برائے اصلاح

Muhammad Ishfaq

محفلین
نعت شریفؑﷺ
مصطفے آ گئے زندگی آ گئی
مرتضٰے آ گئے بندگی آ گئی
سر زمینِ عرب ہو مبارک تجھے
تجھ پہ دنیا کی ہستی بڑی آگئی
مٹ گئے کفر کے تو اندھیرے سبھی
ہر طرف نور کی روشنی آ گئی
ان کی رحمت نے مجھ کو سہارا دیا
میرے سر پہ جو مشکل گھڑی آگئی
مٹ گئے فاصلے اور سکوں ہوگیا
جب تصور میں ان کی گلی آگئی
آپ آئےتو ہر سو بہار آ گئی
سب کے چہرے پہ یارو خوشی آ ٓگئی
جس کے آنے سے آتش کدے بجھ گئے
ابرِ رحمت کی ایسی جھڑی آگئی
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
نعت شریفؑﷺ
مصطفے آ گئے زندگی آ گئی
مرتضٰے آ گئے بندگی آ گئی
سر زمینِ عرب ہو مبارک تجھے
تجھ پہ دنیا کی ہستی بڑی آگئی
مٹ گئے کفر کے تو اندھیرے سبھی
ہر طرف نور کی روشنی آ گئی
ان کی رحمت نے مجھ کو سہارا دیا
میرے سر پہ جو مشکل گھڑی آگئی
مٹ گئے فاصلے اور سکوں ہوگیا
جب تصور میں ان کی گلی آگئی
آپ آئےتو ہر سو بہار آ گئی
سب کے چہرے پہ یارو خوشی آ ٓگئی
جس کے آنے سے آتش کدے بجھ گئے
ابرِ رحمت کی ایسی جھڑی آگئی
 
مکرمی اشفاق صاحب، آداب!

محفل میں خوش آمدید۔

ماشاء اللہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش لائق تحسین ہے، یہ سعادت نصیب والوں کو ملتی ہے۔

مصطفے آ گئے زندگی آ گئی
مرتضٰے آ گئے بندگی آ گئی

مطلع کے قوافی درست نہیں ہیں۔ زندگی اور بندگی کو بطور قافیہ جمع کرنے میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ یہاں مشترک حروف سے ماقبل کے حروف کی حرکات مختلف ہیں۔ زندگی میں ز مکسور ہے جبکہ بندگی میں ب مفتوح۔ قافیہ قائم کرنے کے لئے مشترک حروف سے پہلے کے حروف کی حرکات کا ایک جیسا ہونا لازم ہوتا ہے۔ گویا زندگی کے ساتھ شرمندگی تو قافیہ آسکتا ہے، بندگی نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مطلعے کے دونوں مصارع میں "ندگی" پر ختم ہونے والے قوافی جمع کریں گے تو باقی اشعار میں بھی اسی روش کی پابندی کرنا پڑے گی۔ یعنی اگر مطلعے میں زندگی اور شرمندگی قوافی ہوں، باقی اشعار میں گلی، خوشی، گھڑی وغیرہ قافیہ نہیں ہوسکتے۔
اس کے علاوہ آپ نے دوسرے مصرعے میں مرتضی باندھا ہے بو عرف میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا لقب مشہور ہے۔ اس کی جگہ آپ اسی وزن پر مجتبی (صلی اللہ علیہ وسلم) لا سکتے ہیں۔

مصطفی ﷺ آگئے، زندگی آگئی
سینۂ ارض پر ہر خوشی آگئی


سر زمینِ عرب ہو مبارک تجھے
تجھ پہ دنیا کی ہستی بڑی آگئی
"ہستی بڑی آگئی" کہنا فصاحت کے خلاف ہے۔ اصولا شعر میں الفاظ کی ترتیب ویسی ہی ہونی چاہیئے جیسے نثر میں لکھا جاتا ہو۔ درست ترتیب یوں ہوگی " بڑی ہستی آگئی"۔
سرزمین عرب ہو مبارک تجھے

مٹ گئے کفر کے تو اندھیرے سبھی
ہر طرف نور کی روشنی آگئی
پہلے مصرعے میں "تو" بھرتی کا ہے، اس طرح کے حشو و زوائد سے احتراز کرنا چاہیئے۔
ہوگئیں دور سب کفر کی۔ظلمتیں
ہر طرف نور ہے، روشنی آگئی

ان کی رحمت نے مجھ کو سہارا دیا
میرے سر پہ جو مشکل گھڑی آگئی
دوسرے مصرعے میں "جو" سے " جب کبھی" کا مفہوم ادا نہیں ہورہا۔
ان کی رحمت ہمیشہ سہارا بنی
جب کبھی سر پہ مشکل گھڑی آگئی

مٹ گئے فاصلے اور سکوں ہوگیا
جب تصور میں ان کی گلی آگئی
"سکوں ہوگیا" کہنا درست نہیں، سکون ملا کرتا ہے۔
مٹ گئے فاصلے، پرسکوں دل ہوا
جب تصور میں ۔۔۔ الخ

آپ آئےتو ہر سو بہار آ گئی
سب کے چہرے پہ یارو خوشی آ ٓگئی
یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا عیب در آیا ہے۔ مطالع کے علاوہ کسی شعر کے شعر پہلے مصرعے میں ردیف کا آنا مستحسن نہیں ہوتا۔
دوسرے یہ کہ پہلے الگ الگ ہستیوں سے تخاطب کیا جارہا ہے، جو کہ ٹھیک نہیں۔
مزید یہ "سب کے چہرے" کے بجائے "سب کے چہروں" کہنا چاہیئے۔
ان کے آنے سے ہرسو ہے چھائی بہار
سب کے چہروں پہ ۔۔۔ الخ

جس کے آنے سے آتش کدے بجھ گئے
ابرِ رحمت کی ایسی جھڑی آگئی
ٹھیک ہے۔

دعاگو،
راحل۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
بہت بہت شکریہ سر جی۔آپ نے بڑے اچھے انداز میں ہر شعر کے متعلق راہنمائی فرمائی۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
اے قائد ہمارے اے قائد ہمارے
بڑے لطف وکرم ہیں سر پر ہمارے
کیا ایسے ملت مسلم کو یک جا
بدل ڈالے تاریخ کے تو نے دھارے
ہے کی تو نے ایسی قیادت ہماری
کہ ہو ئے سبھی ہیں وارے نیارے
جو دامن ہمارا نہ تو تھام لیتا
نہ ملتے کسی کو کہیں سے سہارے
پیارا وطن ایک تعمیر کرکے
کہ ڈوبی ہوئی کشتی لائی کنارے
رہے سایہءرحمت مرقد پہ ان کی
چلو شاکی دعا کریں مل کے سارے
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
اے قائد ہمارے اے قائد ہمارے
بڑے لطف وکرم ہیں سر پر ہمارے
کیا ایسے ملت مسلم کو یک جا
بدل ڈالے تاریخ کے تو نے دھارے
ہے کی تو نے ایسی قیادت ہماری
کہ ہو ئے سبھی ہیں وارے نیارے
جو دامن ہمارا نہ تو تھام لیتا
نہ ملتے کسی کو کہیں سے سہارے
پیارا وطن ایک تعمیر کرکے
کہ ڈوبی ہوئی کشتی لائی کنارے
رہے سایہءرحمت مرقد پہ ان کی
چلو شاکی دعا کریں مل کے سارے
اصلاح کے لیے حاضر ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ 'غزل' کسی بحر میں نہیں لگتی۔ کچھ مصرعے فعولن چار بار میں تقطیع ہوتے ہیں، سارے مصرع ایک نئے دھاگے میں پوسٹ کریں

طریقہ یہ بہتر ہے کہ ایک دھاگا ایک ہی تخلیق کے لیے مخصوص رکھا جائے
پہلی غزل میں عزیزی راحل نے مکمل مصرع خود کہہ کر غزل مکمل کر دی، ورنہ یہ بہتر تھا کہ اغلاط کی نشاندہی کی جائے اور شاعر پر چھور دیا جائے کہ وہ مذکورہ اغلاط دور کر کے پھر پوسٹ کرے مزید اصلاح کے لئے۔ اور جب تک کہ وہ غزل فائنل نہ ہو جائے، اس میں تبدیلیاں جاری رہیں، اور دھاگا بھی جاری رہے۔ پھر دوسری نئی غزل ایک نئے دھاگے میں پوسٹ کی جائے
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
یہ 'غزل' کسی بحر میں نہیں لگتی۔ کچھ مصرعے فعولن چار بار میں تقطیع ہوتے ہیں، سارے مصرع ایک نئے دھاگے میں پوسٹ کریں

طریقہ یہ بہتر ہے کہ ایک دھاگا ایک ہی تخلیق کے لیے مخصوص رکھا جائے
پہلی غزل میں عزیزی راحل نے مکمل مصرع خود کہہ کر غزل مکمل کر دی، ورنہ یہ بہتر تھا کہ اغلاط کی نشاندہی کی جائے اور شاعر پر چھور دیا جائے کہ وہ مذکورہ اغلاط دور کر کے پھر پوسٹ کرے مزید اصلاح کے لئے۔ اور جب تک کہ وہ غزل فائنل نہ ہو جائے، اس میں تبدیلیاں جاری رہیں، اور دھاگا بھی جاری رہے۔ پھر دوسری نئی غزل ایک نئے دھاگے میں پوسٹ کی جائے
الف عین صاحب ! آداب عرض ہے۔ یہ نظم ’’فعولن فعولن فعولن فعولن کی بحر میں کہی ہے۔ اگر کہیں فرق ہے تو راہنمائی فرمادیں۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
الف عین صاحب ! آداب عرض ہے۔ یہ نظم ’’فعولن فعولن فعولن فعولن کی بحر میں کہی ہے۔ اگر کہیں فرق ہے تو راہنمائی فرمادیں۔ شکریہ
محض تین چار مصرعے ہی درست تقطیع ہوتے ہیں اس بحر میں ۔ شاید تقطیع سیکھنے کی ضرورت ہے
 
کیا ایک شعر کئی بحور میں ہو سکتا ہے؟
آپ کا سوال مبہم ہے۔
ایسا اتفاقاً ہوسکتا ہے کہ کوئی مصرعہ یا شعر بیک وقت دو مختلف بحروں میں تقطیع ہورہا ہو۔
تاہم ایک غزل یا نظم میں کسی ایک مخصوص بحر کی پابندی ضروری ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ شعر کا ایک مصرع ہزج میں ہو اور دوسرا رمل میں۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
آپ کا سوال مبہم ہے۔
ایسا اتفاقاً ہوسکتا ہے کہ کوئی مصرعہ یا شعر بیک وقت دو مختلف بحروں میں تقطیع ہورہا ہو۔
تاہم ایک غزل یا نظم میں کسی ایک مخصوص بحر کی پابندی ضروری ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ شعر کا ایک مصرع ہزج میں ہو اور دوسرا رمل میں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا ایک شعر دو بحروں میں تقطیع ہو سکتا ہے؟
 
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا ایک شعر دو بحروں میں تقطیع ہو سکتا ہے؟
جی نہیں، ایک شعر کے دونوں مصرعوں کا ایک ہی بحر میں موزوں ہونا لازمی ہے۔
کچھ بحور میں آخری رکن میں ایک ساکن حرف کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ مثلاً
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
کو
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان
کیا جاسکتا ہے، مگر اس طریقے میں بحر وہی رہتی ہے۔ یہ عروضی بحث ہے جو تفصیلی مطالعہ مانگتی ہے۔
 

Muhammad Ishfaq

محفلین
مکرمی اشفاق صاحب، آداب!

محفل میں خوش آمدید۔

ماشاء اللہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش لائق تحسین ہے، یہ سعادت نصیب والوں کو ملتی ہے۔



مطلع کے قوافی درست نہیں ہیں۔ زندگی اور بندگی کو بطور قافیہ جمع کرنے میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ یہاں مشترک حروف سے ماقبل کے حروف کی حرکات مختلف ہیں۔ زندگی میں ز مکسور ہے جبکہ بندگی میں ب مفتوح۔ قافیہ قائم کرنے کے لئے مشترک حروف سے پہلے کے حروف کی حرکات کا ایک جیسا ہونا لازم ہوتا ہے۔ گویا زندگی کے ساتھ شرمندگی تو قافیہ آسکتا ہے، بندگی نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مطلعے کے دونوں مصارع میں "ندگی" پر ختم ہونے والے قوافی جمع کریں گے تو باقی اشعار میں بھی اسی روش کی پابندی کرنا پڑے گی۔ یعنی اگر مطلعے میں زندگی اور شرمندگی قوافی ہوں، باقی اشعار میں گلی، خوشی، گھڑی وغیرہ قافیہ نہیں ہوسکتے۔
اس کے علاوہ آپ نے دوسرے مصرعے میں مرتضی باندھا ہے بو عرف میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا لقب مشہور ہے۔ اس کی جگہ آپ اسی وزن پر مجتبی (صلی اللہ علیہ وسلم) لا سکتے ہیں۔

مصطفی ﷺ آگئے، زندگی آگئی
سینۂ ارض پر ہر خوشی آگئی



"ہستی بڑی آگئی" کہنا فصاحت کے خلاف ہے۔ اصولا شعر میں الفاظ کی ترتیب ویسی ہی ہونی چاہیئے جیسے نثر میں لکھا جاتا ہو۔ درست ترتیب یوں ہوگی " بڑی ہستی آگئی"۔
سرزمین عرب ہو مبارک تجھے


پہلے مصرعے میں "تو" بھرتی کا ہے، اس طرح کے حشو و زوائد سے احتراز کرنا چاہیئے۔
ہوگئیں دور سب کفر کی۔ظلمتیں
ہر طرف نور ہے، روشنی آگئی


دوسرے مصرعے میں "جو" سے " جب کبھی" کا مفہوم ادا نہیں ہورہا۔
ان کی رحمت ہمیشہ سہارا بنی
جب کبھی سر پہ مشکل گھڑی آگئی


"سکوں ہوگیا" کہنا درست نہیں، سکون ملا کرتا ہے۔
مٹ گئے فاصلے، پرسکوں دل ہوا
جب تصور میں ۔۔۔ الخ


یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا عیب در آیا ہے۔ مطالع کے علاوہ کسی شعر کے شعر پہلے مصرعے میں ردیف کا آنا مستحسن نہیں ہوتا۔
دوسرے یہ کہ پہلے الگ الگ ہستیوں سے تخاطب کیا جارہا ہے، جو کہ ٹھیک نہیں۔
مزید یہ "سب کے چہرے" کے بجائے "سب کے چہروں" کہنا چاہیئے۔
ان کے آنے سے ہرسو ہے چھائی بہار
سب کے چہروں پہ ۔۔۔ الخ


ٹھیک ہے۔

دعاگو،
راحل۔[/QUOTE
 
آخری تدوین:

Muhammad Ishfaq

محفلین
مکرمی اشفاق صاحب، آداب!

محفل میں خوش آمدید۔

ماشاء اللہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش لائق تحسین ہے، یہ سعادت نصیب والوں کو ملتی ہے۔



مطلع کے قوافی درست نہیں ہیں۔ زندگی اور بندگی کو بطور قافیہ جمع کرنے میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ یہاں مشترک حروف سے ماقبل کے حروف کی حرکات مختلف ہیں۔ زندگی میں ز مکسور ہے جبکہ بندگی میں ب مفتوح۔ قافیہ قائم کرنے کے لئے مشترک حروف سے پہلے کے حروف کی حرکات کا ایک جیسا ہونا لازم ہوتا ہے۔ گویا زندگی کے ساتھ شرمندگی تو قافیہ آسکتا ہے، بندگی نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مطلعے کے دونوں مصارع میں "ندگی" پر ختم ہونے والے قوافی جمع کریں گے تو باقی اشعار میں بھی اسی روش کی پابندی کرنا پڑے گی۔ یعنی اگر مطلعے میں زندگی اور شرمندگی قوافی ہوں، باقی اشعار میں گلی، خوشی، گھڑی وغیرہ قافیہ نہیں ہوسکتے۔
اس کے علاوہ آپ نے دوسرے مصرعے میں مرتضی باندھا ہے بو عرف میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا لقب مشہور ہے۔ اس کی جگہ آپ اسی وزن پر مجتبی (صلی اللہ علیہ وسلم) لا سکتے ہیں۔

مصطفی ﷺ آگئے، زندگی آگئی
سینۂ ارض پر ہر خوشی آگئی



"ہستی بڑی آگئی" کہنا فصاحت کے خلاف ہے۔ اصولا شعر میں الفاظ کی ترتیب ویسی ہی ہونی چاہیئے جیسے نثر میں لکھا جاتا ہو۔ درست ترتیب یوں ہوگی " بڑی ہستی آگئی"۔
سرزمین عرب ہو مبارک تجھے


پہلے مصرعے میں "تو" بھرتی کا ہے، اس طرح کے حشو و زوائد سے احتراز کرنا چاہیئے۔
ہوگئیں دور سب کفر کی۔ظلمتیں
ہر طرف نور ہے، روشنی آگئی


دوسرے مصرعے میں "جو" سے " جب کبھی" کا مفہوم ادا نہیں ہورہا۔
ان کی رحمت ہمیشہ سہارا بنی
جب کبھی سر پہ مشکل گھڑی آگئی


"سکوں ہوگیا" کہنا درست نہیں، سکون ملا کرتا ہے۔
مٹ گئے فاصلے، پرسکوں دل ہوا
جب تصور میں ۔۔۔ الخ


یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا عیب در آیا ہے۔ مطالع کے علاوہ کسی شعر کے شعر پہلے مصرعے میں ردیف کا آنا مستحسن نہیں ہوتا۔
دوسرے یہ کہ پہلے الگ الگ ہستیوں سے تخاطب کیا جارہا ہے، جو کہ ٹھیک نہیں۔
مزید یہ "سب کے چہرے" کے بجائے "سب کے چہروں" کہنا چاہیئے۔
ان کے آنے سے ہرسو ہے چھائی بہار
سب کے چہروں پہ ۔۔۔ الخ


ٹھیک ہے۔

دعاگو،
راحل۔
 
آخری تدوین:

Muhammad Ishfaq

محفلین
نعت شریفؑﷺ
مصطفے آ گئے زندگی آ گئی
سینہ ارض پر ہر خوشی آ گئی
سر زمینِ عرب ہو مبارک تجھے
تجھ پہ دنیا کی ہستی بڑی آگئی
ہو گئیں دور سب کفر کی ظلمتیں
ہر طرف نور ہے ، روشنی آ گئی
ان کی رحمت ہمیشہ سہارا بنی
جب کبھی سر پہ مشکل گھڑی آ گئی
مٹ گئے فاصلے پر سکوں دل ہوا
جب تصور میں ان کی گلی آگئی
ان کے آنے سے ہر سو ہے چھائی بہار
سب کے چہروں پہ یارو خوشی آ گئی
جس کے آنے سے آتش کدے بجھ گئے
ابر رحمت کی ایسی جھڑی آ گئی

آپ کی راہنمائی کے بعد حاضر ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہر طرف نور کی روشنی آ گئی؟
نور کے معنی ہی روشنی کے ہیں، مصرع بدل دو
بعد میں دیکھا کہ راحل نے 'ہر طرف نور ہے، روشنی...' کا مشورہ دیا تھا۔ باقی نے ان کے مشورے مان ہی لیے ہیں، اس کو کیوں نہیں مانا گیا!
باقی ٹھیک ہے
 
Top