برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیرِ قافلہ رہزن ہوا ہے
ہو تم بھی راہِ حق پر کیسے مانو
تمہارا سر کہاں کاٹا گیا ہے
ترے گلشن میں کیوں نہ ہو گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے
یہ رودادِ غزل در اصل فائق
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
 
آخری تدوین:
نہ کو آپ نے نا باندھا ہے دو تین جگہ۔ ایسے اچھا نہیں لگتا۔
اس کے علاوہ
ترے گلشن میں نہ کیوں ہو گلِ تر
غالباََ کیوں نہ ہو کہنا چاہتے تھے۔

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اردو شاعری اب آؤٹ آف مضامین ہوگئی ہے۔
اسی لیے میرا زور تو اب خیالی مضامین پر ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
÷÷ دل خوشیوں کا سرچشمہ نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ خوشی محسوس کرسکتا ہے۔ خوشی کی وجہ دل کا ہونا نہیں ہوتا کہ یہ زندگی کی ایک شرط ہے۔ ایک وجہ ہے۔ یہ اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ یہاں دل سے مراد شاعر کا دل لیا جائے گا اور شاعر کا یہی مقصد ہے۔ دل خوشیوں کا گھر ہوسکتا ہے، گہوارہ ہوسکتا ہے، مسکن بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے دوسرے مصرعے میں آپ نے اسے درد و غم کا مسکن کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔

نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
÷÷÷ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار (اقبال) ۔۔۔ معیار کا لفظ بطور میار استعمال نہیں کیا جاتا۔ ہمدرد ملا کر لکھئے تو زیادہ فصیح ہے۔

جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
۔۔۔۔ وہ ہی کو "وہی" کیا جائے ۔ باقی درست لگتا ہے۔

تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
۔۔۔۔ نا(نفی) کو دو حرفی باندھنا بہت لوگوں نے جائزقرار دیا، لیکن آج تک متفقہ طور پر رد کیا جاتا رہا۔ مجھے خود عجیب لگتا ہے۔ بہتر ہے بدل دیا جائے۔

میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
۔۔۔ اختلاف ہے۔ منصف اگر منافق بھی ہو تو ضروری نہیں کہ فیصلہ غلط کرے۔ انسان غلط اور درست ساتھ ساتھ چلاتا ہے۔ جس کی جہاں ضرورت پڑ جائے۔ ہاں، ملزم سے صفائی طلب کر لی جائے تو دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیرِ قافلہ رہزن ہوا ہے
۔۔۔ کمزور ہے۔ امیر قافلہ رہزن ہو تو منزل تک پہنچنا مشکل نہیں کرتا بلکہ اس سے لوٹ مار کا خدشہ رہتا ہے۔

ہو تم بھی راہِ حق پر کیسے مانوں
تمہارا سر کہاں کاٹا گیا ہے
۔۔۔ راہِ حق پر چلنے والوں کے سر تو کاٹے گئے لیکن یہ شعر کہتا ہے کہ سب کے سب سر کٹے ہیں جو حقیقت کے منافی ہے۔

ترے گلشن میں نہ کیوں ہوں گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
۔۔ پہلا مصرع ترتیب کے اعتبار سے کچا ہے اور پورا شعر معنوی اعتبار سے کمزور۔

سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے کوئی نہ رہنما ہے
۔۔۔ نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے ۔۔۔ بہتر ہوگا۔
یہ رودادِ غزل در اصل فائق
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
۔۔۔۔ غزل کی روداد نہیں،خود غزل کو ہر ٹوٹے ہوئے دل کی صدا کہیے تو کوئی بات بنے ۔۔۔

معذرت ۔۔۔ میری ہر رائے حتمی نہیں ہوسکتی۔ پھر بھی جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ آگے جو آپ کو بہتر لگے !!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اردو شاعری اب آؤٹ آف مضامین ہوگئی ہے۔
اسی لیے میرا زور تو اب خیالی مضامین پر ہے۔
۔۔۔"آؤٹ آف مضامین" تو نہیں ہوئی۔ بس پہلے جتنی مشکل تھی، اب اس سے زیادہ لگتی ہے کیونکہ ہم نے سیکھنا چھوڑ دیا۔
خیالی مضامین پر زور دینے سے بہتر ہوگا کہ اصلاح کا عمل جاری رکھئے۔ بہتری ضرور آئے گی ان شاء اللہ ۔۔۔
 

محمد فائق

محفلین
جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
÷÷ دل خوشیوں کا سرچشمہ نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ خوشی محسوس کرسکتا ہے۔ خوشی کی وجہ دل کا ہونا نہیں ہوتا کہ یہ زندگی کی ایک شرط ہے۔ ایک وجہ ہے۔ یہ اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ یہاں دل سے مراد شاعر کا دل لیا جائے گا اور شاعر کا یہی مقصد ہے۔ دل خوشیوں کا گھر ہوسکتا ہے، گہوارہ ہوسکتا ہے، مسکن بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے دوسرے مصرعے میں آپ نے اسے درد و غم کا مسکن کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔

نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
÷÷÷ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار (اقبال) ۔۔۔ معیار کا لفظ بطور میار استعمال نہیں کیا جاتا۔ ہمدرد ملا کر لکھئے تو زیادہ فصیح ہے۔

جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
۔۔۔۔ وہ ہی کو "وہی" کیا جائے ۔ باقی درست لگتا ہے۔

تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
۔۔۔۔ نا(نفی) کو دو حرفی باندھنا بہت لوگوں نے جائزقرار دیا، لیکن آج تک متفقہ طور پر رد کیا جاتا رہا۔ مجھے خود عجیب لگتا ہے۔ بہتر ہے بدل دیا جائے۔

میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
۔۔۔ اختلاف ہے۔ منصف اگر منافق بھی ہو تو ضروری نہیں کہ فیصلہ غلط کرے۔ انسان غلط اور درست ساتھ ساتھ چلاتا ہے۔ جس کی جہاں ضرورت پڑ جائے۔ ہاں، ملزم سے صفائی طلب کر لی جائے تو دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیرِ قافلہ رہزن ہوا ہے
۔۔۔ کمزور ہے۔ امیر قافلہ رہزن ہو تو منزل تک پہنچنا مشکل نہیں کرتا بلکہ اس سے لوٹ مار کا خدشہ رہتا ہے۔

ہو تم بھی راہِ حق پر کیسے مانوں
تمہارا سر کہاں کاٹا گیا ہے
۔۔۔ راہِ حق پر چلنے والوں کے سر تو کاٹے گئے لیکن یہ شعر کہتا ہے کہ سب کے سب سر کٹے ہیں جو حقیقت کے منافی ہے۔

ترے گلشن میں نہ کیوں ہوں گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
۔۔ پہلا مصرع ترتیب کے اعتبار سے کچا ہے اور پورا شعر معنوی اعتبار سے کمزور۔

سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے کوئی نہ رہنما ہے
۔۔۔ نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے ۔۔۔ بہتر ہوگا۔
یہ رودادِ غزل در اصل فائق
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
۔۔۔۔ غزل کی روداد نہیں،خود غزل کو ہر ٹوٹے ہوئے دل کی صدا کہیے تو کوئی بات بنے ۔۔۔

معذرت ۔۔۔ میری ہر رائے حتمی نہیں ہوسکتی۔ پھر بھی جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ آگے جو آپ کو بہتر لگے !!
جو دل خوشیوں کا گہوارہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
یہ درست رہے گا ؟
بقیہ اشعار درست کر نے کی کوشش کرتا ہوں
اگر قافلے میں رہزنی ہوگی تو ظاہر سی بات ہے منزل تک پہنچنا دشوار ہوگا
اگر منصف نے حق کا ساتھ دیتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا تو وہ منافق نہیں رہے گا اور منافق کبھی حق کا ساتھ نہیں دیتے
اور شعر میں منافق کی بات کی گئی ہے

آپ کے ان دو اعتراضات پر اور وضاحت چاہتا ہوں
معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں میرے ان سوالوں کو تنقیدی طور پر نہ لے میں بس آپ کے اعتراضات کی وضاحت چاہتا ہوں
ویسے میری علم عروض سے نہ کہ برابر آشنائی ہے میں نے ایک آدھ کتاب پڑھ رکھی ہے لیکن کچھ سمجھ نہیں پایا
اسی وجہ سے مرے کلام میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں
 
آخری تدوین:
۔۔۔"آؤٹ آف مضامین" تو نہیں ہوئی۔ بس پہلے جتنی مشکل تھی، اب اس سے زیادہ لگتی ہے کیونکہ ہم نے سیکھنا چھوڑ دیا۔
خیالی مضامین پر زور دینے سے بہتر ہوگا کہ اصلاح کا عمل جاری رکھئے۔ بہتری ضرور آئے گی ان شاء اللہ ۔۔۔
خیالی مضامین میں برائی کیا ہے؟ تمام سبک ہندی کے فارسی شعرا خیال بند مانے جاتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو دل خوشیوں کا گہوارہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
یہ درست رہے گا ؟
بقیہ اشعار درست کر نے کی کوشش کرتا ہوں
اگر قافلے میں رہزنی ہوگی تو ظاہر سی بات ہے منزل تک پہنچنا دشوار ہوگا
اگر منصف نے حق کا ساتھ دیتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا تو وہ منافق نہیں رہے گا اور منافق کبھی حق کا ساتھ نہیں دیتے
اور شعر میں منافق کی بات کی گئی ہے

آپ کے ان دو اعتراضات پر اور وضاحت چاہتا ہوں
معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں میرے ان سوالوں کو تنقیدی طور پر نہ لے میں بس آپ کے اعتراضات کی وضاحت چاہتا ہوں
ویسے میری علم عروض سے نہ کہ برابر آشنائی ہے میں نے ایک آدھ کتاب پڑھ رکھی ہے لیکن کچھ سمجھ نہیں پایا
اسی وجہ سے مرے کلام میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیر قافلہ رہزن ہوا ہے
قافلے میں رہزنی کی بات شعر میں نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اتفاق کرلیتا۔

دوسری جگہ آپ نے منافق کی بات کی۔ وہاں صفائی دینے کی بات ہو رہی تھی جو فرض تھا۔ جب تک فیصلہ نہ ہو، آپ کہہ نہیں سکتے وہ منافقانہ ہے یا برحق۔ شعر میں اسے پہلے ہی منافق کہہ دیا گیا، یوں کہیے کہ وہ اس کی فطرت ہوگی، لیکن میں نے کہا فیصلہ تو ہولینے دیجئے۔ آپ کو صفائی تو دینی ہی پڑے گی۔ لیکن آپ نے فرمایا:
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
اگر آپ ایسا کہیں گے جبکہ آپ پر الزام لگ چکا، آپ کا الزام حقیقت نہ مان لیا جائے، اس کا خدشہ رہے گا۔ یہاں ایک اور بات پریشان کرتی ہے۔ آپ نے کہا "بے گناہی کی صفائی" ۔۔۔ صفائی اپنی دی جاتی ہے، بے گناہی یا گناہ کی ہوتی ہے یا نہیں، تحقیق طلب ہے میرے لیے۔

علم عروض سے میری واقفیت آپ سے کم ہی ہوگی۔ کتابیں نظر سے کچھ گزریں ضرور لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ ہم محض منطق کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ آپ کے اشعار پر بحث شاید مجھے بھی کچھ سکھا دے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خیالی مضامین میں برائی کیا ہے؟ تمام سبک ہندی کے فارسی شعرا خیال بند مانے جاتے ہیں۔
خیالی مضامین اور سبک ہندی کے فارسی شعرا اصل میں ہیں کیا، ہمیں علم ہی نہیں۔ انہیں اچھا یا برا اس لیے نہیں کہا، نہ کہیں گے۔
اگر آپ "آؤٹ آف مضامین" والی بات نہ کرتے تو ہم آپ کو اصلاح کا نہ کہتے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو دل خوشیوں کا گہوارہ رہا ہے​
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے​
یہ درست ہوتا اگر بعض لوگ گہوارہ اور رہا کے "ر" کے آپس میں جڑنے سے عیب تنافر کی شکایت نہ کرتے۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن مطلعے میں نہ ہو تو بہتر ہے۔ الفاظ بہت ہیں ۔۔۔ تھوڑا سا دماغ کو تھکانے اور وقت صرف کرنے کی بات ہے۔​
 
جو دل خوشیوں کا گہوارہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
یہ درست ہوتا اگر بعض لوگ گہوارہ اور رہا کے "ر" کے آپس میں جڑنے سے عیب تنافر کی شکایت نہ کرتے۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن مطلعے میں نہ ہو تو بہتر ہے۔ الفاظ بہت ہیں ۔۔۔ تھوڑا سا دماغ کو تھکانے اور وقت صرف کرنے کی بات ہے۔​
ویسے ر کی تکرار بلا فاصلہ تو نہیں ہے۔ بیچ میں ہ ہے۔
 
خیالی مضامین اور سبک ہندی کے فارسی شعرا اصل میں ہیں کیا، ہمیں علم ہی نہیں۔ انہیں اچھا یا برا اس لیے نہیں کہا، نہ کہیں گے۔
اگر آپ "آؤٹ آف مضامین" والی بات نہ کرتے تو ہم آپ کو اصلاح کا نہ کہتے۔
سبک ہندی کے شعرا عرفی ، نظیری ، بیدل ، جلال اسیر ، شوکت بخاری وغیرہ ہیں۔
خیالی اشعار کچھ اس قسم کے ہونگے جیسے خواجہ نظیری کا شعر ہے

پروانہ ایم و شعلہ بود آشیانِ ما
آب از شرارِ سنگ خورد گلستانِ ما

ہم پروانے ہیں اور شعلہ ہمارا آشیاں ہے۔ پانی ہمارا گلستان سنگ(محبوب) کے شرار سے حاصل کرتا ہے.
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ویسے ر کی تکرار بلا فاصلہ تو نہیں ہے۔ بیچ میں ہ ہے۔
بے شک۔ لیکن وہ صوتی اعتبار سے نہیں ہے۔ جب ہم پڑھتے ہیں تو دونوں "ر" ٹکرا جاتے ہیں۔ اسی کو عیب تنافر مانا جاتا ہے۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں (دُعا کیجئے گا ہم سمجھ گئے ہوں) ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سبک ہندی کے شعرا عرفی ، نظیری ، بیدل ، جلال اسیر ، شوکت بخاری وغیرہ ہیں۔
خیالی اشعار کچھ اس قسم کے ہونگے جیسے خواجہ نظیری کا شعر ہے

پروانہ ایم و شعلہ بود آشیانِ ما
آب از شرارِ سبگ خورد گلستانِ ما

ہم پروانے ہیں اور شعلہ ہمارا آشیاں ہے۔ پانی ہم سنگ(محبوب) کے شرار سے لے کر پیتے ہیں۔
کسی حد تک ہم سمجھے تو ضرور تھے کہ خیالی اشعار کیا ہوتے ہیں۔ لیکن شک اس میں تھا کہ سبک ہندی اور فارسی خلط ملط ہیں۔ اشعار فارسی کے ہوں گے یا ہندی کے؟ یہاں فارسی ہونا پایا گیا۔ سو آپ اردو شاعری چھوڑ کر فارسی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے ان اشعار میں بھی آج کل منطق ضرور دیکھی جاتی ہے۔ فارسی کا پتہ نہیں، اردو میں تو دیکھتے ہیں۔
 
بے شک۔ لیکن وہ صوتی اعتبار سے نہیں ہے۔ جب ہم پڑھتے ہیں تو دونوں "ر" ٹکرا جاتے ہیں۔ اسی کو عیب تنافر مانا جاتا ہے۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں (دُعا کیجئے گا ہم سمجھ گئے ہوں) ۔۔۔
اگر وہ "ہ" دب رہی ہوتی تب تو آپ کی بات درست تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ روانی میں کمی ضرور ہے مگر تنافر اسے غالباََ نہیں کہیں گے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اگر وہ "ہ" دب رہی ہوتی تب تو آپ کی بات درست تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ روانی میں کمی ضرور ہے مگر تنافر اسے غالباََ نہیں کہیں گے۔
اچھا ہے، نہ کہیں ۔۔۔ یہاں "ہ" بنیادی طور پر "الف" کی آواز پیدا کرتی ہے، اسے آواز نہیں سمجھتے۔ محض "ر" کی طوالت محسوس ہوتی ہے۔ انتظار کیجئے۔ شاید کچھ وقت بعد اس ضمن میں ہماری رہنمائی کی جائے۔
 
کسی حد تک ہم سمجھے تو ضرور تھے کہ خیالی اشعار کیا ہوتے ہیں۔ لیکن شک اس میں تھا کہ سبک ہندی اور فارسی خلط ملط ہیں۔ اشعار فارسی کے ہوں گے یا ہندی کے؟ یہاں فارسی ہونا پایا گیا۔ سو آپ اردو شاعری چھوڑ کر فارسی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے ان اشعار میں بھی آج کل منطق ضرور دیکھی جاتی ہے۔ فارسی کا پتہ نہیں، اردو میں تو دیکھتے ہیں۔
خواجہ نظیری کو امیر خسرو کے بعد ہندوستان کا سب سے بڑا غزل گو مانا جاتا ہے۔ خوبصورت تشبیہات ، استعارات ، نازک خیالات ، الفاظ کی مناسبتیں اور حسنِ تعلیل سبک ہندی کی خصوصیات میں سے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔

کیسے کروں شکایتِ آزارِ نقشِ پا
ہر زخمِ دل مرا ہے نمک خوارِ نقشِ پا

اس میں مضمون نیا نہیں ہے۔ مگر لطف یہ ہے کہ جس کا آدمی نمک خوار ہو اس کی شکایت نہیں کرنی چاہیے ۔ اور زخم اور نمک کی مناسبت تو ظاہر ہے۔
 

محمد فائق

محفلین
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیر قافلہ رہزن ہوا ہے
قافلے میں رہزنی کی بات شعر میں نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اتفاق کرلیتا۔

دوسری جگہ آپ نے منافق کی بات کی۔ وہاں صفائی دینے کی بات ہو رہی تھی جو فرض تھا۔ جب تک فیصلہ نہ ہو، آپ کہہ نہیں سکتے وہ منافقانہ ہے یا برحق۔ شعر میں اسے پہلے ہی منافق کہہ دیا گیا، یوں کہیے کہ وہ اس کی فطرت ہوگی، لیکن میں نے کہا فیصلہ تو ہولینے دیجئے۔ آپ کو صفائی تو دینی ہی پڑے گی۔ لیکن آپ نے فرمایا:
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
اگر آپ ایسا کہیں گے جبکہ آپ پر الزام لگ چکا، آپ کا الزام حقیقت نہ مان لیا جائے، اس کا خدشہ رہے گا۔ یہاں ایک اور بات پریشان کرتی ہے۔ آپ نے کہا "بے گناہی کی صفائی" ۔۔۔ صفائی اپنی دی جاتی ہے، بے گناہی یا گناہ کی ہوتی ہے یا نہیں، تحقیق طلب ہے میرے لیے۔

علم عروض سے میری واقفیت آپ سے کم ہی ہوگی۔ کتابیں نظر سے کچھ گزریں ضرور لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ ہم محض منطق کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ آپ کے اشعار پر بحث شاید مجھے بھی کچھ سکھا دے۔
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیر قافلہ رہزن ہوا ہے
قافلے میں رہزنی کی بات شعر میں نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اتفاق کرلیتا۔

دوسری جگہ آپ نے منافق کی بات کی۔ وہاں صفائی دینے کی بات ہو رہی تھی جو فرض تھا۔ جب تک فیصلہ نہ ہو، آپ کہہ نہیں سکتے وہ منافقانہ ہے یا برحق۔ شعر میں اسے پہلے ہی منافق کہہ دیا گیا، یوں کہیے کہ وہ اس کی فطرت ہوگی، لیکن میں نے کہا فیصلہ تو ہولینے دیجئے۔ آپ کو صفائی تو دینی ہی پڑے گی۔ لیکن آپ نے فرمایا:
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
اگر آپ ایسا کہیں گے جبکہ آپ پر الزام لگ چکا، آپ کا الزام حقیقت نہ مان لیا جائے، اس کا خدشہ رہے گا۔ یہاں ایک اور بات پریشان کرتی ہے۔ آپ نے کہا "بے گناہی کی صفائی" ۔۔۔ صفائی اپنی دی جاتی ہے، بے گناہی یا گناہ کی ہوتی ہے یا نہیں، تحقیق طلب ہے میرے لیے۔

علم عروض سے میری واقفیت آپ سے کم ہی ہوگی۔ کتابیں نظر سے کچھ گزریں ضرور لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ ہم محض منطق کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ آپ کے اشعار پر بحث شاید مجھے بھی کچھ سکھا دے۔
رہنمائی کے لیے شکر گزار ہوں آپ کا
اک بار پھر تمام اشعار بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں اگر بات بن گئی تو حاضرِ خدمت کروں گا
 

الف عین

لائبریرین
’گہوارہ رہا‘میں تنافر تو نہیں ہے لیکن نا گوار ضرور ہے کہ روانی مجروح ہے۔
باقی شاہد کے مشورے صائب ہیں
 

محمد فائق

محفلین
’گہوارہ رہا‘میں تنافر تو نہیں ہے لیکن نا گوار ضرور ہے کہ روانی مجروح ہے۔
باقی شاہد کے مشورے صائب ہیں
اک بار پھر اصلاح کے لئے اشعار پیشِ خدمت ہیں اور جن اشعار میں بہتری نہ لاسکا انھے ترک کر دیا

جو دل حر حال میں شاداں رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نہ کہ آئینہ ہے
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
یہاں ہر کوئی میرِ قافلہ ہے
ترے گلشن میں کیوں نہ ہو گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے
رکھوں انصاف کی امید کیونکر
مرا قاتل ہی جب منصف بنا ہے
غزل فائق تیری در حقیقت
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
 
آخری تدوین:
Top