محمل ابراہیم
لائبریرین
اپنا دل کیوں خراب کرتے ہیں
آؤ اُن سے خطاب کرتے ہیں
چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
کیوں کریں بیچ میں انا حائل
گفتگو ہم شتاب کرتے ہیں
حکمرانوں کو گالیاں دے کر
کیوں نہ کار ثواب کرتے ہیں
ہم سے سرزد ہوئی خطا جتنی
آج ان کا حساب کرتے ہیں
عدل کا سر بلند ہو جس سے
مل کے وہ انقلاب کرتے ہیں
زرد کلیوں کو بھی سحر ہم تو
مسکرا کر گلاب کرتے ہیں
آؤ اُن سے خطاب کرتے ہیں
چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
کیوں کریں بیچ میں انا حائل
گفتگو ہم شتاب کرتے ہیں
حکمرانوں کو گالیاں دے کر
کیوں نہ کار ثواب کرتے ہیں
ہم سے سرزد ہوئی خطا جتنی
آج ان کا حساب کرتے ہیں
عدل کا سر بلند ہو جس سے
مل کے وہ انقلاب کرتے ہیں
زرد کلیوں کو بھی سحر ہم تو
مسکرا کر گلاب کرتے ہیں