برائے تنقید و اصلاح (غزل 46)

حاضر ہیں وہ معانی جو میں نے ان سے اخذ کیے:
جشنِ عشرت میں یاد غم آئے
اشکِ خونیں بہ چشمِ نم آئے
نظیری کا شعر ہے:
گل آمد و لعلم ز دلِ سنگ برآورد
اشکم ز تماشائے چمن رنگ برآورد

گل آیا اور میری سنگی دل کو لعل میں بدل گیا، چمن کے تماشے سے میرے اشک بھی رنگین ہو گئے۔
تیر پیوست ہو جگر میں جب
تب غزالِ جنوں پہ رم آئے
غزالِ جنوں تیر پیوست ہونے کے بعد زمیں بوس نہیں ہوتا۔ تیر اس کے لیے رمیدگی افزا ثابت ہوتا ہے۔
ساری نظریں اسی طرف ہیں، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے!
حرم تک ان کا آنا کیوں اس قدر اشتیاق کا باعث ہے یہ واضح نہیں۔
ہوں گے تیرہ شبی سے وابستہ
ہم ستاروں کے ہم قدم آئے
ہم چونکہ ستاروں کے ہم قدم بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے کبھی نہ کبھی ہم تیرہ شبی سے وابستہ ہوں جائیں گے۔
آتش افشاں ہو وقت کا خامہ
صفحۂِ زیست پر عدم آئے
وقت کے خامے کا آتش افشاں ہونا اس کا لمحۂ مرگ تلک پہنچنا اور صفحۂ زیست پر عدم آنا استعارۂ مرگ ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
حاضر ہیں وہ معانی جو میں نے ان سے اخذ کیے:

نظیری کا شعر ہے:
گل آمد و ک لعلم ز دلِ سنگ برآورد
اشکم ز تماشائے چمن رنگ برآورد

گل آیا اور میری سنگی دل کو لعل میں بدل گیا، چمن کے تماشے سے میرے اشک بھی رنگین ہو گئے۔

غزالِ جنوں تیر پیوست ہونے کے بعد زمیں بوس نہیں ہوتا۔ تیر اس کے لیے رمیدگی افزا ثابت ہوتا ہے۔

حرم تک ان کا آنا کیوں اس قدر اشتیاق کا باعث ہے یہ واضح نہیں۔

ہم چونکہ ستاروں کے ہم قدم بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے کبھی نہ کبھی ہم تیرہ شبی سے وابستہ ہوں جائیں گے۔

وقت کے خامے کا آتش افشاں ہونا اس کا لمحۂ مرگ تلک پہنچنا اور صفحۂ زیست پر عدم آنا استعارۂ مرگ ہے۔
قربان جائیں آپ کے حسنِ فہم کے، آپ کے معانی نے تو ان اشعار کو ایک زندگی عطا کر دی۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
جشنِ عشرت میں یاد غم آئے
اشکِ خونیں بہ چشمِ نم آئے

تیر پیوست ہو جگر میں جب
تب غزالِ جنوں پہ رم آئے

منتظر ہے فصیلِ باہر ، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے

ہوں گے تیرہ شبی سے وابستہ
ہم ستاروں کے ہم قدم آئے

آتش افشاں ہو وقت کا خامہ
صفحۂِ زیست پر عدم آئے
 

امان زرگر

محفلین
غالباً حرم کے اندر سے دروازے تک آنا مراد ہے، اور اشتیاق دیدار کا ہے۔

اس متبادل سے تو پہلا بہتر ہے۔

واقعی غور کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اول الذکر حالت میں شعر اتنا برا بھی نہیں تھا۔
۔۔
منتظر ہیں حجاب اٹھے ، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے

 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
جشنِ عشرت میں یاد غم آئے
اشکِ خونیں بہ چشمِ نم آئے

تیر پیوست ہو جگر میں جب
تب غزالِ جنوں پہ رم آئے

منتظر ہوں حجاب اٹھے، وہ
تا بہ دروازۂِ حرم آئے

ہوں گے تیرہ شبی سے وابستہ
ہم ستاروں کے ہم قدم آئے

آتش افشاں ہو وقت کا خامہ
صفحۂِ زیست پر عدم آئے

سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
۔۔۔
بے حجابانہ دیکھنے ان کو
تا بہ دروازۂِ حرم آئے

سر محمد ریحان قریشی
سر محمد تابش صدیقی
سر الف عین

فاعل مخفی رکھا ہے تاکہ کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔:)
یہی سب سے بہتر صورت ہے۔
عدم والا شعر تو میرے گلے سے اب بھی نہیں اتر رہا، ریحان کے سمجھانے کے با وجود!
 
Top