بغرض اصلاح : ’الفاظ ہو تم میرے ، گفتار و بیاں تم ہو‘

فاخر

محفلین
غزل

افتخاررحمانی فاخر ؔ

الفاظ ہو تم میرے ، گفتار و بیاں تم ہو!
ہرسانس میں پنہاں ہو ، پیوستِ نہاں تم ہو

میں بندۂ ناکار بے نا م و نشاں بالکل
تجسیم ِ خدائی ہو، عظمت کا نشاں تم ہو

ہم اپنی جبیں رکھ دیں، قدموں میں ترے دلبر
تصویر ’اجنتا‘ ہو، اعزازِ بتاں تم ہو

اک تیرے تبسم سے گلشن میں بہار آئے
نغموں میں ترنم ہو اور رشک جناں تم ہو

اس گردشِ دوراں میں ، اپنا تو نہیں کوئی
ہررنج کے عالم میں اک جائے اماں تم ہو!
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الفاظ ہو تم میرے ، گفتار و بیاں تم ہو!
ہرسانس میں پنہاں ہو ، پیوستِ نہاں تم ہو
... پنہاں نہاں تو ایک ہی بات ہوئی، پیوست اضافت کے ساتھ یہ ڈفائن کرتا ہے کہ کہاں؟ جیسے پیوستِ جگر یعنی جگر میں پیوست، آر پار۔ پیوستِ نہاں تو بے معنی ترکیب ہے۔ کچھ اور لفظ استعمال کرو یہاں، جیسے سہنے میں نہاں....

میں بندۂ ناکار بے نا م و نشاں بالکل
تجسیم ِ خدائی ہو، عظمت کا نشاں تم ہو
.. دونوں مصرعوں میں ربط؟ پہلے مصرع میں بھی ناکارہ ہونا تھا، شاید ٹائپو ہے۔ ربط کے لیے دوسرا مصرع تم سے شروع ہونا تھا، تب ہی ربط ممکن ہوتا ہے۔

ہم اپنی جبیں رکھ دیں، قدموں میں ترے دلبر
تصویر ’اجنتا‘ ہو، اعزازِ بتاں تم ہو
... شتر گربہ، دلبر بھی بھرتی کا ہے۔ دوسرے مصرعے سے ربط کے لئے بھی کوئی مزید لفظ کی ضرورت ہے جس سے 'کیونکہ' کا مفہوم نکلے۔

اک تیرے تبسم سے گلشن میں بہار آئے
نغموں میں ترنم ہو اور رشک جناں تم ہو
.. یہ بھی شتر گربہ، مگر کیوں بہار آئے؟ اس کی توجیہہ ضروری ہے، ترنم اور رشک جناں بھی بالکل مختلف باتیں ہیں، بہار آنے سے تعلق نہیں رکھتیں

اس گردشِ دوراں میں ، اپنا تو نہیں کوئی
ہررنج کے عالم میں اک جائے اماں تم ہو!
... اپنا تو... سے بیانیہ مختلف ہو جاتا ہے 'کوئی بھی نہیں اپنا' بہتر ہو گا۔ 'ہر رنج' کی تکرار بری لگتی ہے ۔ یوں بھی 'جائے اماں' کی تلاش آندھی طوفان میں ہوتی ہے، رنج و غم میں نہیں، یعنی ایسی جگہ جہاں آپ کو رنج سے نجات مل سکے، ممکن ہی نہیں
 

فاخر

محفلین
الفاظ ہو تم میرے ، گفتار و بیاں تم ہو!
ہرسانس میں پنہاں ہو ، پیوستِ نہاں تم ہو
... پنہاں نہاں تو ایک ہی بات ہوئی، پیوست اضافت کے ساتھ یہ ڈفائن کرتا ہے کہ کہاں؟ جیسے پیوستِ جگر یعنی جگر میں پیوست، آر پار۔ پیوستِ نہاں تو بے معنی ترکیب ہے۔ کچھ اور لفظ استعمال کرو یہاں، جیسے سہنے میں نہاں....

میں بندۂ ناکار بے نا م و نشاں بالکل
تجسیم ِ خدائی ہو، عظمت کا نشاں تم ہو
.. دونوں مصرعوں میں ربط؟ پہلے مصرع میں بھی ناکارہ ہونا تھا، شاید ٹائپو ہے۔ ربط کے لیے دوسرا مصرع تم سے شروع ہونا تھا، تب ہی ربط ممکن ہوتا ہے۔

ہم اپنی جبیں رکھ دیں، قدموں میں ترے دلبر
تصویر ’اجنتا‘ ہو، اعزازِ بتاں تم ہو
... شتر گربہ، دلبر بھی بھرتی کا ہے۔ دوسرے مصرعے سے ربط کے لئے بھی کوئی مزید لفظ کی ضرورت ہے جس سے 'کیونکہ' کا مفہوم نکلے۔

اک تیرے تبسم سے گلشن میں بہار آئے
نغموں میں ترنم ہو اور رشک جناں تم ہو
.. یہ بھی شتر گربہ، مگر کیوں بہار آئے؟ اس کی توجیہہ ضروری ہے، ترنم اور رشک جناں بھی بالکل مختلف باتیں ہیں، بہار آنے سے تعلق نہیں رکھتیں

اس گردشِ دوراں میں ، اپنا تو نہیں کوئی
ہررنج کے عالم میں اک جائے اماں تم ہو!
... اپنا تو... سے بیانیہ مختلف ہو جاتا ہے 'کوئی بھی نہیں اپنا' بہتر ہو گا۔ 'ہر رنج' کی تکرار بری لگتی ہے ۔ یوں بھی 'جائے اماں' کی تلاش آندھی طوفان میں ہوتی ہے، رنج و غم میں نہیں، یعنی ایسی جگہ جہاں آپ کو رنج سے نجات مل سکے، ممکن ہی نہیں
:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
جی آپ نے درست فرمایا ۔
در اصل دہلی فساد کا دل و دماغ پر بہت ہی برُا اور گہرا اثر پڑا ہے، اللہ حفاظت فرمائے ۔ آمین
جب یہ غزل لکھ رہا تھا تو اس وقت بھی ذہن منتشر ہی تھا، اس لیے میں نے مقطع درج نہیں کیا تھا، اب اِس غزل پر دل و دماغ کی فراغت کے ساتھ توجہ صرف کروں گا۔ ان شاءاللہ الرحمٰن ۔
 

فاخر

محفلین
نظرثانی کے بعد ایک بار پھر آپ کی خدمت میں پیش ہے،اس غزل میں میں نے ردیف بدل دیا ہے،اصلاح کی گزارش کی ۔
الف عین صاحب !
غزل

تخئیل ہے تو میری، اندازِ بیاں تو ہے
ترکیب ہو غزلوں کی، تلمیحِ زباں تو ہے

چرچا ہے ترا ہر سو ُ ، مشہور ِ زماں تو ہے
خلقت ہے تری شیدا ، عظمت کا نشاں تو ہے

خالق نے تجھے ایسے تخلیق کیا گویا
تصویرِ ’اجنتا‘ ہو ، اعزازِ بتاں تو ہے

ہر آن یہی ہم نے محسوس کیا واللہ
سانسوں میں بسا ہے توُ، دھڑکن میں نہاں تو ہے

اِس ہجر کی شدت میں ، کچھ ہوش نہیں ،تاہم
فاخرؔ بھی وہیں ہے اے ، محبوب! جہاں تو ہے
 

الف عین

لائبریرین
ردیف کی جگہ قافیہ تبدیل کر دیتے تو بہتر تھا!
تخئیل ہے تو میری، اندازِ بیاں تو ہے
ترکیب ہو غزلوں کی، تلمیحِ زباں تو ہے
... ترکیب ہو؟ خیر 'ہے' کرنے سے شتر گربہ تو دور ہو سکتا ہے، لیکن غزلوں کی ترکیب اور زبان کی تلمیح دونوں بے معنی ہیں۔ اگر ترکیب سے مراد شعری اصطلاح ہے، تب بھی وہ شعر یا مصرع کی ترکیب ہو سکتی ہے۔ غزل کی ترکیب سے تو یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ غزل کس طرح کہی جائے! اسی طرح تلمیح بذات خود ایک انداز بیان ہے
چرچا ہے ترا ہر سو ُ ، مشہور ِ زماں تو ہے
خلقت ہے تری شیدا ، عظمت کا نشاں تو ہے
... عظمت کا نشاں کیوں؟ اگر حسن ہی وجہِ شہرت ہے تو اس میں عظمت کا کیا پہلو ہے؟

خالق نے تجھے ایسے تخلیق کیا گویا
تصویرِ ’اجنتا‘ ہو ، اعزازِ بتاں تو ہے
... پھر 'ہو' ہو گیا۔ اعزاز بتاں سمجھ میں نہیں آتا

ہر آن یہی ہم نے محسوس کیا واللہ
سانسوں میں بسا ہے توُ، دھڑکن میں نہاں تو ہے
... واللہ بھرتی کا لگتا ہے، پھر یہاں ہم کی بجائے 'میں' استعمال کریں تو تاثر میں اضافہ ہوتا ہے
ہر آن یہی میں نے محسوس کیا، جیسے
یا
ہر آن یہی مجھ کو مھسوس ہوا، جیسے

اِس ہجر کی شدت میں ، کچھ ہوش نہیں ،تاہم
فاخرؔ بھی وہیں ہے اے ، محبوب! جہاں تو ہے
.... اے محبوب دو الگ الگ ٹکڑوں میں بنٹا درست نہیں لگتا۔ تا ہم بھی بھرتی ہے۔ اس کی جگہ تخلص استعمال کرو
ہجر کی شدت سے دونوں ایک جگہ جمع ہو گئے، یہ تو سمجھ میں نہیں آیا
 
Top