برائے تنقیدو تبصرہ: شوق وہ ہے کہ انتہا بھی نہیں

عاطف ملک

محفلین
شوق وہ ہے کہ انتہا بھی نہیں
درد ایسا ہے، کچھ دوا بھی نہیں

دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اس پہ جینے کا آسرا بھی نہیں

یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا، مڑا بھی نہیں

ڈال رکھا ہے مجھ کو الجھن میں
مانتا بھی نہیں، خفا بھی نہیں

داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں

وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا بھی نہیں

اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے ملال
مجھ میں اب اور کچھ بچا بھی نہیں

آرزوئے وصال باقی ہے
تُو نہیں ہے تو کیا خدا بھی نہیں

لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی تُو ہے
ڈھونڈنے پر مگر ملا بھی نہیں

ظلم عاطف پہ ہیں جہاں بھر کے
اور کوئی درد آشنا بھی نہیں​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مطلع کے پہلے مصرع اور ان دو اشعار میں مجھے لگتا ہے کہ ردیف 'ہی نہیں' ہونی چاہیے تھی ۔
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں
اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے ملال
مجھ میں اب اور کچھ بچا بھی نہیں

اس کے علاوہ
÷÷اس کی یادیں ہیں، دل ہے اور ہے ملال
کیا یوں رواں نہیں ہو جاتا؟
÷÷ اس کی یادیں ہیں، دل ہے اور ملال

وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا بھی نہی
یہاں کچھ معنوی غلطی محسوس ہو رہی ہے ۔ جب ستمگر کہا ہے تو اچانک ظلم؟
میرے خیال میں یوں بہتر رہے گا ۔
÷÷وہ ستمگر ہے دکھ ہی دے گا تجھے
 

عاطف ملک

محفلین
بہت شکریہ عدنان بھائی :)
اچھی غزل ہے ڈاکٹر صاحب، بہت خوب!
شکریہ استاد محترم!
اگر اسقام کی نشاندہی بھی فرما دیا کریں تو سونے پہ سہاگہ ہو جائے :)
زبردست عاطف بهائی، عمدہ!
بہت شکریہ بھائی!
مطلع کے پہلے مصرع اور ان دو اشعار میں مجھے لگتا ہے کہ ردیف 'ہی نہیں' ہونی چاہیے تھی ۔
سب سے پہلے تو بیت بہت شکریہ عظیم بھائی کہ آپ نے اس غزل کو تبصرے کے لائق سمجھا۔
بہت خوشی ہوئی۔
میں خود بھی تذبذب کا شکار تھا کہ ردیف "ہی نہیں" ہو یا "بھی نہیں"
پھر بھی نہیں کو ردیف کر لیا کہ اکثر اشعار میں کم از کم مجھے تو درست معلوم ہو رہی تھی۔

اس کے علاوہ
÷÷اس کی یادیں ہیں، دل ہے اور ہے ملال
کیا یوں رواں نہیں ہو جاتا؟
÷÷ اس کی یادیں ہیں، دل ہے اور ملال
یہاں مجھے "اور" کا کھینچا جانا اچھا نہیں لگا۔
ویسے غور کرتا ہوں۔
یہاں کچھ معنوی غلطی محسوس ہو رہی ہے ۔ جب ستمگر کہا ہے تو اچانک ظلم؟
میرے خیال میں یوں بہتر رہے گا ۔
÷÷وہ ستمگر ہے دکھ ہی دے گا تجھے
اس کو بھی دیکھتا ہوں۔
میرا ارادہ ستم کرنے اور سہنے والے کے "ظلم" کا موازنہ کرنے کا تھا۔
آپ کی تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوبارہ غور کرتا ہوں ان اشعار پر۔
 
عاطف بھائی عمدہ غزل ہے۔
ایک دو باتیں ذہن میں آئی ہیں، اگر بارِ خاطر نہ ہوں۔
ردیف سے متعلق بات ہو چکی ہے۔ "ہی نہیں" زیادہ بہتر لگتی ہے۔
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں
یہاں "ہی نہیں" کا محل ہے!
اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے ملال
مجھ میں اب اور کچھ بچا بھی نہیں
پہلا مصرع رواں نہیں ہے ذرا سی کوشش سے شعر اور بہتر ہو سکتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی تُو ہے
ڈھونڈنے پر مگر ملا بھی نہیں
ایک صلاح:
تو مجھے خود میں پر ملا ہی نہیں
یا ایسا ہی کچھ !
شکریہ
 

عاطف ملک

محفلین
شوق وہ ہے کہ انتہا ہی نہیں
درد ایسا ہے، کچھ دوا ہی نہیں

دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اس پہ جینے کا آسرا ہی نہیں

یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا، مڑا ہی نہیں

میں یہ کہتا ہوں مان جا اب تو!
اس کی ضد ہے کہ وہ خفا ہی نہیں

داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا ہی نہیں

وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا ہی نہیں

اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے غم
مجھ میں اب اور کچھ بچا ہی نہیں

آرزوئے وصال باقی ہے
تُو نہیں ہے تو کیا خدا ہی نہیں

لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی وہ ہے
وہ جو مجھ کو کہیں ملا ہی نہیں

ظلم عاطف پہ ہیں جہاں بھر کے
اور کوئی درد آشنا ہی نہیں​
استادِ محترم
 
Top