برائے اصلاح

عباد اللہ

محفلین
جو دل حر حال میں شاداں رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
درست
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
کر رہا میں تنافر
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نہ کہ آئینہ ہے
نہ اور کہ دونوں کو یک حرفی باندھنا مستحسن ہے
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
یہاں ہر کوئی میرِ قافلہ ہے
توارد
الہی خیر میرے کارواں کی
جسے دیکھو امیرِ کارواں ہے


ترے گلشن میں کیوں نہ ہو گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
نہ دو حرفی باندھا ہے
سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے
درست
رکھوں انصاف کی امید کیونکر
مرا قاتل ہی جب منصف بنا ہے
امید رکھنے کے لئے آپ کیا زندہ ہیں اگر ہاں تو پھر منصف قاتل کیونکر ہو سکتا ہے؟

غزل فائق میری در حقیقت
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
پہلے مصرعے کو دیکھ لیجئے شاید کچھ ٹائپینگ میں رہ گیا ہو!
 

محمد فائق

محفلین
شکریہ بھائی
الہی خیر میرے کارواں کی
جسے دیکھو امیرِ کارواں ہے
یہ شعر میری نظر سے گزرا ہوا ہے
پر یاد نہیں آ رہا تھا
اور مجھے میرا شعر کھٹک بھی رہا تھا کہ کہیں کوئی شعر سے ٹکرا تو نہیں رہا
 

محمد فائق

محفلین
درست

کر رہا میں تنافر

نہ اور کہ دونوں کو یک حرفی باندھنا مستحسن ہے

توارد
الہی خیر میرے کارواں کی
جسے دیکھو امیرِ کارواں ہے



نہ دو حرفی باندھا ہے

درست

امید رکھنے کے لئے آپ کیا زندہ ہیں اگر ہاں تو پھر منصف قاتل کیونکر ہو سکتا ہے؟


پہلے مصرعے کو دیکھ لیجئے شاید کچھ ٹائپینگ میں رہ گیا ہو!
خیر اب پوری غزل کو ہی ترک کر دینا بہتر ہوگا انشاءاللہ نئے سرے سے کوشش کروں گا
 

حسان خان

لائبریرین
خیالی مضامین میں برائی کیا ہے؟ تمام سبک ہندی کے فارسی شعرا خیال بند مانے جاتے ہیں۔
خیالی مضامین اور سبک ہندی کے فارسی شعرا اصل میں ہیں کیا، ہمیں علم ہی نہیں۔ انہیں اچھا یا برا اس لیے نہیں کہا، نہ کہیں گے۔
اگر آپ "آؤٹ آف مضامین" والی بات نہ کرتے تو ہم آپ کو اصلاح کا نہ کہتے۔
سبک ہندی کے شعرا عرفی ، نظیری ، بیدل ، جلال اسیر ، شوکت بخاری وغیرہ ہیں۔
خیالی اشعار کچھ اس قسم کے ہونگے جیسے خواجہ نظیری کا شعر ہے

پروانہ ایم و شعلہ بود آشیانِ ما
آب از شرارِ سنگ خورد گلستانِ ما

ہم پروانے ہیں اور شعلہ ہمارا آشیاں ہے۔ پانی ہمارا گلستان سنگ(محبوب) کے شرار سے حاصل کرتا ہے.
کسی حد تک ہم سمجھے تو ضرور تھے کہ خیالی اشعار کیا ہوتے ہیں۔ لیکن شک اس میں تھا کہ سبک ہندی اور فارسی خلط ملط ہیں۔ اشعار فارسی کے ہوں گے یا ہندی کے؟ یہاں فارسی ہونا پایا گیا۔ سو آپ اردو شاعری چھوڑ کر فارسی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے ان اشعار میں بھی آج کل منطق ضرور دیکھی جاتی ہے۔ فارسی کا پتہ نہیں، اردو میں تو دیکھتے ہیں۔
خواجہ نظیری کو امیر خسرو کے بعد ہندوستان کا سب سے بڑا غزل گو مانا جاتا ہے۔ خوبصورت تشبیہات ، استعارات ، نازک خیالات ، الفاظ کی مناسبتیں اور حسنِ تعلیل سبک ہندی کی خصوصیات میں سے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔

کیسے کروں شکایتِ آزارِ نقشِ پا
ہر زخمِ دل مرا ہے نمک خوارِ نقشِ پا

اس میں مضمون نیا نہیں ہے۔ مگر لطف یہ ہے کہ جس کا آدمی نمک خوار ہو اس کی شکایت نہیں کرنی چاہیے ۔ اور زخم اور نمک کی مناسبت تو ظاہر ہے۔
'سَبْکِ ہندی' میں 'ہند' جغرافیائی ہے، اِس سے ذہن ہندی زبان کی جانب منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ 'سبکِ ہندی' کو معمولاً 'ہندی' اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ جو فارسی شعراء اِس کے نمائندے تھے وہ یا تو ہند میں متولّد ہوئے تھے یا پھر ایران و ماوراءالنہر سے ہند آئے تھے۔ 'سبکِ ہندی' زبان و خیال کے ایک خاص اسلوب کا نام ہے، اور صرف فارسی سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اِس اسلوب کا آغاز تو فارسی میں ہوا تھا، لیکن فارسی کی پرورش یافتہ زبانوں میں بھی یہ اسلوب دیگر چیزوں کی طرح منتقل ہو گیا تھا۔ عثمانی شاعر 'فہیم' کی مندرجۂ ذیل دو تُرکی ابیات دیکھیے جو سبکِ ہندی میں ہیں:

نگاه ایتمک‌ده دُزدیده او ماها شعله‌اطواروز
شُعاعِ چشمۆمۆز گاهی دراز و و گاه کوته‌دۆر
Nigâh itmekde düzdîde o mâha şu'le-etvâruz
Şu'â'-ı çeşmümüz gâhî dırâz u gâh kûtehdür

ترجمہ: اُس ماہ کی جانب دُزدیدہ نگاہ کرنے میں ہم شعلہ اطوار ہیں (یعنی ہمارے اطوار شعلے کی مانند ہیں)۔۔۔ ہماری شعاعِ چشم گاہے دراز اور گاہ کوتاہ ہے۔

بن بلبلِ اَلوان‌نِغمِ گلشنِ فیضم
مرغانِ قفس نغمهٔ تکرارې نه بیلسۆن
Ben bülbül-i elvân-negam-ı gülşen-i feyzem
Murgân-ı kafes nağme-i tekrârı ne bilsün

ترجمہ: میں گلشنِ فیض کا طرح طرح کے نغمے جاننے والا بلبل ہوں؛ مُرغانِ قفس نغمۂ تکرار کیا جانیں؟

اِسی طرح، مرزا غالب کی چند ایک غزلیات کے سوا اُن کا کُل اردو دیوان اردو میں سبکِ ہندی کا نمونہ ہے۔ مثلاً یہ چند ابیات دیکھیے:
آگہی دامِ شُنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

دُود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا


و علیٰ ہذا القیاس۔

میں پشتو زبان نہیں جانتا، لیکن اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اٹھارویں صدی کے مشہور پشتو شاعر کاظم خان شیدا نے سبکِ ہندی میں شاعری کی ہے۔

سبکِ ہندی کا بازار ایران و آذربائجان میں بالکل گرم نہ ہو سکا، کیونکہ وہاں اِس اسلوب کے خریدار ختم ہو گئے تھے، لیکن دیارِ آلِ عثمان، تُرکستان، افغانستان اور مغلیہ دیار کی شاعری پر صدیوں تک اِسی سبک ( = اُسلوب، شیوہ) کا غلبہ رہا ہے۔ اِسے ہی نازک خیالی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
پشتو کے کافی مشکل پسند شاعر تھے
'سَبْکِ ہندی' میں 'ہند' جغرافیائی ہے، اِس سے ذہن ہندی زبان کی جانب منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ 'سبکِ ہندی' کو معمولاً 'ہندی' اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ جو فارسی شعراء اِس کے نمائندے تھے وہ یا تو ہند میں متولّد ہوئے تھے یا پھر ایران و ماوراءالنہر سے ہند آئے تھے۔ 'سبکِ ہندی' زبان و خیال کے ایک خاص اسلوب کا نام ہے، اور صرف فارسی سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اِس اسلوب کا آغاز تو فارسی میں ہوا تھا، لیکن فارسی کی پرورش یافتہ زبانوں میں بھی یہ اسلوب دیگر چیزوں کی طرح منتقل ہو گیا تھا۔ عثمانی شاعر 'فہیم' کی مندرجۂ ذیل دو تُرکی ابیات دیکھیے جو سبکِ ہندی میں ہیں:

نگاه ایتمک‌ده دُزدیده او ماها شعله‌اطواروز
شُعاعِ چشمۆمۆز گاهی دراز و و گاه کوته‌دۆر
Nigâh itmekde düzdîde o mâha şu'le-etvâruz
Şu'â'-ı çeşmümüz gâhî dırâz u gâh kûtehdür

ترجمہ: اُس ماہ کی جانب دُزدیدہ نگاہ کرنے میں ہم شعلہ اطوار ہیں (یعنی ہمارے اطوار شعلے کی مانند ہیں)۔۔۔ ہماری شعاعِ چشم گاہے دراز اور گاہ کوتاہ ہے۔

بن بلبلِ اَلوان‌نِغمِ گلشنِ فیضم
مرغانِ قفس نغمهٔ تکرارې نه بیلسۆن
Ben bülbül-i elvân-negam-ı gülşen-i feyzem
Murgân-ı kafes nağme-i tekrârı ne bilsün

ترجمہ: میں گلشنِ فیض کا طرح طرح کے نغمے جاننے والا بلبل ہوں؛ مُرغانِ قفس نغمۂ تکرار کیا جانیں؟

اِسی طرح، مرزا غالب کی چند ایک غزلیات کے سوا اُن کا کُل اردو دیوان اردو میں سبکِ ہندی کا نمونہ ہے۔ مثلاً یہ چند ابیات دیکھیے:
آگہی دامِ شُنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

دُود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا


و علیٰ ہذا القیاس۔

میں پشتو زبان نہیں جانتا، لیکن اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اٹھارویں صدی کے مشہور پشتو شاعر کاظم خان شیدا نے سبکِ ہندی میں شاعری کی ہے۔

سبکِ ہندی کا بازار ایران و آذربائجان میں بالکل گرم نہ ہو سکا، کیونکہ وہاں اِس اسلوب کے خریدار ختم ہو گئے تھے، لیکن دیارِ آلِ عثمان، تُرکستان، افغانستان اور مغلیہ دیار کی شاعری پر صدیوں تک اِسی سبک ( = اُسلوب، شیوہ) کا غلبہ رہا ہے۔ اِسے ہی نازک خیالی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
Top