برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
اپنا دل کیوں خراب کرتے ہیں
آؤ اُن سے خطاب کرتے ہیں

چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں

کیوں کریں بیچ میں انا حائل
گفتگو ہم شتاب کرتے ہیں

حکمرانوں کو گالیاں دے کر
کیوں نہ کار ثواب کرتے ہیں

ہم سے سرزد ہوئی خطا جتنی
آج ان کا حساب کرتے ہیں

عدل کا سر بلند ہو جس سے
مل کے وہ انقلاب کرتے ہیں

زرد کلیوں کو بھی سحر ہم تو
مسکرا کر گلاب کرتے ہیں
 
اپنا دل کیوں خراب کرتے ہیں
آؤ اُن سے خطاب کرتے ہیں

چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ پہلی دفعہ میں مطلب سمجھ میں نہیں آسکا :)
مگر اچھا کہا ہے۔ اگرچہ تھوڑا سا الجھاؤ ہے کیونکہ پہلے مصرعے میں فاعل واضح نہیں، اور دوسرے مصرعے میں ہم مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی اپنی ذات مراد ہے یا وہ جس نے چشمِ قاتل کھول رکھی ہے۔میرے خیال میں اس کو ایسے ہی رہنے دیا جاسکتا ہے۔ یا کچھ یوں
چشمِ قاتل کو کھول کر ان کو
زعم یہ ہے، حجاب کرتے ہیں
جیسا مناسب لگے۔


کیوں کریں بیچ میں انا حائل
گفتگو ہم شتاب کرتے ہیں
شتاب؟؟؟ بھئی ایسے الفاظ سے اجتناب کیا کریں جن کے لئے لغت سے مراجعت کرنا پڑے۔

حکمرانوں کو گالیاں دے کر
کیوں نہ کار ثواب کرتے ہیں
بہت عامیانہ سا شعر ہے، غزل کے ماحول کے موافق بھی نہیں۔ نکال دیں تو بہتر ہے۔

ہم سے سرزد ہوئی خطا جتنی
آج ان کا حساب کرتے ہیں
دوسرے مصرعے میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے، جبکہ پہلے مصرعے میں خطا واحد ہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔
ہم سے سرزد ہوئیں خطائیں جو
آج ان کا ۔۔۔


عدل کا سر بلند ہو جس سے
مل کے وہ انقلاب کرتے ہیں
’’انقلاب کرنا‘‘ کوئی محاورہ نہیں۔ انقلاب برپا یا بپا کیا جاتا ہے، یا لایا جاتا ہے۔

زرد کلیوں کو بھی سحر ہم تو
مسکرا کر گلاب کرتے ہیں
ٹھیک ہے، مگر گلاب تو زرد رنگ کا بھی ہوتا ہے؟ ہوسکتا ہے زرد کلی زرد گلاب کی ہی ہو؟ :)
 

الف عین

لائبریرین
میں نے اصلاح کے ضمن میں جو لکھا تھا، وہ پوسٹ نہیں ہو سکا اور میں اٹھ گیا، اب وہی پوسٹ کر رہا ہوں حالانکہ کچھ باتیں راحل کہہ چکے ہیں۔
اپنا دل کیوں خراب کرتے ہیں
آؤ اُن سے خطاب کرتے ہیں
.... عجز بیان ہے، واضح نہیں کہ کون دل خراب کر رہا ہے اورکس کو بلایا جا رہا ہے؟

چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
.. درست

کیوں کریں بیچ میں انا حائل
گفتگو ہم شتاب کرتے ہیں
... یہ بھی واضح نہیں ہوا، شتاب کے معنی جلدی ہوتے ہیں، شاید کچھ اور سمجھتی ہو بیٹا

حکمرانوں کو گالیاں دے کر
کیوں نہ کار ثواب کرتے ہیں
... کیوں نہ' سے کیا مراد؟
ہم تو کار ثواب... ہو سکتا ہے

ہم سے سرزد ہوئی خطا جتنی
آج ان کا حساب کرتے ہیں
... خطائیں کا محل ہے،
ہم سے سرزد ہوئیں جو ساری خطائیں
سے درست ہو سکتا ہے

عدل کا سر بلند ہو جس سے
مل کے وہ انقلاب کرتے ہیں
.. انقلاب لایا جاتا ہے، کیا نہیں جاتا

زرد کلیوں کو بھی سحر ہم تو
مسکرا کر گلاب کرتے ہیں
... درست ہے اگرچہ گلاب کر دیتے ہیں کا محل ہے
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
عشق میں دل خراب کرتے ہیں
زیست اپنی عذاب کرتے ہیں

یا پھر یہ مطلع۔۔۔۔۔

شربتوں کو شراب کرتے ہیں
بزم میں ہم سراب کرتے ہیں

چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں

زندگی کے تمام گوشوں میں
بہتریں انتخاب کرتے ہیں

ہم سے سرزد ہوئیں خطائیں جو
آج ان کا حساب کرتے ہیں

عدل کا سر بلند ہو جس سے
وہ بپا انقلاب کرتے ہیں

شدّت پیاس سے ہے جاں بیکل
دشت پیدا سراب کرتے ہیں

تم کلی کا ہو ذکر کرتی سحر
خار کو ہم گلاب کرتے ہیں



در اصل میں نے یہ شعر ایسے لکھا تھا ۔

حکمرانوں کو گالیاں دے کر
آؤ کار ثواب کرتے ہیں

بعد میں آؤ کو کیوں نہ سے بدل دیا ۔۔۔اس شکل میں یہ ٹھیک ہے ؟؟مگر چونکہ راحل سر کا مشورہ ہے کی یہ شعر چھوڑ دینا چاہیئے سو میں نے اسے غزل سے باہر کر دیا۔
 
شربتوں کو شراب کرتے ہیں
بزم میں ہم سراب کرتے ہیں
سراب کرنا تو شاید کوئی محاورہ نہیں۔ پہلا والا آپشن ہی ٹھیک ہے۔

زندگی کے تمام گوشوں میں
بہتریں انتخاب کرتے ہیں
بہترین کی ن کے اخفا کی ضرورت نہیں یہاں۔ کون انتخاب کرتا ہے؟ کس چیز کا انتخاب کرتا ہے، یہ واضح نہیں

عدل کا سر بلند ہو جس سے
وہ بپا انقلاب کرتے ہیں
فاعل؟

شدّت پیاس سے ہے جاں بیکل
دشت پیدا سراب کرتے ہیں
عجز بیان ہے۔ اور کے ذریعے عطف کے بغیر مفہوم درست ادا نہیں ہو پائے گا۔
پیاس سے جان جا رہی ہے، اور
دشت پیدا سراب کرتے ہیں
(اگرچہ سراب پیدا کرنا مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے)

تم کلی کا ہو ذکر کرتی سحر
خار کو ہم گلاب کرتے ہیں
پہلے مصرعے میں مجھے تعقید محسوس ہوتی ہے۔
یہ تو کلیاں تھیں بس، سحرؔ ہم تو
خار کو بھی گلاب کرتے ہیں!
 
Top