برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
دیارِ عشق میں جوں جوں قدم بڑھائے گا
یقیں، گمان میں تبدیل ہوتا جائے گا

یہ زندگی کا سفر بھی بڑا عجب ہے، جہاں
وہی چلے گا جو گر کر بھی مسکرائے گا

نہ جانے اب بھی یہ کیونکر خیال آتا ہے
ستارہ میری بھی قسمت کا جگمگائے گا

میں اپنے شہر میں ہی اجنبی سا لگتا ہوں
تمہارا شہر مجھے کیسے راس آئے گا

ہے اب کے فرق بس اتنا کہ ساتھ دشمن کے
نشانہ مجھ پہ مرا دوست بھی لگائے گا

منافقانہ رویہ اگر میں اپنا لوں
معززین میں میرا بھی نام آئے گا

نہیں ملے گا تجھے جانثار مجھ جیسا
ہوا کی زد پہ دیا کوئی کیا جلائے گا

عبور کر کے رہوں گا حدیں محبت کی
زمانہ پھر نہ کبھی مجھکو آزمائے گا

یہ سوچ کر ہی میں لکھتا ہوں روز خط اس کو
کس ایک خط کا تو فائق جواب آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔ بس آخری شعر میں'کس' اچھا نہیں لگتا۔ یہاں 'کہ' ہی کر دو۔ باقی درست ہے۔۔
 
Top