1101621002-1.jpg
وہ یہودی تھا اور اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ میری اس سے پیرس میں ملاقات ہوئی‘ پیرس میں دنیا کا بہت بڑا اسلامک سینٹرہے اوریہ سینٹر علم کا خزانہ ہے‘ فرانسیسی ماضی میں بے شماراسلامی ممالک کے حکمران رہے‘ یہ ان ممالک سے قلمی نسخے‘ قدیم کتابیں اور قدیم مکتوبات جمع کرتے رہے‘ پیرس لاتے رہے اور پیرس میں اسلامک سینٹر بنا کر یہ خزانہ اس میں رکھ دیا۔
یہ عمارت دریائے سین کے کنارے واقع ہے‘ عمارت وسیع بھی ہے‘ خوبصورت بھی‘ جدید بھی اور آٹھ دس منزلہ بھی۔ عمارت کی چھت پر چار شاندار کیفے اور ریستوران ہیں‘ آپ چھت پر بیٹھ کر کافی بھی پی سکتے ہیں‘ کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور پیرس شہر اور دریائے سین کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا زیادہ تروقت اسی سینٹر میں گزرتا تھا‘ وہ سینٹر کے قریب رہتے تھے ‘ ان کی مسجد بھی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی‘ میں جب بھی پیرس جاتا ہوں۔
اس سینٹر کا چکر ضرور لگاتا ہوں‘ میں اسلام پر قدیم اور جدید کتابیں دیکھتا ہوں‘ شام کو سینٹر کی چھت پر بیٹھ کر کافی پیتا ہوں‘ اسلامی دنیا کی عقل پر ماتم کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوا لفٹ سے نیچے آ جاتا ہوں ’’اسلامی ممالک میں ایسا سینٹر کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے علم کا یہ خزانہ کیوں جمع نہیں کیا اور ان لوگوں نے عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی کتابیں کیوں جمع کر رکھی ہیں۔
وہ یہودی ربی مجھے اس سینٹر کی چھت پر ملا ‘ وہ اپنی نشست سے اٹھا‘ مجھے السلام علیکم کہا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی‘ میں نے اس سے معذرت کی اور عرض کیا ’’میں عربی نہیں جانتا‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ میںنے جواب دیا ’’الحمداللہ‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا ’’پھر آپ کو عربی کیوں نہیں آتی‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں پاکستانی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بچوں کو عربی کے بجائے انگریزی پڑھائی جاتی ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔ وہ مجھے مصری مسلمان سمجھ کر میرے پاس آیا تھا‘ یورپ اور امریکا کے عیسائی اور یہودی مصریوں کو بہت پسند کرتے ہیں‘ اس کی شاید دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ‘ مصری لوگوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ برداشت ہوتی ہے‘ یہ لوگ ہر قسم کی بات سہہ جاتے ہیں جب کہ ہم جلد بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری وجہ‘ یہودیت اور عیسائیت دونوں نے اس خطے سے جنم لیا ‘ ماضی میں شام‘ لبنان‘ فلسطین اور اردن مصر کا حصہ ہوتے تھے چنانچہ یہودیت ہو یا عیسائیت ان کی بنیاد مصری علاقوں میں پڑی لہٰذا یہ لوگ مصریوں سے ڈائیلاگ میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
مصری لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے بھی ہیں‘ یہ دین‘ سائنس اور ادب تینوں شعبوںمیں مسلم ممالک سے آگے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے دانشور انھیں پسند کرتے ہیں مگرمیں پاکستانی بھی نکلا اور مجھے عربی بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ میرے پاس آ چکا تھا چنانچہ اس نے واپس جانا خلاف تہذیب سمجھا اور وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو‘‘ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘ یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔
آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوںیا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘ اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘ میں جان گیا رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ہم سب مسلمان جتنے بھی گناہگار‘ لبرل‘ ماڈرن اور برداشت کے چیمپئن ہو جائیں‘ ہم نبی اکرمﷺ کی ذات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حضرت اویس قرنیؓ ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی یمن سے باہر نہیں نکلے‘ آپ کی والدہ علیل تھیں چنانچہ آپ والدہ کی خدمت کرتے رہے اور رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خدمت اور یہ عشق اس قدر بھایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو آپؐ کے دیدار کے بغیر صحابی ڈکلیئر کر دیا‘ آپ رسول اللہﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا جنگ احد میں رسول اللہﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔
آپ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفہ کو کوئی مشورہ دینا تھا‘ آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ کی سرحد پر بلوایا‘ خود مدینہ کی حد سے باہر کھڑے رہے اور حضرت عمرؓ کو مدینہ کی حدود میں کھڑا کر کے مخاطب ہوئے‘ حضرت عمرؓ نے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ’’عمر! میں اس زمین پر کیسے پائوں رکھ سکتا ہوں جس میں نبی اکرمﷺ آرام فرما رہے ہیں‘‘ ہم مسلمان حضرت ابودجانہؓ بھی ہیں‘ حضرت ابودجانہؓ احد کے میدان میں آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے‘ رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے تھے‘ حضرت ابودجانہؓ نے محسوس کیا میں اگر لڑوں گا تو میری پشت آپﷺ کی طرف ہو جائے گی اور یہ بے ادبی ہو گی چنانچہ آپؓ اپنا سینہ رسول اللہﷺ کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے اور آپؓ نے تمام تیر اپنی پشت پر سہے۔
ہم سب کے اندر بھی ایسا ہی جذبہ موجزن ہے‘ تیر لوہے کا ہو یا توہین کا ہم اسے اپنی پشت اور سینے دونوں پر سہتے ہیں لیکن توہین یا زیادتی کا کوئی تیر رسول اللہﷺ کی ذات کی طرف نہیں جانے دیتے۔ یورپ اور امریکا کو اگر یقین نہ آئے تو یہ پاکستان سے لے کر طرابلس تک پھیلی آگ دیکھ لے‘ یہ آگ ’’انوسینس آف مسلمز‘‘ نام کی اس فلم کے بعد بھڑکی جو ٹیری جونز جیسے بدبودار پادری کی تحریک پر سام باسیل جیسے یہودی ڈائریکٹر نے بنائی اور اس کے لیے سو متعصب یہودیوں نے 50لاکھ ڈالرز سرمایہ فراہم کیا۔
یہ فلم محض فلم نہیں بلکہ یہ توہین کا وہ گٹر ہے جس کا ڈھکنا متعصب یہودیوں اور عیسائیوں نے عالم اسلام کی برداشت دیکھنے کے لیے کھولا چنانچہ آج پوری دنیا میں امریکی اور یورپی سفارتکاروں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ لیبیا کے مسلمانوں نے اس بن غازی میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا جس پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے جب کہ لیبیا‘ مصر‘ تیونس‘ لبنان‘ اردن‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ نائیجریا‘ مراکش‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں امریکی سفارتکار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘ اہل مغرب کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور انھیں ٹیری جونز اور سام باسیل جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنی چاہیے۔
انھیں فیصلہ کرنا چاہیے یورپ اور امریکا کا کوئی شہری ہمارے رسولﷺ کی توہین نہیں کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جو لوگ رسول اللہﷺ کی محبت میں اپنے منہ کے سارے دانت توڑ سکتے ہیں وہ گستاخوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی توڑ دیں گے۔ آپ ہم سب کی برداشت کا امتحان لے لیں لیکن آپ ہمارے عشق کا امتحان نہ لیں کیونکہ ہم عشق رسولﷺ میں جان دینے والے لوگ ہیں‘ ہم گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب راستہ نہ ہوگا تو منزل کیسی۔ منزل ہے اللہ کے دین پر عمل اور راستہ بتلانے والی ذات پاک ہے حضرت محمد:pbuh:۔ رہبر کھو دیں گے تو راستے سے بھٹک جائیں گے۔ اور آپ:pbuh: نے خود فرمایا۔ کہ تم سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے جان مال اور اولاد سے بڑھ کر پیارا نہ ہوجاؤں۔ یہی محبت ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی کر اور ہمیں روز محشر محبوب کے سامنے رسوا نہ کرنا۔​
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر​
روز محشر عذر ہاے من پذیر​
ور حسابم را تو بینی ناگزیر​
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر​
اقبال​
اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں اک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت ملے تو دین کی طرف بھی توجہ کریں۔ ہماری اولیں ترجیحات میں تو علم دنیا ہے۔ دین کا علم تو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے بچا رکھا ہے۔​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے اگر میں بھی پیرس اس طرح آؤں جاؤں تو میں بھی وہاں چھت پر بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے اسلامی دنیا کی عقل کا ماتم کر سکتا ہوں۔ مجھے آزما کر تو دیکھے کوئی;)
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ بہت خوب حقیقت کا عکاس کالم لکھا محترم جاوید چوہدری صاحب نے ۔
مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔
آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوںیا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘

یہ حقیقت ہے اور فری میسن تحریک اک زمانے سے اس مشن پر کام کر رہی ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں ان کے ہتھ کنڈوں سے بچائے اور ہمیں " اسوہ رسول علیہ السلام " پر قائم رہنے میں مدد فرمائے آمین
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ۔۔۔ بہت عمدہ کالم اور بہت اچھی شیئرنگ حسیب نزیر بھائی۔۔۔
مولانا حالی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے کہ
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدہ میں ہمارے
وہ تیری محبت تیری عترت کی ولا ہے
صل اللہ علیک وسلم یا سیدی یا حبیبی یا مولائی یا رسول اللہ۔۔۔
 

مہ جبین

محفلین
ابھی اس قوم میں ایماں کی روح باقی ہے الحمدللہ
ابھی یہاں لاکھوں علم دین شہید زندہ ہیں
ابھی یہاں کروڑوں غازی ممتاز حسین زندہ ہیں
جن کے دل میں عشقِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن ہے
جو آنِ واحد میں عزتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گستاخ کی جان لے بھی سکتے ہیں
اور فخر سے سینہ ٹھونک کر جان دے بھی سکتے ہیں الحمدللہ رب العالمین

"قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے
جو اُنکے نام پر جائے وہ جان اللہ والی ہے "

الصلواۃ والسلام علیک یا سیدی یارسول اللہ
وعلیٰ آلک واصحابک یا سیدی یا حبیب اللہ
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
الحمد للہ
ایک نئی طرح کی روشنی اور طاقت ہے
اطیعواللہ اطیعوالرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم
جزاک اللہ لکھنے والے ، اگے بڑھانے والوں اور پڑھنے والوں کے لئے۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
کسی کو پیرس جانےکی ضرورت نہیں، کتابیں ان شاء اللہ پاکستان میں بھی دستیاب ہوتی ہیں
اچھے اچھے لائبریریاں ہیں صرف اور صرف وقت نکالنے کی دیر ہے سب سے پہلے جواللہ کی طرف سے انسان کے لئے خبر نازل کی گئی ہے ہم اس کو سیکھیں یعنی قرآن کریم۔ اللہ کی اس رسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زور سے تھامے۔
مسلمان چوبیس گھنٹے کی ذندگی کو عبادت کی ذندگی بنا سکتا ہے اس کے لیے کسی کی مدد درکار نہیں۔ بس کرنا یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولے، پانچ وقت کی نماز پابندی سے مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرے۔ بعد فجر سنت ازکار و دعائوں کا ورد کرے، اسی طرح بعد عصر،تجارت کو تجارت کی طرح اور نوکری کو نوکری کی طرح ادا کرے۔ ان شاء اللہ ذندگی بدل جائیگی۔
جزاک اللہ
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت اچھا کالم ہے اور ہم سب کو مل کر اس سوچ کو مزید آگے بڑھانا چاہئے کہ وہ تمام ممالک جو اسلام کے خلاف گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہیں انہیں ایسا سبق سکھایا جائے کہ ان مذموم عزائم اپنی موت آپ ہی مر جائیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب پوری دنیا کے مسلمانوں کو حقیقتاَ یہ بتانا ہوگا کہ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور ناموس کی حفاظت کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ یہ ان ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں کا امتحان ہے جنہوں نے کلمہ شہادت پڑھتے وقت یہ عہد کیا تھا کہ انہیں اپنے جان و مال، ماں باپ، اولاد اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور ناموس عزیز ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے​
کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو کبھی معاف​
اگر آج بھی ہم خاموش رہے تو ہم پر اس خدائے قہار کا ایسا عذاب نازل ہوگا کہ ہم دنیا میں نشانِ عبرت بن کر رہ جائیں گے!
 

نیلم

محفلین
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے

تلاطُم ھائے دریا ھی سے ھے گوھر کی سیرابی
....بہترین شراکت.
 

زبیر مرزا

محفلین
اس طرح کے گستاخانہ عمل یک بعد دیگرے دراصل مسلمانوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں کہ ردعمل دیکھا جائے
اورہم وقتی طورپر جوش میں آتے ہیں اور اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کے کر کہ خود کو مسلمان اور حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلٰہ وسلم
سے محبت کا اظہار اس طورپرکرتے جو کہ اُن کا شعار نہیں تھا - ہم اسلام دشمن عناصر کا غصہ اپنے شہروں میں امن امان کی صورتحال اور
لاقانونیت کرکے نکلتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد بھول بھال کرکے اپنے عیش وآرام میں مگن ہوجاتے ہیں -
کبھی ان عناصر کے خلاف ایسا احتجاج ہوکے ان کی حکومتیں مسلمانوں کے اتحاد واتفاق اور مستقل مزاجی کے آگے بے بس ہوکر ایسے
قوانین تشکیل دینے پر مجبورہوجائیں کہ کسی کو دوبارہ اس طرح کی اشتعال انگیزی کی جراءت نا ہو- ہماری وقتی شدت پسندی اور اشتعال ان
مسائل اور گھناؤنی حرکتیں کرنے والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں -ضرورت ہے ٹھوس اقدام کی اور آپس میں یک جہتی اوراگرہم عملی مسلمان بن جائیں تو ان سازشوں کو ہم روک سکتے ہیں اور ہمارا اتفاق اور اسلامی اصولوں پر کاربند ہوجانا ہماری طاقت بن سکتا ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت اچھا کالم آپ نے شریکِ محفل کیا ہے۔
مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی:pbuh: سے محبت کرتے ہیں۔​
کی محمد:pbuh: سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ویسے میں نے پچھلے کمنٹس نہیں پڑھے شاید کسی نے یہ بات کی بھی ہو:
لیکن ہمیں اس معاملے پہ یہودیوں کے مالی نقصانات بھی کرنا چاہیں، یو ٹیوب، فیس بک کا استعمال چھوڑ دیں، کیا ہم مسلمان اپنی سوشل نیٹورکنگ سائٹس نہیں بنا سکتے؟
ہم ان کی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں وغیرہ وغیرہ۔
14 ستمبر 2012 کو حسبِ حال میں اس بارے کافی اچھا سیگمنٹ کیا ہے جنید سلیم نے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
کاش کہ ہم لوگ جوش اور ہوش میں آنے کے لئے ایسے وقت کا انتظار کا نہ کیا کریں اور پھر یہ جوش اپنے ہی نقصانات کرنے میں صرف نہ کر دیا کریں۔ جب تک مسلم ممالک میں شعور بیدار نہیں ہو گا اس طرح کے فضول واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ الحمد اللہ ہم حبِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) میں تو ڈوبے ہوئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم امتی رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) ہونے کا حق ادا کرنے سے غافل ہیں۔ اور یہ حق قرآن و سنت کی اتباع کرنا ہے۔ میں اگر غیر جانبداری سے دیکھوں تو مجھے خود سمیت اپنے اردگرد ایسے ہی اربوں لوگ دکھتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے اور اصل میں یہی تضاد دشمنانِ اسلام کو موقع دیتا ہے کہ وہ اسلام دشمنی میں حد سے گزر جائیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اس توہین آمیز واقعے کے خلاف احتجاج جاری ہے لیکن کیا مسلم امہ کی اقوامِ عالم میں اتنی بھی اہمیت نہیں کہ وہ گوگل کو اس ویڈیو کو اتارنے اور امریکہ کو اپنے شہری کو پرسیکیوٹ کرنے پر مجبور کر سکیں؟ نہیں۔ کیونکہ ہم لوگ گفتار کے غازی ہیں اور بس۔
 
از انصار عباسی
shim.gif

لیبیا میں اِسلام مخالف فلم کیخلاف احتجاج کرنیوالوں کے ہاتھوں امریکی سفیر کی ہلاکت پر اقوام متحدہ اور غیرمسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بشمول پاکستان نے فوری مذمتی بیانات جاری کئے مگر کسی ایک اسلامی ملک نے بھی امریکا کی مذمت کرنے کی جرأت نہ کی کہ اُس نے ایک ایسی فلم کو میڈیا میں کیوں آنے دیا جو اسلام دُشمن ذہن کی خباثت  کمینگی اور ذلالت کی تمام حدوں کو پار کرتی ہے؟؟
49مسلمان ممالک میں سے کسی ایک ملک نے بھی امریکا سے باقاعدہ سفارتی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ اُلٹا امریکا سے ہمدردیاں کی جا رہی ہیں کہ اُس کا لیبیا میں سفارتکار مارا گیا…!! شکر ہے کہ اُس کو ”شہادت“ کا درجہ نہیں دیا گیا۔ عراق  افغانستان  پاکستان اور دوسرے ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کے مارے جانے پر تو پتّا بھی نہیں ہلتا  لیبیا کے لوگوں کے ہاتھوں کرنل قذافی کے قتل پر کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتے۔ اُس وقت کے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملاضعیف کو تمام سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا کے حوالے کر دیا جاتا ہے  اُس پر بھی پوری اقوام عالم خاموش رہتی ہے مگر دُنیا بھر میں بسنے والے تقریباً 2ارب مسلمانوں کے پیارے رسول کی شان میں گستاخی کرنے کی غرض سے امریکا میں بنائی جانے والی فلم کو آزادی اظہار کے بہانے دُنیا بھر میں پھیلانے کی اجازت دینے والے امریکا کا سفیر اگر مارا جاتا ہے تو سب ”غم زدہ“ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین یقیناً کسی معصوم کی جان لینے سے روکتا ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکاو یورپ آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کی مقدّس ترین ہستیوں کا مذاق اُڑاتے رہیں اور اسکے جواب میں کسی قسم کا ردّعمل نہ ہو۔ یہاں تو کوئی شخص اپنے خلاف یا اپنے ماں باپ کیخلاف گالی برداشت نہیں کرتا ،سروَر دوجہاں حضرت محمد اور دوسرے انبیائے کرام کی شان میں گستاخی مسلمانوں کیلئے کیسے قابل برداشت ہو سکتی ہے…؟؟ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت سے امریکا و یورپ کو سبق سیکھنا چاہئے مگر جب مسلمان ممالک کے حکمران اُن سے احتجاج کی بجائے ہمدردی کر رہے ہوں تو وہ اپنے جرم کو جرم کیسے سمجھیں گے؟ ہم مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکا کے پٹھو ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی نمائندہ بین الاقوامی تنظیم او آئی سی (OIC) بھی امریکا کے اشاروں پر ناچتی ہے۔جب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے امریکا کے پٹھو ہونگے تو عام مسلمان کے پاس احتجاج اور توڑ پھوڑ کے علاوہ کیا رستہ رہ جاتا ہے؟؟اگر اُنکے نمائندے اُنکے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے گستاخِ رسول اور اسلام دُشمنوں کی سازشوں کے خلاف شدید ردّعمل کا اظہار کریں گے تو اس سے عام مسلمان کا بھی غصہ ٹھنڈا ہو گا ورنہ احتجاج کرنے والے پرتشدّد ہو سکتے ہیں۔
ہمارے صدر یا وزیراعظم کو امریکی صدر سے بات کرکے مسلمانوں کے احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے سخت احتجاج ریکارڈ کرانا چاہئے تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو چاہئے تھا کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اسلام مخالف فلم پر پاکستان کی طرف سے باقاعدہ مذمت کرتے مگر ہمارے صدر، وزیراعظم حتیٰ کہ وزیر خارجہ حناربانی کھر سب اس واقعہ پر خاموش ہیں جبکہ دفتر خارجہ نے 12ستمبر کے روز (جب لیبیا میں امریکی سفیر کو ہلاک کیا گیا) دو پریس ریلیز جاری کیں۔ پہلی پریس ریلیز میں اسلام مخالف فلم کے بننے پر مذمتی بیان جاری کیا مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ امریکی حکومت کا اس بیان میں کوئی ذکر نہ آئے۔ اُسکے ساتھ ہی ایک اور بیان جاری کیا جس میں لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر مذمت کا اظہار کرتے ہوئے مارے جانے والے سفیر کے خاندان کیلئے دعاکی۔
ہماری حکومت کی طرح ہمارے میڈیا کا بھی اس واقعہ پر ردعمل انتہائی پھسپھسا رہا۔ سوات میں ایک خاتون کو کوڑے مارنے سے متعلق جعلی فلم پر تو بغیر تحقیق کئے ہمارے میڈیا نے ہفتوں آسمان سر پر اُٹھائے رکھا مگر امریکیوں کی طرف سے اسلام مخالف فلم بنانے پر اکثرو بیشتر اینکر پرسن خاموش رہے۔ آسیہ مسیح  رمشا کیس  ہندوؤں کو سندھ سے بے دخل کئے جانیوالی جھوٹی خبروں پر تو ہمارے کئی اینکر پرسنز تڑپ اُٹھے  غصہ میں اُنکے منہ سے جھاگ نکلنے لگی مگر امریکا کی اس تازہ غلاظت پر وہ خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ یہی حال ہماری نام نہاد انسانی حقوق، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے ”بڑے بڑے“ عَلم برداروں کا ہے۔ جہاں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی بات ہو، میڈیا سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے عَلم برداروں کا ایک طبقہ برساتی مینڈکوں کی طرح ٹریں ٹریں کرنے لگتا ہے مگر اس شرمناک واقعہ پریہ تمام برساتی مینڈک خاموش بیٹھے ہیں۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ
 

زبیر مرزا

محفلین
عجیب قانون ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی توہین کرے تو ہتک عزت میں مقدمہ درج ہوسکتا ہے لیکن جب کوئی انبیاء کرام کی شان میں گستاخی
کرے ، حضوراکرام صلٰی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو کرکروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کرے اسے آزادی رائے کہہ دیا جائے -
آزادی رائے ہے تو پھر کوئی بھی کسی کے بارے میں ہرزہ سرائی کرے الزام تراشی کرے اس پر ہتک عزت مقدمہ دائر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آزادی رائے ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں
مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
یہی بات حضرت اقبال علیہ رحمہ کب کہ فرماگئے کہ۔۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
 
Top