برائے اصلاح"کنجِ زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں"

یہ الگ بات حصارِ در و دیوار نہیں
کنجِ زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں
بر سرِ دار بھی کہہ دیں گے جو حق بات ہوئی
ہم کسی ظالم و جابر کے طرفدار نہیں
کیوں ہنسے ہے مری صد چاک قبا پر دنیا
میری محرومی تو محرومئ کردار نہیں
تم جو آؤ تو سرِ راہ بچھا دیں پلکیں
تم نہ آؤ تو ہمیں اس پہ بھی تکرار نہیں
عمرِ دو روزہ ہی مشکل سے بسر ہونی ہے
میں کسی چشمۂ حیواں کا طلب گار نہیں

شکریہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان ، ٹیگ کرنے کا شکریہ! اچھی غزل ہے ۔ خوب!
آپ اردو محفل پر اس وقت نسبتاً کہیں بہتر غزل کہہ رہے ہیں ۔ نہ صرف مضامین اچھے ہیں بلکہ زبان و بیان بھی نسبتاً پختہ ہے اور روایتی غزل کا اسلوب بھی نظر آتا ہے ۔ اگر آپ نے محنت کی تو اچھی شاعری زیادہ دور نہیں ۔
ایک دو نکات میں بطور رہنمائی عرض کردیتا ہوں ۔
یہ الگ بات حصارِ در و دیوار نہیں
کنجِ زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں
اچھا شعر ہے !کنجِ زنداں کے بجائے "کسی زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں" زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ بیانیہ محاورے کے مطابق ہے ۔
ویسے تو یہ کہا جائے گا کہ جدا کے بجائے اگر کسی طرح " مختلف" لاسکیں تو بہتر ہوگا۔ کہنے کو تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ" مختلف قید سے یہ شہرِ ستم گار نہیں "یا "قید سے مختلف اب شہرِ ستم گار نہیں" لیکن ان کی نسبت جدا والی بندش زیادہ چست ہے ۔ چنانچہ ایسی صورت میں شاعر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ مصرع کی بہتر بندش اور روانی کو ترجیح دے یا پھر بہتر معنی والے لفظ کو رکھے ۔ چونکہ شعر کے سیاق و سباق میں لفظ "جدا" سے بھی مفہوم پوری طرح بیان ہورہا ہے اسلئے بہتر ہے کہ اسے برقرار رکھا جائے ۔
بر سرِ دار بھی کہہ دیں گے جو حق بات ہوئی
ہم کسی ظالم و جابر کے طرفدار نہیں

یہ شعر بس ٹھیک ہے ۔ طرفدار ہونے کے بجائے خائف ہونے کا محل ہے یہاں ۔
کیوں ہنسے ہے مری صد چاک قبا پر دنیا
میری محرومی تو محرومئ کردار نہیں
ہنسے ہے معروف اور فصیح زبان نہیں ۔ یہ پرانی زبان ہے اور انتہائی مجبوری کی حالت میں استعمال کرنا چاہئے ( یعنی اگر اس کے بغیر کوئی اچھا شعر ضائع ہورہا ہو)۔ یہ مصرع پیرایہ بدل کر کہئے ۔ مثلاً:
خندہ زن کیوں ہے مرے چاکِ قبا پر دنیا
دوسرا مصرع بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ قبا کے چاک ہونے کا محرومی سے کیا تعلق ہے؟! اگر مراد اسبابِ دنیا سے محرومی کی ہے تو پھر پہلے مصرع میں اس محرومی سے متعلق کوئی بات کیجئے ۔ لیکن اگر یوں ہی کہنا ہے تو پھر اس طرح کی بات کیجئے کہ پہلے مصرع سے ربط برقرار رہے ۔ مثلاً:
خندہ زن کیوں ہے مرے چاکِ قبا پر دنیا
چاک داماں ہوں مگر مفلسِ کردار نہیں

جو آؤ تو سرِ راہ بچھا دیں پلکیں
تم نہ آؤ تو ہمیں اس پہ بھی تکرار نہیں
دوسرے مصرع میں "اس پہ بھی تکرار نہیں" کا کوئی محل نہیں ہے ۔ یہ بیان تب درست ہوتا جب شعر میں کسی اور بات پر بھی تکرار کا ذکر ہوتا ۔ اسے یوں کر کے دیکھ لیجئے:
تم جو آؤ تو سرِ راہ بچھا دیں پلکیں
تم نہ آؤ تو ہمیں بھی کوئی اصرار نہیں
ویسے اس شعر میں جمع متکلم کے بجائے واحد متکلم کا صیغہ نسبتاً کچھ بہتر لگے گا ۔ تم جوآؤ تو سرِ راہ بچھادوں پلکیں ۔۔۔ تم نہ آؤ تو مجھے بھی کوئی اصرار نہیں
لیکن یہ فیصلہ کرنا آپ کے اپنے ذوق پر ہے ۔ اور اس بات پر بھی منحصر ہے کہ اس شعرمیں تم سے مراد محبوب ہے یا کسی اور شخص کی بات ہورہی ہے ۔

دو روزہ ہی مشکل سے بسر ہونی ہے
میں کسی چشمۂ حیواں کا طلب گار نہیں
بسر ہونی ہے اردو کا روزمرہ نہیں ہے ، اہلِ پنجاب کا اسلوب ہے ۔ کوشش کیجئے کہ غزل میں معیاری اور فصیح زبان استعمال ہو ۔ شعر کا خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ مبہم ہے ۔ اسے عام فہم زبان کے اسلوب کے مطابق کیجئے ۔ یعنی بات ایسے بیان کیجئے جیسے عام طور پر نثر میں کہی جاتی ہے۔ مثلاً:
عمرِ دو روزہ ہی کٹ جائے غنیمت ہے بہت
میں کسی چشمۂ حیواں کا طلب گار نہیں
یا کوئی اور انداز اختیار کیجئے ۔

ریحان ، امید ہے کہ آپ میری ان باتوں کو مثبت انداز میں لیں گے۔
 
ریحان ، ٹیگ کرنے کا شکریہ! اچھی غزل ہے ۔ خوب!
آپ اردو محفل پر اس وقت نسبتاً کہیں بہتر غزل کہہ رہے ہیں ۔ نہ صرف مضامین اچھے ہیں بلکہ زبان و بیان بھی نسبتاً پختہ ہے اور روایتی غزل کا اسلوب بھی نظر آتا ہے ۔ اگر آپ نے محنت کی تو اچھی شاعری زیادہ دور نہیں ۔
ایک دو نکات میں بطور رہنمائی عرض کردیتا ہوں ۔

اچھا شعر ہے !کنجِ زنداں کے بجائے "کسی زنداں سے جدا شہرِ ستم گار نہیں" زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ بیانیہ محاورے کے مطابق ہے ۔
ویسے تو یہ کہا جائے گا کہ جدا کے بجائے اگر کسی طرح " مختلف" لاسکیں تو بہتر ہوگا۔ کہنے کو تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ" مختلف قید سے یہ شہرِ ستم گار نہیں "یا "قید سے مختلف اب شہرِ ستم گار نہیں" لیکن ان کی نسبت جدا والی بندش زیادہ چست ہے ۔ چنانچہ ایسی صورت میں شاعر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ مصرع کی بہتر بندش اور روانی کو ترجیح دے یا پھر بہتر معنی والے لفظ کو رکھے ۔ چونکہ شعر کے سیاق و سباق میں لفظ "جدا" سے بھی مفہوم پوری طرح بیان ہورہا ہے اسلئے بہتر ہے کہ اسے برقرار رکھا جائے ۔


یہ شعر بس ٹھیک ہے ۔ طرفدار ہونے کے بجائے خائف ہونے کا محل ہے یہاں ۔

ہنسے ہے معروف اور فصیح زبان نہیں ۔ یہ پرانی زبان ہے اور انتہائی مجبوری کی حالت میں استعمال کرنا چاہئے ( یعنی اگر اس کے بغیر کوئی اچھا شعر ضائع ہورہا ہو)۔ یہ مصرع پیرایہ بدل کر کہئے ۔ مثلاً:
خندہ زن کیوں ہے مرے چاکِ قبا پر دنیا
دوسرا مصرع بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ قبا کے چاک ہونے کا محرومی سے کیا تعلق ہے؟! اگر مراد اسبابِ دنیا سے محرومی کی ہے تو پھر پہلے مصرع میں اس محرومی سے متعلق کوئی بات کیجئے ۔ لیکن اگر یوں ہی کہنا ہے تو پھر اس طرح کی بات کیجئے کہ پہلے مصرع سے ربط برقرار رہے ۔ مثلاً:
خندہ زن کیوں ہے مرے چاکِ قبا پر دنیا
چاک داماں ہوں مگر مفلسِ کردار نہیں


دوسرے مصرع میں "اس پہ بھی تکرار نہیں" کا کوئی محل نہیں ہے ۔ یہ بیان تب درست ہوتا جب شعر میں کسی اور بات پر بھی تکرار کا ذکر ہوتا ۔ اسے یوں کر کے دیکھ لیجئے:
تم جو آؤ تو سرِ راہ بچھا دیں پلکیں
تم نہ آؤ تو ہمیں بھی کوئی اصرار نہیں
ویسے اس شعر میں جمع متکلم کے بجائے واحد متکلم کا صیغہ نسبتاً کچھ بہتر لگے گا ۔ تم جوآؤ تو سرِ راہ بچھادوں پلکیں ۔۔۔ تم نہ آؤ تو مجھے بھی کوئی اصرار نہیں
لیکن یہ فیصلہ کرنا آپ کے اپنے ذوق پر ہے ۔ اور اس بات پر بھی منحصر ہے کہ اس شعرمیں تم سے مراد محبوب ہے یا کسی اور شخص کی بات ہورہی ہے ۔


بسر ہونی ہے اردو کا روزمرہ نہیں ہے ، اہلِ پنجاب کا اسلوب ہے ۔ کوشش کیجئے کہ غزل میں معیاری اور فصیح زبان استعمال ہو ۔ شعر کا خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ مبہم ہے ۔ اسے عام فہم زبان کے اسلوب کے مطابق کیجئے ۔ یعنی بات ایسے بیان کیجئے جیسے عام طور پر نثر میں کہی جاتی ہے۔ مثلاً:
عمرِ دو روزہ ہی کٹ جائے غنیمت ہے بہت
میں کسی چشمۂ حیواں کا طلب گار نہیں
یا کوئی اور انداز اختیار کیجئے ۔

ریحان ، امید ہے کہ آپ میری ان باتوں کو مثبت انداز میں لیں گے۔
آپ کے قیمتی مشوروں کے لیے میں آپ کا مشکور ہوں
 
Top