عبدالحسیب

محفلین
فلسفہ کے میدان میں مابعدالطبیعاتی صداقت تک پہنچنے کے لیے برگساں نے عام فلسفیانہ نظریات سے ہٹ کر اپنے لیے ایک علٰحدہ راہ اختیار کی ہے۔ اس نے اپنے مخصوص انوکھے نظریات پیش کرکے اپنے لیے اعتراضات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اکثرو بیشتر فلسفیوں نے اپنے مسائل کے لیے عقل کو رہنما بنایا ہے اور عقل ہی نے انکی فکر کے پس منظر میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن برگساں نے عقل کی رہنمائی سے انحراف کیا ہے اور اپنے فلسفہ کو نظریہ وجدان کی بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔ وجدان کو اس کے فلسفہ میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اپنے نظریات کے ثبوت میں اس نے کچھ ایسے انوکھے ، دقیق اور ٹھوس دلائل سے کام لیا ہے۔ جس کی وجہ سے اسکا فلسفہ بڑا پیچیدہ اور فہم عامہ سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے فلسفہ کا مرکزی اُصول حیاتیات میں تغّیر اور تبّدل پر محیط ہے۔ اس کا فلسفہ طبعیات کے اساسی تصورات مثلاّ زماں ومکاں، مادہ و حرکت اور قوت و توانائی کے صحیح ادراکات کے حصول پر مبنی ہے۔ اور انکے حقیقی ادراک کے لیے اس نے وجدان کا سہارا لیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نے کیوں عقل سے انحراف کر کے وجدان کو اہمیت دی ہے۔ اس کے لیے وہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ عقل ایک مخصوص آلہ اور ماہرِ تحلیل ہے جسے ہم نے اپنے افعال کے مقاصد کے لیے وضع کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں وجدان ہمہ گیر اور وحدت پسند ہے۔ جس کی توسط سے ہم مابعدالطبعیاتی صداقت تک پہنچتے ہیں۔ جہاں عقل اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے ،یہ کسی قضیہ کے متعلق احساسِ تعین کا نام نہیں ہے ۔ وہ موجودات میں کسی شئے کا ادراک ہے۔ وہ حواس کی ایک نوع ہے جو حواس کے دائرہ عمل سے باہر حامل ہوتی ہے۔چنانچہ زماں جس کا ہمارے حواس ادراک نہیں کر سکتے اس کا ہمارا وجدان ہی ادراک کر سکتا ہے۔ یہ صنف ایسی قوت کے فیصلے پر مشتمل ہوتی ہے جس کے ذریعے ہم مابعدالطبعیاتی صداقت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔اپنے نظریہ وجدان کو اس نے اپنے ایک مقالہ " مقدمہ مابعد الطبعیات' میں بڑے دلکش اور خوبصورت اندازِ بیان میں بڑی فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا ہے۔حیاتیات اور نفسیات اس کی فکر کے خاص اور اہم موضوعات ہیں۔ اور ان موضوعات پر اس نے اپنی تین کتابوں میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔اس کی سب سے پہلی تصنیف "زماںو اختیار" ہے۔ دوسری "ذہن اور مادہ" اور تیسری کتاب "تخلیقی ارتقاء" ہے۔ ہرقلیطوس کے اس قول کو کہ 'ہر شئے مسلسل تغیر پذیر ہے' برگساں نے اپنے فلسفہ کا مرکزی اصول بنایا ہے اور اس نظریہ ارتقاء پر وہ بالکل جداگانہ ڈھنگ سے نظر ڈالتا ہے۔ اس کے خیال میں حیاتیاتی مظاہرہ کی میکانکی اصولوں پر توجہ ممکن ہی نہیں ہے ۔وہ کہتا ہے جن عوامل کے متعلق یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ماحول سے مطابقت کی اتفاقی بقاء کا یقین کرتے ہیں وہ ان اشیاء کی توجیہہ میں قطعی کامیاب ثابت نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو اب سے ہزاروں سال بیشتر ہی ارتقاء کا عمل رک گیا ہوتا۔ اور حیات کے ارتقاء کو وہیں رک جانا چاہئے تھا جہاں کہیں بھی اسے رک جانا ممکن تھا۔ وہ روبہ ارتقاء کیوں ہےِ؟ ایک حقیر عضو یہ بھی با لکل ہماری طرح ان حالات سے مطابقت رکھتا ہے جن پر اس کی حیات کا دارومدار ہے۔جس کا اندازہ اس نے اپنی زندگی کو قائم رکھنے میں کامیابی سے لگایا ہے۔ تو پھر وہ زندگی جو اپنے حالات کے موافق ڈھالنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہو پیچیدہ تر کیوں بنتی جارہی ہے؟ دراصل یہ جوش حیات کا ایک طبعی اصول ہے جو زندگی میں جاری و ساری ہے۔ جو زندگی کو آگے بڑھاتا ہے۔یہ جوشِ حیات ہی وہ قوت ہے جو ارتقاء کو کامیابی سے آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس نے جوشِ حیات کو اُس قوت سے تعبیر کیا ہے جو حیاتِ عالم کی اس مرکزی نبض کے دریافت کرنے میں شامل ہے جو اشیاء کی باہمی ربط اور اتحاد میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہ وجدان کا سب سے نادر اور انتہائی کمال ہے ورنہ اس کے بغیر یہ بتلانا نا ممکن ہے کہ ارتقاء کا عمل کیوں اور کیسے واقع ہوتا ہے۔ ارتقائی تطابق نشونما کے پیچ و خم کی توجیہہ تو کرتا ہے لیکن اس حرکت کی وہ وضاحت نہیں کرسکتا ۔ حیات ہمیں واقعات کا ایک تسلسل بہم پہنچاتی ہے۔ جس کی توجیہہ کا تمام تر انحصار اس بات کے تسلیم کر لینے میں ہے کہ کائنات کسی ایسی حیاتی قوت کی تخلیق اور ظہور ہے جس کا کام مسلسل تغیر اور ارتقاء ہے۔وہ ڈارون کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ جو اتفاقی تبدیلیاں انواعِ حیات میں ہنگامی طور پر واقع ہوتی رہتی ہیں اور ان میں جو تبدیلیاں انواع کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہے ان کا میلان صرف اپنے وجود کو قائم رکھنے میں اور بار بار اپنی تخلیق کرتے رہنے میں ہوتا ہے۔یہ عمل محض ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ اس میں کسی اضطراری فعل یا تحریک کی کارفرمائی کا سراغ لگانا نا ممکن ہے۔لیمارک اس مسئلہ پر اپنا نظریہ اس طرح پیش کرتا ہے کہ ارتقاع کا عمل ایک فیصلہ کن عمل ہے۔جب ماحول تبدیل ہوتا ہے تو انواع حیات بھی اپنے آپ کو اس کے موافق بنانے کے لیے روبہ ارتقاءہوتی ہے۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

مضمون: "جادہ حرف" از ابراہیم اختر​
 

عبدالحسیب

محفلین
الوقت سیف قاطع"۔۔۔
امام الشافعی کے اس قول پہ برگساں کا ری ایکشن کوئی بیان کرے ۔:)

برگساں کے مطابق 'وقت'کے دو مفہوم ہیں۔ ایک نہایت ہی عام مفہوم جو ایک دیوار پر نسب تینوں کانٹوں والا آلہ بھی بتا سکتا ہے۔ اور دوسرا مفہوم جو وقت کا اصل ہے وہ یہ کہ وقت محض ایک ریاضی کی اکائی نہیں ہے ،وقت ایک لازوال تسلسل ہے جس میں ہر شئے موجود ہے اور محو حرکت ہے۔کائنات کی کسی بھی شئے کا وقوع صرف اور صرف 'وقت' ہی کی نسبت سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
اسی موضوع پر اقبال کی رائے بھی دیکھ لیجئے :)

چشم بکشا ہر زماں و ہر مکاں
این دو احوال است از احوال جاں
 

نایاب

لائبریرین
الوقت سیف قاطع"۔۔۔
امام الشافعی کے اس قول پہ برگساں کا ری ایکشن کوئی بیان کرے ۔:)

محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ اس سوال کا شافی جواب تو آپ کے پاس ہوگا ۔
کچھ " وجدان " کو حرکت میں لاتے جواب کی کوشش کی ہے ۔اور نیت صرف علم حاصل کرنے کی ہے ۔
سو محروم نہ کیجیئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل جواب سے نواز کر ۔۔۔۔۔

"الوقت سیف قاطع فان لم یقطع فیقطعک“
وقت دو دھاری تلوار ہے اگر آپ اس کو نہیں کاٹیں گے تو وہ آپ کو ضرور کاٹے گا۔
جب ہم اپنی دانست میں کسی عمل میں مشغول وقت کو گزار رہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت اس وقت " وقت " ہمیں گزار رہا ہوتا ہے ۔ اور ہم وقت کے ہاتھوں تغیر کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں ۔
اور شاید یہی حقیقت " ہرقلیطوس " کے قول " 'ہر شئے مسلسل تغیر پذیر ہے' " برگساں " کے فلسفے کا بنیادی اصول قرار پاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ برگساں کے نزدیک " عقل " تغیر سے نبردآزما ہوتے ضعف کا شکار ہو سکتی ہے ۔ جبکہ " وجدان " اس کیفیت سے محفوظ رہتا ہے ۔۔۔۔۔
 

عبدالحسیب

محفلین
الوقت سیف قاطع"۔۔۔
امام الشافعی کے اس قول پہ برگساں کا ری ایکشن کوئی بیان کرے ۔:)

آپ ہی ہمت کیجیے۔ ہم منتظر ہیں۔

احقر نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔ اساتذہ اصلاح کرا دیں تو کچھ سیکھنے مل جائے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
محترم بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اس سوال کا شافی جواب تو آپ کے پاس ہوگا ۔
کچھ " وجدان " کو حرکت میں لاتے جواب کی کوشش کی ہے ۔اور نیت صرف علم حاصل کرنے کی ہے ۔
سو محروم نہ کیجیئے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اصل جواب سے نواز کر ۔۔۔ ۔۔

"الوقت سیف قاطع فان لم یقطع فیقطعک“
وقت دو دھاری تلوار ہے اگر آپ اس کو نہیں کاٹیں گے تو وہ آپ کو ضرور کاٹے گا۔
جب ہم اپنی دانست میں کسی عمل میں مشغول وقت کو گزار رہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت اس وقت " وقت " ہمیں گزار رہا ہوتا ہے ۔ اور ہم وقت کے ہاتھوں تغیر کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں ۔
اور شاید یہی حقیقت " ہرقلیطوس " کے قول " 'ہر شئے مسلسل تغیر پذیر ہے' " برگساں " کے فلسفے کا بنیادی اصول قرار پاتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ برگساں کے نزدیک " عقل " تغیر سے نبردآزما ہوتے ضعف کا شکار ہو سکتی ہے ۔ جبکہ " وجدان " اس کیفیت سے محفوظ رہتا ہے ۔۔۔ ۔۔

بہت شکریہ نایاب بھائی۔آپ نے مکمل فلسفہ برگساں ایک جملہ میں بیاں کردیا۔ وہ بھی بہت ہی آسان زبان میں ۔بہت شکریہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
برگساں کے مطابق 'وقت'کے دو مفہوم ہیں۔ ایک نہایت ہی عام مفہوم جو ایک دیوار پر نسب تینوں کانٹوں والا آلہ بھی بتا سکتا ہے۔ اور دوسرا مفہوم جو وقت کا اصل ہے وہ یہ کہ وقت محض ایک ریاضی کی اکائی نہیں ہے ،وقت ایک لازوال تسلسل ہے جس میں ہر شئے موجود ہے اور محو حرکت ہے۔کائنات کی کسی بھی شئے کا وقوع صرف اور صرف 'وقت' ہی کی نسبت سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
اسی موضوع پر اقبال کی رائے بھی دیکھ لیجئے :)

چشم بکشا ہر زماں و ہر مکاں
این دو احوال است از احوال جاں
اقبال کی رائے ذرا اور وسیع تر پیرائے میں ۔
زندگی از دہر و دہر از زندگی ست
’’ لا تسبو الدہر ‘‘ فرمان نبی است
اقبال
( قال الله عز وجل : یوؤ ذيني ابن آدم یسب الدهر ، وأنا الدهر بيدي الأمر ، أقلب الليل والنهار ) رواه البخاري ومسلم ،
جب ابن آدم زمانے کو برا کہتا ہے تومجھے تکلیف دیتا ہے ۔میں زمانہ ہوں میں دن رات کو پلٹتا ہوں۔
 

عبدالحسیب

محفلین
برگساں ایک مفکر: حصّہ دوم

نظریہء نفسی عوامل اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو بھی تبدیلیاں جسم میں واقع ہوتی ہیں ویسی ہی تبدیلیاں شعور میں بھی وقوع پزیر ہوتی ہیں۔اگر ہم علت کا کوئی رشتہ نہ بھی قائم کریں تو یہ امر مسلّم ہے کہ نفسیاتی مظاہر عضویاتی تبدیلی کا عکس ہوتے ہیں۔ اور یہی تبدیلی انہیں ممکن بناتی ہے۔اس نظریہ کے مطابق ذہن ان عصبی تلارخات کا مجموعہ ہے جن پر دماغ مشتمل ہے یا اس انتہائی لطیف مادہ کا نام ہے جو دماغ کا چاروں طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔کوئی بھی ذہنی واقعہ کسی ایسے واقعہ کا نتیجہ ہوتا ہے جو اس سے پہلے دماغ میں واقع ہو چکا ہوتا ہے اور ذہنی واقعہ کو مادی واقعہ ہمیشہ متعین کرتا ہے۔ یہ نظریہ بھی نظریہء علت و معلول سے قریب تر یا اس سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ اس نظریہ کے تحت نظامِ فطرت ،علت ومعلول کے بندھے ٹِکے قانون میں جکڑا ہوا ہے۔یعنی کوئی بھی واقعہ نتیجہ یا سبب ہوتا ہے اپنے پہلے واقعہ کا۔ لیکن میرے خیال سے یہ ایک صحت مند تاویل نہیں ہے۔ نتیجہ اپنے سابقہ عمل کا سبب یا انجام نہیں ہوسکتا یہ تعبیر عمل کا واقع نہیں ہوسکتا ۔مثلاً میں اپنے جسم کے کسی حصّہ پر زخم پیدا کروں تو کیا وہ زخم جسے میرے عمل نے پیدا کیا ہے نتیجہ ہوگا میرے عمل یا ارادے کا؟نتیجہ تو میرا عمل ہے جس نے زخم پیدا کیا ہے۔اگر میں زخم پیدا کرنے کا عمل نا کرتا تو کیا زخم خودبا خود میرے جسم پر پیدا ہوسکتا تھا؟ ہرگز نہیں! بغیر عمل کے ہم نتیجہ کا تصور کر ہی نہیں سکتے کیونکہ نتیجہ اپنے عمل کا محتاج نہیں ہوتا۔دراصل میرا عمل ہی نتیجہ ہوگا میرے عمل کا ۔برگساں نظریہء نفسی مظاہر کے فکری ماخذ سے یہاں بھی اختلاف کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ تصّور اس نئے سلسلہ وقوعات سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔دماغ کے اہم اہم حصّوں کو منقطع یا علٰحدہ کرنے اور خود اُن حصّوں کو کاٹ ڈالنے کا نتیجہ جو ذہنی افعال کی علت کا لازمی جُزو تصّور کئے جاتے ہیں،کسی بھی قسم کا نفسیاتی خلل نہیں ہوتا۔غیر معمولی نفسیات کے مظاہرے کسی ایسی عضویاتی تبدیلی کے محتاج نہیں ہوتے جو اُن سے مشابہت ،قربت یا مماثلت رکھتی ہو۔ہم تحت اشعوری فعل کی توجیہہ ء متوازیت کی مفروضہ اساس پر نہیں کر سکتے۔وہ ہم سے شعور کی ماہئیت کا غائر مطالعہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔پہلی نظر میں شعور اُن نفسیاتی حالتوں کا ایک سلسلہ معلوم ہوتا ہے جن میں سے ہر حالت اپنی جگہ واحد اور غیر محتاج ذات ہے۔جب ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ایک کیفیت تبدیل ہوکر اپنی جگہ دوسری حالت کو دے دیتی ہے۔تو ہم یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ اُس وقت بھی تبدیل ہوتی ہے جبکہ یہ اپنی ذات کو ایک ہی جگہ قائم رکھتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ شئے وہی شئے رہے اور ہوسکتا ہے کہ میں اسے ایک ہی زاویہ سے ایک ہی روشنی سے دیکھوں۔تاہم اس کا وہ نظارہ جو میں اِس وقت کر رہا ہوں اُس نظارہ سے مختلف ہے جو میں نے ابھی ابھی کیا ہے۔حالانکہ یہ پہلا نظارہ دوسرے سے صرف ایک لمحہ پرانہ ہے۔یہاں میرا حافظہ برابر کام کررہا ہے جو ماضی کے کچھ حصّے کو حال میں لے آتا ہے۔میری ذہنی حالت جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے اس مدت کے ساتھ پھیلتی اور ابھرتی جاتی ہے جن کا وہ ذخیرہ جمع کرتی جاتی ہے۔خارجی اشیاء کے متعلق ہمارے ادراک کی یہ معاملہ بندی ہے تو اسے ہمارے داخلی حالتوں کے متعلق اور بھی زیادہ صحیح ہونا چاہئیے۔ہم بغیر رُکے بدلتے رہتے ہیں۔کوئی احساس،کوئی تصّور،کوئی خیال،کوئی ارادہ ایسا نہیں ہوتا جو ہر لمحہ تبدیل نہیں ہوتا ہو۔ اگر کوئی ذہنی کیفیت بدلنا بند ہوجائے تو اس کی مدت کا بہاؤ بھی بند ہوجاتا ہے۔اِس دلیل کے ساتھ وہ اِس نتیجے پر پہنچتا ہےکہ ہم بجائے خود وہ وجود ہیں جو تغیر سے گزرنے پر نہیں بلکہ تغیر کے وسیلے سے قائم ہے۔ہماری حیات خود تغیر کا دوسرا نام ہے۔اس کا ہم واقعتاً تجربہ کرتے ہیں ۔اور اسکے اندرونی کیفیت پر یقین رکھتے ہیں ۔اگر ہمارا وجود اسی متصاد حالتوں سے مرکب ہوتا جن کے اتحاد کا ذمہ دار ایک بے حس عنصر ہوتا تو ہمارے لیے مدت کا کہیں بھی نام ونشان نہیں ہوتا۔اور اسی نفسی کیفیت کو قیام حاصل نہ ہوتا جو اس وقت تک ایک ہی حالت میں رہتی ہے۔جب تک کہ آنے والی حالت اس کی جگہ نہ لے لے۔لیکن ہم ایک شئے میں جو امتیازی خط دیکھتے ہیں وہ دراصل حقیقت کے عالمِ تصّور میں نہیں ہے۔یہ تو وہ خاکے ہیں جو ہم نے مقاصد کے لیے حقیقت پر مسلط کردیے ہیں۔وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ حقیقت اپنے وسیع تر معنی میں حیات ہی کا دوسرا نام ہے۔برکلے اسی مسئلے پر اپنی اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ایک نفسی کیفیت یا واقعہ ہوتا ہے۔ہم موجودات کو فاصلے کے تدریجی پیمانے کے لحاظ سے دور ونزدیک دیکھتے ہیں اور جن کا ہم ادراک کرتے ہیں وہ ٹھوس ہوتے ہیں اور ان کا ٹھوس پن مکان کی شیرازہ بندی میں شامل ہوتا ہے۔

(جاری۔۔۔۔)
 

فرقان احمد

محفلین
زندگی کیا ہے؟ سیلاب ہی تو ہے، اک بہاؤ ہے جو آگے بڑھتا جا رہا ہے ۔۔۔
بقول اقبال

دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہء کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی

برگساں اور اقبال کے فلسفے کے مشترکہ نکات سامنے لائے جانے ضروری ہیں ۔۔۔
 

عبدالحسیب

محفلین
اقبال اور برگساں کی فرانس میں ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ اُس ملاقات میں کافی گفتگو 'وقت' کے فلسفہ پر بھی ہوئی تھی۔ کوئی قلندر اُس ملاقات کا حاصلِ گفتگو شریکِ محفل کر دے اور ڈھیر ساری دعائیں لے جائے :):)
 

فرقان احمد

محفلین
اقبال اور برگساں کی فرانس میں ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ اُس ملاقات میں کافی گفتگو 'وقت' کے فلسفہ پر بھی ہوئی تھی۔ کوئی قلندر اُس ملاقات کا حاصلِ گفتگو شریکِ محفل کر دے اور ڈھیر ساری دعائیں لے جائے :):)
اس ربط سے استفادہ کیجیے، ملاقات کا احوال تو معلوم نہیں لیکن یہ مضمون کسی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔
 

عبدالحسیب

محفلین
اقبال کی رائے ذرا اور وسیع تر پیرائے میں ۔
زندگی از دہر و دہر از زندگی ست
’’ لا تسبو الدہر ‘‘ فرمان نبی است
اقبال
( قال الله عز وجل : یوؤ ذيني ابن آدم یسب الدهر ، وأنا الدهر بيدي الأمر ، أقلب الليل والنهار ) رواه البخاري ومسلم ،
جب ابن آدم زمانے کو برا کہتا ہے تومجھے تکلیف دیتا ہے ۔میں زمانہ ہوں میں دن رات کو پلٹتا ہوں۔

یہ حدیث (اور شعر بھی غالباً) اقبال نے برگساں کو فرانس کی ملاقات میں سنائی تھی۔ برگساں حدیث کا مفہوم سن کر حیران رہ گیا تھا ۔
 

عبدالحسیب

محفلین
اس ربط سے استفادہ کیجیے، ملاقات کا احوال تو معلوم نہیں لیکن یہ مضمون کسی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔

یہ مضمون تو ہم پڑھ چکے پہلے ہی :p اس میں بس اشارہ موجود ہے ملاقات کا۔ ویسے کہیں سے پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی تصنیف "اقبال اور برگساں" مل جائے تو بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ مضمون تو ہم پڑھ چکے پہلے ہی :p اس میں بس اشارہ موجود ہے ملاقات کا۔ ویسے کہیں سے پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی تصنیف "اقبال اور برگساں" مل جائے تو بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
لیجیے ایک اور ربط ۔۔۔ امید ہے یہ مضمون آپ نے نہ پڑھا ہو گا ۔۔۔
 

عبدالحسیب

محفلین
لیجیے ایک اور ربط ۔۔۔ امید ہے یہ مضمون آپ نے نہ پڑھا ہو گا ۔۔۔

بہت شکریہ جناب۔ بہت ہی مفید مضمون ہے۔ خاص کر جو حوالہ فرمان فتحپوری صاحبہ کی تصنیف سے دیے گئے ہیں بہت کار آمد ہیں۔ اب یہ کتاب بھی تلاش کرنی ہوگی :)
 
Top