افاعیل ----- فعولن فعولن فعولن فعولن
------------------------
میں تجھ سے ہی میرے خدا مانگتا ہوں
کسی سے نہ تیرے سِوا مانگتا ہوں

عطا کر مجھے تُو جو میرے لئے ہو
میں تجھ سے سدا یہ دعا مانگتا ہوں

نبی کے طریقے پہ چلنا ہے مجھ کو
نبی سے ہی یا رب وفا مانگتا ہوں

بچا لے مجھے تُو ہی اپنے غضب سے
بھلی ہو جو بھی وہ ادا مانگتا ہوں

نہیں مانگتا میں حریری لباس
جو عذْت کی ہو وہ ردا مانگتا ہوں

ہے ارشد کو مطلوب تیری رضا ہی
تجھی سے میں تیری رضا مانگتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
نبی کے طریقے پہ چلنا ہے مجھ کو
نبی سے ہی یا رب وفا مانگتا ہوں

بچا لے مجھے تُو ہی اپنے غضب سے
بھلی ہو جو بھی وہ ادا مانگتا ہوں
بس یہ دو اشعار بدلنے کی ضرورت ہے، حریری لباس کے علاوہ۔
نبی سے وفا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یا خدا سے دعا کی جا رہی ہے کہ میں نبی کا وفادار رہوں؟ الفاظ سے پہلے معنی نکلتے ہیں۔
'جو بھی' کا 'جبی' تقطیع ہونا درست نہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بس یہ دو اشعار بدلنے کی ضرورت ہے، تحریری لباس کے علاوہ۔
نبی سے وفا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے یا خدا سے دعا کی جا رہی ہے کہ میں نبی کا وفادار رہوں؟ الفاظ سے پہلے معنی نکلتے ہیں۔
'جو بھی' کا 'جبی' تقطیع ہونا درست نہیں
کیا لباس حریر والے مصرع کا وزن جائز حدود ہے ؟
 
تبدیلیوں کے بعد دوبارا حاضرِ خدمت
-------------------------
افاعیل ---- فعولن فعولن فعولن فعولن
--------------------
میں تجھ سے ہی اے میرے خدا ماگتا ہوں
کسی سے نہ تیرے سِوا مانتا ہوں

عطا کر مجھے تُو جو میرے لئے ہو
میں تجھ سے دعا یہ سدا مانگتا ہوں

سکھا دے مجھے تُو نبی کا طریقہ
یہ تجھ سے اے میرے خدا مانگتا ہوں

بچانا مجھے تُو ہی اپنے غضب سے
میں بخشش کی تجھ سے دعا مانتا ہوں

نہیں مانگتا میں لباسِ حریری
جو عزّت کی ہو وہ ردا مانگتا ہوں

ہوئی روح بیمار اور جسم دونوں
میں دونوں کی تجھ سے شِفا مانگتا ہوں

ہے جذبوں میں یا رب محبّت تو تیری
میں جذبوں میں اپنے جِلا مانگتا ہوں

تجھے یاد کرنے میں جو بھی کمی تھی
میں یا رب اب اُن کی قضا مانگتا ہوں

ہے ارشد کو مطلوب تیری رضا ہی
میں تجھہ سے تیری رضا مانگتا ہوں --تجھی سے میں تیری عطا مانگتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں 'اے' کا اضافہ غلط ہے۔ نئے اشعار
ہوئی روح بیمار اور جسم دونوں
میں دونوں کی تجھ سے شِفا مانگتا ہوں
۔۔ٹھیک
ہے جذبوں میں یا رب محبّت تو تیری
میں جذبوں میں اپنے جِلا مانگتا ہوں
۔۔۔اس شعر کو نکال ہی دو۔ مفہوم بے معنی ہے

تجھے یاد کرنے میں جو بھی کمی تھی
میں یا رب اب اُن کی قضا مانگتا ہوں
۔۔قضا؟ معنی موت۔ شاید یہ مراد ہو کہ جس طرح فوت شدہ نمازوں کی قضا کچھ لوگ پڑھتے ہیں، یا چھوٹے ہوئے روزوں کو مکمل کرتے ہوئے قضا روزے رکھے جاتے ہیں
لیکن یہ خود کوئی محاورہ نہیں کہ یاد یا ذکر کی قضا کی جائے۔ قضا سے مراد موت ہی لیا جائے گا، جو اصل معنی ہیں۔

ہے ارشد کو مطلوب تیری رضا ہی
میں تجھہ سے تیری رضا مانگتا ہوں
--تجھی سے میں تیری عطا مانگتا ہوں
۔۔دوسرا مصرع بہتر ہے
 
شکریہ جنابِ محترم--اے کا اضافہ نکال دیا دونوں اشعار بھی بھی نکال دیئے باقی کو محفوظ کر لیتا ہوں ۔ قضا کو فرایض کی قضا کی طرح لیا تھا ۔ یعنی پہلے جو یاد میں کمی تھی اب پوری کروں گا ۔بحرحال ان دونوں اشعار کی جگہ دوسرے لکھے تو بتا دوں گا۔-- ایک بار پھر شکریہ
 
Top