برائے اصلاح

سب پوچھتے رہتے ہیں وہ کیسی ہے ؟کہاں ہے؟
بس اتنا بتا دوں میں جہاں ہوں، وہ وہاں ہے

سُکھ چین ہے، دُکھ درد ہے، دولت ہے، مکاں ہے
لاہور کی اک لڑکی مجھے سارا جہاں ہے

یہ زخم ہے کیسا کہ جو بھرتا ہی نہیں ہے
ہم ہو چکے بوڑھے یہ مگر اب بھی جواں ہے

ہائے وہ مِرا دوست، مِری جان، مِرا پیار
جس سَمت بھی جاتے ہیں یہی آہ و فُغاں ہے

جی جان سے چاہو جسے ملتا نہیں ہے وہ
برسوں سے مرے دوست یہی رسم رواں ہے

یعنی کہ تو کرتا ہے گِلے پیٹھ کے پیچھے
یعنی کہ ترے منہ میں منافق کی زباں ہے

محمد آصف میؤ
 
جی جان سے چاہو جسے ملتا نہیں ہے وہ
برسوں سے مرے دوست یہی رسم رواں ہے
باقی اشعار تو میرے خیال میں دُرست ہیں بلکہ اِن میں ندرت یعنی نیاپن ، خیال کی براہِ راست رَو اور لہر یعنی بے ساختگی اور مطلع میں تو زبردست آمد کا اثر ہے مگر یہ شعر اگر یوں کرلیں تومیرے خیال میں بہتر رہے گا:
آپ نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی جان سے چاہو ۔جسے۔ ملتا نہیں ۔ہے۔ وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برسوں سے مرے دوست یہی رسم رواں ہے
جبکہ میرے خیال میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنموں سے مرے دوست یہی رسمِ جہاں ہے
کیوں۔۔۔؟
رسم رواں لفظی تنافر بھی ہے اور رسم کے ساتھ رواں کہنا اضافی بھی لگ رہا ہے اگر ۔’’یہی رسم ہے۔‘‘۔ کہدیں تب بھی بات ہوجاتی ہے مگر آپ نے قافیہ بھی نبھانا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ تو رسم اور جہاں کو مرکب بنالیں تویوں یہ شعرکسی حد تک اِِس عیب سے پاک ہوجاتا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
 
آخری تدوین:
سب پوچھتے رہتے ہیں وہ کیسی ہے ،کہاں ہے؟؟
بس اتنا بتا دوں میں جہاں ہوں، وہ وہاں ہے۔۔واہ!

سُکھ چین ہے، دُکھ درد ہے، دولت ہے، مکاں ہے
لاہور کی اک لڑکی مجھے سارا جہاں ہے۔۔۔۔۔۔واہ۔۔واہ!!

یہ زخم ہے کیسا کہ جو بھرتا ہی نہیں ہے
ہم ہو چکے بوڑھے یہ مگر اب بھی جواں ہے۔۔۔بہت خوب!
’’
ہائے وہ مِرا دوست، مِری جان، مِرا پیار‘‘۔۔۔اِسے کسی کے قول کی طرح انورٹڈ کا ماز میں لے لیں
جس سَمت بھی جاتے ہیں یہی آہ و فُغاں ہے۔۔۔جس سمت میں جاتا ہوں یہی آہ و فغاں ہے/ہر سمت مرے دل میں یہی آہ و فغاں ہے(فاعل نہ ہونے سے شعر کا مفہوم مبہم تھا)

جی جان سے چاہو جسے ملتا نہیں ہے وہ
برسوں سے مرے دوست یہی رسم رواں ہے۔۔آپ کہہ رہے ہیں برسوں سے یہی رسم جاری ہے مگر جاری کے لیے رواں لفظ جچ نہیں رہا جبکہ لانا بھی لازم ہے کہ قافیہ ہے
دوسرے مصرعے میں بہتری کی گنجائش ہے

یعنی کہ تو کرتا ہے گِلے پیٹھ کے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔محاورہ تو پیٹھ پیچھے ہے
یعنی کہ ترے منہ میں منافق کی زباں ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
زخم ہے کیسا کہ جو بھرتا ہی نہیں ہے
ہم ہو چکے بوڑھے یہ مگر اب بھی جواں ہے
دونوں مصرعوں کا اختتام "ہے" ہونے سے تقابل ردیفین کا سقم در آیا ہے
یعنی کہ تو کرتا ہے گِلے پیٹھ کے پیچھے۔
پیٹھ/پشت پہ میری
کہنے میں کیا حرج ہے؟ پیچھے کے بغیر بھی محاورہ درست بن جاتا ہے
 
Top