بس اسٹاپ پر ۔۔۔۔ایک افسانہ برائے تنقید ،تبصرہ و اصلاح

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت عمدہ محترمی! بہت ہی عمدہ۔ یہ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ غریبوں پر ظلم کی ایک داستان ہے اور اس ظلم میں ہم سب شامل ہے۔ ہماری اس ظلم کی طرف نشان دہی کرنے کا ڈھیروں شکریہ۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
تو خالی جگہوں کو پر کیجئے نا بھائی جان۔

خالی جگہیں اتنی تکنیکی ہیں کہ مصنف کے سوا کوئی (کم از کم مجھ سا کم فہم) انہیں پر نہیں کرسکتا۔ ذرا غور سے دوبارہ لکھیے بہت بہتری آئے گی۔ اور ایک ترکیب یہ بھی ہے کہ کچھ لکھنے کے بعد پورا نسخہ قلم زد کر کے دوبارہ لکھا کریں فی البدیہ۔ بہت بہتری آجاتی ہے اس طرح۔ باقی ہم کہاں کہ تنقید نگار ہوئے ہیں کہ باتیں بناتے پھریں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کب سے انتظار کر رہا تھا جواب کا بس اتنا ہی سا اور آپ کو میں ٹیگ کیا تھا اگر نہیں ہوا تو معذررت خواہ ہوں مجھے لگا شاید میں نے ٹیگ کیا تھا ۔
بہت معذرت کہ اچانک چلا گیا۔
ہم تو صرف تعریف ہی کر سکتے ہیں، تنقید کا کام تنقید نگار جانیں۔
ابتداء میں ہی کافی اچھا لکھ رہے ہیں تو آگے جا کے تو کمال کریں گے۔
 
بہت اچھی کاوش،

بس مجھے صرف یہ پوچھنا تھا کہ رکشا اور آٹو دونوں الگ الگ ہوتے ہیں، معاف کیجیے گا میری کم علمی پہ۔ پھر یہ کہ آپ کا کردار بھی تو شدت سے رکشہ کی تلاش میں تھا رکشہ نظر آنے پہ وہ بھاگ کر بیٹھا کیوں نہ اور دیکھتا کیوں رہا،
 

S. H. Naqvi

محفلین
امجد صاحب سے اتفاق کروں گا، افسانہ اچھا ہے مگر کچھ جھول ہیں۔ ایک طرف تو شدت سے رکشے کی تلاش ہے اور دوسری طرف کان دوسرے مسافروں کے تبصروں سے بھی بے زار اور نظریں بھی اخبار بینی کو نظر انداز کر کے بڑے انہماک سے کونے میں کھڑے رکشے پر مرکوز ہیں، کچھ جچا نہیں۔۔۔۔ شاید سوچے گئے سبق آموز نقطے کو بیان کرنے کی کچھ زیادہ جلدی تھی مصنف کو۔۔۔۔۔۔۔۔! منظر نگاری اچھی تھی مگر کردار نگاری میں کچھ کمی محسوس ہوئی، سٹوڈنٹ ایک رکشے والے سے ایسا سلوک کیوں کریں گے خاص کر جب وہ انفرادی طور پر موجود ہیں، اور ایک طرف تولڑکیوں کی خود غرضی کہ بات طے کر کے بھی رکشہ پر سوار نہ ہوئیں اور دوسری طرف رحم دلی کہ بنا برتے رقم حوالے کر دی۔۔۔۔۔ بڑی بات کہ راوی خود کیوں نہ ایسے رکشے پر سوار ہوا۔۔۔۔۔۔۔! بس گزر گئی آرام سے مگرپولیس والے کو گالی دے کر گزرنا پڑا۔۔۔۔۔ کچھ زبردستی ہو گئی پولیس والے کے کردار سے۔۔۔۔۔۔ پاکستانی پولیس کی خوفناکی اپنی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ پھر قاری کے ذہن میں تجسس ڈالا گیا کہ بوڑھے کی مجبوری معلوم ہو مگر بات پلٹ گئی پارٹی کی پالیسی اور گورنمنٹ کے بیڈ گورنس اور محکموں کی نااہلی پر۔۔۔۔۔!
بحرحال خوب کاوش تھی جاری رکھیئے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔!:)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھا لکھا @محمد علم اللہ اصلاحی ۔ مقام اور کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن حالات و واقعات وہی رہتے ہیں۔
اچھا اچھا لکھتے رہیں اور قلمی جہاد کرتے رہیں۔ (y)
 
بہت اچھی کاوش،

بس مجھے صرف یہ پوچھنا تھا کہ رکشا اور آٹو دونوں الگ الگ ہوتے ہیں، معاف کیجیے گا میری کم علمی پہ۔ پھر یہ کہ آپ کا کردار بھی تو شدت سے رکشہ کی تلاش میں تھا رکشہ نظر آنے پہ وہ بھاگ کر بیٹھا کیوں نہ اور دیکھتا کیوں رہا،


رکشہ کی تلاش تو بس اسٹاپ تک جانے کے لئے تھی نا اور آٹو جہاں تک جانا تھا اس کے لئے جی رکشہ انسان کھینچتا ہے جبکہ آٹو ایندھن سے :)
 
Top