برائے اصلاح

اس غزل میں ردیف "نا ہے" قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ استاذہ کرام برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
نیز اور کوئی خرابی ہو تو وہ بھی بتا دیں



صدا بلبل کی نا ہو جس میں وہ گلزار نا ہے
نہیں ہے فصلِ گل جب دل بے برگ و بار نا ہے

نہ پگھلائے جو پتھر وہ نہیں فریاد میری
لہو گرما نہ دے جو وہ مری گفتار نا ہے

کہ کشتہ جبکہ میرا دل نگاہِ ناز کا ہے
تو کیسے مان لوں وہ آنکھ ہے تلوار نا ہے

بنا لیتا ہوں میں تو قافیے دشنوں سے اسکے
غرض دشنامِ جاناں بھی کوئی بیکار نا ہے

ابھی تیغِ نگاہِ یار سے جاری ہیں جنگیں
ابھی تک زلفِ جاناں بر سرِ پیکار نا ہے

ہیں محفل میں رقیبوں کو بصد منت بٹھاتے
ہمیں کہتے ہیں بیٹھو پر کوئی اصرار نا ہے

ابھی تو عشق کے صدموں کا بس آغاز ہے یہ
کہ چشمِ تر بہاتی اشک ہے خوں بار نا ہے

بہار آئی ہے ساقی نے ہے میخانہ سجایا
مگر بے لطف ہے وہ شخص جو میخوار نا ہے

ہیں غمزے اور عشوے اور جانے کیا ادائیں
عدو اتنے میسر دل کو اک ہتھیار نا ہے


ابھی تک وہ نگاہیں شان خوابیدہ ہیں۔ یعنی
ابھی ہیں دفن مٹکے مے ابھی تیار نا ہے
 

الف عین

لائبریرین
نا ہے تو بے معنی ہے۔ ہے نا! استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے اشعار کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا
 
Top