برائے اصلاح

عباد اللہ

محفلین
خواب آنکھوں میں مرتے رہتے ہیں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
کیا غضب ہے کہ ہر گھڑی من میں
غم کے بادل برستے رہتے ہیں
دل سا کافر کہیں نہیں موجود
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں
داد دیجے کہ اس خرابے میں
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں
آگہی سانحہ ہے جس کو ہم
جام کی نذر کرتے رہتے ہیں
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں
کائناتِ خراب حالت میں
لوگ کتنے بہکتے رہتے ہیں
آج بھی شاعری کی صورت میں
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں
رنج کیا ہے کہ ان بہاروں میں
کتنے گلشن اجڑتے رہتے ہیں
اکثر و بیش ہم سے سہل انگار
خود ہی خود سے مکرتے رہتے ہیں
قصد کرتے ہیں شہر کا اور پھر
دشت کی سمت چلتے رہتے ہیں
 

نوید اکرم

محفلین
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں

خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں

واہ واہ کیا بات ہے!
 

شکیب

محفلین
داد دیجے کہ اس خرابے میں
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں
بستے رہتے ہیں کی جگہ"بسے ہوئے ہیں" کا محل ہے۔
آگہی سانحہ ہے جس کو ہم
اس پر فورا کوئی اصلاح سمجھ نہیں آرہی، امید ہے آپ بہتر کر لیں گے۔
دل سا کافر کہیں نہیں موجود
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں
بالکل کلاسک شعر ہوا ہے۔ زبردست۔
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں
بہت خوب۔
 

ابن رضا

لائبریرین
خوب غزل ہے ۔

مطلع میں مرتے اور بنتے قوافی میں روی کا اتحاد نہیں اس لیے قوافی درست نہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مرتے اور بنتے دونوں میں سے کسی ایک کی جگہ پر ایسا لفظ لائیں جس کا آخری حرف "ے" اصلی ہو جیسے مرتے میں "مر" اصلی لفظ ہے ۔جبکہ "تے" ردیف کا حصہ شمار ہوگا۔ اسی طرح باقی اشعار کے قوافی سنتے بگڑتے بستے تکتے وغیرہ بھی درستی چاہتے ہیں کیوں کہ اس صورت میں اگر آپ ے کو روی بنائیں تو باقی سب میں ایطا کا سقم شمار کیا جائے گا۔

یا پھر مرتے کے ساتھ ڈرے ،کرتے ،مکرتے بھرتے ، بکھرتے ، وغیرہ قوافی لائیں
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
خوب غزل ہے ۔

مطلع میں مرتے اور بنتے قوافی میں روی کا اتحاد نہیں اس لیے قوافی درست نہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مرتے اور بنتے دونوں میں سے کسی ایک کی جگہ پر ایسا لفظ لائیں جس کا آخری حرف "ے" اصلی ہو جیسے مرتے میں "مر" اصلی لفظ ہے ۔جبکہ "تے" ردیف کا حصہ شمار ہوگا۔ اسی طرح باقی اشعار کے قوافی سنتے بگڑتے بستے تکتے وغیرہ بھی درستی چاہتے ہیں کیوں کہ اس صورت میں اگر آپ ے کو روی بنائیں تو باقی سب میں ایطا کا سقم شمار کیا جائے گا۔

یا پھر مرتے کے ساتھ ڈرے ،کرتے ،مکرتے بھرتے ، بکھرتے ، وغیرہ قوافی لائیں
سر یہ جالب کی غزل

غزل

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا ، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

حبیب جالب
کی غزل بھی کچھ اسی قسم کی نہیں؟
 
سر یہ جالب کی غزل

غزل

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا ، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

حبیب جالب
کی غزل بھی کچھ اسی قسم کی نہیں؟

جالب کی غزل میں یہ بات نہیں.
بہتے، رہتے، کہتے، سہتے درست قوافی ہیں.
ابنِ رضا بھائی کے مراسلے کو ایک دو مرتبہ مذید پڑھیئے بات واضح ہوجائے گی
 

الف عین

لائبریرین
قوافی غلط ہیں اگرچہ کچھ لوگ انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ جالب کی بجائے بشیر بدر کی غزل انہیں قوافی میں ہے، جس کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ڈوبتے ڈوبتے، دیکھتے دیکھتے، وغیرہ قوافی
وہ تو کہئے کہ ان کو ہنسی آ گئی بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے
والی غزل دیکھیں

بستے رہتے ہیں والی بات شکیب احمد کی درست ہے۔
اس کے علاوہ
کائناتِ خراب حالت میں
کی ترکیب مجہول ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ ہی کچھ وضاحت فرمائیں سر مجھے سمجھ نہیں آئی
جالب صاحب کی غزل میں رہتے سہتے بہتے کہتے قافیہ کیا گیا ہے. اب ان الفاظ کی اصلی حالت دیکھیے وہ ہے رہ ۔ سہہ ۔ بہہ اور کہہ یعنی اس قافیے کا آخری اصلی حرف جسے روی کہا جاتا ہے وہ ہے "ہ" جس کا التزام ہر شعر میں ہے باقی ردیف کا حصہ ہے
 

عباد اللہ

محفلین
اگر مطلع کی قربانی دی جائے اور پہلے مصرعے کو یوں کر لیا جائے ؟
خواب آنکھوں میں جب سے رہتے ہیں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
تو کیا باقی قوافی درست ہو جائیں گے؟
 

ابن رضا

لائبریرین
اگر مطلع کی قربانی دی جائے اور پہلے مصرعے کو یوں کر لیا جائے ؟
خواب آنکھوں میں جب سے رہتے ہیں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
تو کیا باقی قوافی درست ہو جائیں گے؟
قربانی کیوں دیں. سے اور بنتے میں ے روی مانا جائے گا دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں اس لیے اسے مطلع ہی کہا جائے گا. مطلع کی یہ صورت قوافی کے لحاظ سے درست ہے اورباقی قوافی بھی درست شمار ہونگے
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
قربانی کیوں دیں. سے اور بنتے میں ے روی مانا جائے گا دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں اس لیے اسے مطلع ہی کہا جائے گا. مطلع کی یہ صورت درست ہے اورباقی قوافی بھی درست شمار ہونگے
بہتر اب ایک جھنجٹ سے تو جان چھوٹی
اب آتے ہیں
کائناتِ خراب حالت کی ترکیب کے معقول یا مجہول ہونے پر
مجھے تو معقول لگی اسی لئے کہا مجہول ہونے کی کیا وجہ ھے؟
 
Top