برائے تنقید و اصلاح (غزل 46)

الف عین

لائبریرین
یہ میں امان سے پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ خواہ مخواہ کی تراکیب نہ بنایا کریں، اور خیال پر زور دیں۔ ان کی زیادہ تر غزلیں ایسی ہی ہیں کہ اشعار کی دس بیس اشکال پیش کیے جانے پر تنگ آ کر آخر کسی صورت یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ یہ صورت بہتر ہے۔ لیکن دل سے مجھے وہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ ہر نئی شکل میں مفہوم بھی بدل جاتا ہے اور اس شعر کو ایک نئے شعر کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔
لیکن امان اچھے شعر کہہ سکتے ہیں۔ اسی غزل کا ایک شعر اس کا ثبوت ہے۔ غزال کے رم والا۔
عدم والے شعر کی بھی آخری صورت قابل قبول لگ رہی ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
یہ میں امان سے پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ خواہ مخواہ کی تراکیب نہ بنایا کریں، اور خیال پر زور دیں۔ ان کی زیادہ تر غزلیں ایسی ہی ہیں کہ اشعار کی دس بیس اشکال پیش کیے جانے پر تنگ آ کر آخر کسی صورت یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ یہ صورت بہتر ہے۔ لیکن دل سے مجھے وہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ ہر نئی شکل میں مفہوم بھی بدل جاتا ہے اور اس شعر کو ایک نئے شعر کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔
لیکن امان اچھے شعر کہہ سکتے ہیں۔ اسی غزل کا ایک شعر اس کا ثبوت ہے۔ غزال کے رم والا۔
عدم والے شعر کی بھی آخری صورت قابل قبول لگ رہی ہے۔
اللہ آپ کی عمر دراز فرمائے۔ سر آپ کی شفقت ہے کہ یہاں موجود ہوں وگرنہ بھگا دیا جاتا۔۔۔۔ رم والے شعر کی تعریف پر خوش ہوں۔۔۔۔ آئندہ کوشش کروں گا کہ دی گئی ہدایات پر عمل کروں۔۔
 

عرفان سعید

محفلین
مان بھائی ، ایک مشورہ بے طلب دے رہا ہوں اور وہ یہ کہ اپنے شعر کو الفاظ کا اسیر مت بنائیے ۔ بلکہ الفاظ کو اپنے مدعا کا اسیر بنائیے ۔ یعنی شعری خیال کا ذہن میں پہلے آنا شرط ہے ۔ پھر اس کے مطابق الفاظ اور پیرایہ چنا جائے گا ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر قافیہ پیمائی ہی رہ جاتی ہے ۔
بہت اعلی بات کہی آپ نے۔
 
Top