برائے اصلاح - ہجر کے لمحے محبت کی سزا بن کر ملے

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے۔

ہجر کے لمحے محبت کی سزا بن کر ملے
جس طرح آنسو ہمیں غم کی دوا بن کر ملے

ملحدوں جیسا نہ ہو کیوں اُس موحد کا مزاج؟
جس کو ہر انسان دنیا میں خدا بن کر ملے

اُنؓ کی عظمت پر ملائک رشک کرتے ہیں جنھیں
دولَت ایماں محمدؐ کی دعا بن کر ملے

آئینے میں عکس اپنا دیکھ کر دل نے کہا
اجنبی کیسے کسی سے آشنا بن کر ملے

اس گھڑی قربت کے لمحے یاد کر لینا ذرا
جب ہمارے بیچ رنجش فاصلہ بن کر ملے

روشنی کیسے چراغِ آرزو کی ہو وہاں
یاس کا سایا جہاں پر حادثہ بن کر ملے

نسبتیں محبوبؐ کے قدموں سے جس کو مل گئیں
اس چمن کے خار بھی پھر خوشنما بن کر ملے

ہاتھ میں سگریٹ پکڑائی جنھوں نے فلسفیؔ
وہ پرانے دوست بھی اب پارسا بن کر ملے​
 
ملحدوں جیسا نہ ہو کیوں اُس موحد کا مزاج؟
جس کو ہر انسان دنیا میں خدا بن کر ملے​
بہت افسوس ناک حقیقت کا اظہار بہت سادہ مگر انتہائی جاندار انداز میں کیا ہے.
کاش! لوگوں کی رسائی ان انسان بن کر رہنے والے انسانوں تک بھی ہو جائے، جو گوشہ نشینی کی زندگیاں گزار رہے ہیں. جن کے دم قدم میں کارخانۂ عالم کی بقا کا راز مضمر ہے.
 
آخری تدوین:
ہجر کے لمحے محبت کی سزا بن کر ملے
جس طرح آنسو ہمیں غم کی دوا بن کر ملے​
لڑی کے عنوان کے احترام میں ایک گزارش بھی کرتا چلوں.
"طرح" کی "ر" میرے خیال میں ساکن ہے. اگر میرا خیال درست ہے تو وزن کی صحت خطرے میں ہے. اس کی بحالی پر غور کیا جا سکتا ہے.
"فاصلہ" اور "حادثہ" کی دیگر قافیوں سے مماثلت بھی زیر بحث لائی جا سکتی ہے.
 
آخری تدوین:
حسبِ روایت بہت خوبصورت----حادثہ--فاصلہ صوتی لحاظ سے ٹھیک ہیں اور استاد شعرا نے ایسے قافیے استمال کئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مجھے تو کوئی غلطی نظر نہیں آئی، سوائے اس شک کے
جس کو ہر انسان دنیا میں خدا بن کر ملے
شاید 'جس سے' محاورہ درست ہو گا، لیکن تنافر بھی پیدا ہو جائے گا
 

فلسفی

محفلین
مجھے تو کوئی غلطی نظر نہیں آئی، سوائے اس شک کے
جس کو ہر انسان دنیا میں خدا بن کر ملے
شاید 'جس سے' محاورہ درست ہو گا، لیکن تنافر بھی پیدا ہو جائے گا
بہت شکریہ سر، "جس کو" بھی ہمارے ہاں تو بولا جاتا ہے۔ ممکن ہے جیسا آپ نے فرمایا کہ محاورتا درست نہیں۔ محاورے کی غلطی سے بہتر ہے کہ تنافر کو قبول کر لیا جائے۔ "جس سے" ہی کردیتا ہوں۔
 
لڑی کے عنوان کے احترام میں ایک گزارش بھی کرتا چلوں.
"طرح" کی "ر" میرے خیال میں ساکن ہے. اگر میرا خیال درست ہے تو وزن کی صحت خطرے میں ہے. اس کی بحالی پر غور کیا جا سکتا ہے.
"فاصلہ" اور "حادثہ" کی دیگر قافیوں سے مماثلت بھی زیر بحث لائی جا سکتی ہے.
طرح کے دونوں اوزان مستعمل ہیں
ہ پر ختم ہونے والے ایسے الفاظ جن کی اختتامی آواز الف کی ہو، وہ الف کے ساتھ قافیہ کے طور پر لائے جا سکتے ہیں۔
 
طرح کے دونوں اوزان مستعمل ہیں
ہ پر ختم ہونے والے ایسے الفاظ جن کی اختتامی آواز الف کی ہو، وہ الف کے ساتھ قافیہ کے طور پر لائے جا سکتے ہیں۔
گزارش برائے تحقیق۔۔۔ ’’طرح‘‘ میں ر پر زبر کی کوئی مثال استاد شعراء کے کلام سے مل سکے تو مزید اطمینان کا باعث ہو گی۔
 
Top