیا پیار کا تم جلاتے کبھی
پہلےمصرعے میں گرائمر کا مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ شمع تو مونث ہے، پھر ’’روشن ہوئے‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں، لاکھوں کے ساتھ شمع واحد کیسے ہوسکتی ہے؟
 

فاخر

محفلین
ہلےمصرعے میں گرائمر کا مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ شمع تو مونث ہے، پھر ’’روشن ہوئے‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں، لاکھوں کے ساتھ شمع واحد کیسے ہوسکتی ہے؟
جی جی بالکل ! اس کا حل اور جواب ’ہوئیں‘میں ہے ، جو مس ٹائپنگ کی وجہ سے ’’ہوئے‘‘ رہا ، ’ہوئیں‘ نہ ہوسکا ۔
 

الف عین

لائبریرین
جز ترے کوئی مہر وفا تو نہیں
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی
مہر وفا تو بے معنی لگتا ہے، شعر دو لخت بھی ہے

جوش زن دل میں ہے آتش عشق جو
اس پر مشورہ قبول نہیں کیا گیا؟

شمع عشق و جنوں؟ کے واحد کو تو جمع کا صیغہ بنایا جا سکتا ہے 'مشعلیں عشق کی'. کر کے، لیکن دوسرے مصرعے سے ربط کیا ہوا؟ وہ شمعیں یا مشعلیں کس نے روشن کیں؟ کچھ واضح نہیں ۔ شعر ہی بدل دو
 

فاخر

محفلین
دوبارہ زحمت

غزل


افتخاررحمانی فاخرؔ

اپنے غیظ و غضب کو بھلاتے کبھی
ایسے آتے کہ پھر تم نہ جاتے کبھی!

تم تو ایفائے پیماں کے ہو مدعی
وعدۂ وصل کو تم نبھاتے کبھی!

جس رخ ِ ماہ رو کا میں دیوانہ ہوں
وہ رخِ ماہ رو تم دکھاتے کبھی

آئے جس سے سکوں قلب ِ مغموم کو
وہ نوید ِ مسرت سناتے کبھی

آتش شوق جو دل میں برپا کئے
اس کو اپنے کرم سے بجھاتے کبھی

تشنگی بے خودی محو ہو تیں اگر!
اپنے ہاتھوں سے تم مے پلاتے کبھی

صد چراغاں کیا ہے ترے نام سے
اک دیا پیار کا تم جلاتے کبھی

تم مری شاعری کے خدوخال ہو
کاش یہ راز تم جان جاتے کبھی !!!
 
Top