برائے اصلاح و تنقید (غزل 50)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
حال اربابِ اثر تک پہنچے
بھیک پھر کاسۂِ سر تک پہنچے

عشق جب ہاتھ میں تیشہ پکڑے
بات اعجازِ ہنر تک پہنچے

چار تنکے ہیں مرا سرمایہ
یہ صدا برق و شرر تک پہنچے

چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے

بجھ گیا دیکھ چراغِ سحری
قافلے شب کے سحر تک پہنچے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل۔ بس یہ عجز بیان کا شکار ہے
چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
قطرہ جو ٹپکے" کا مطلب پہلے مصرع میں 'قطرہ' لانے سے درست ظاہر ہوتا ہے۔ یوں بھی چشم مونث ہے، صدف کی چشم تر ہونا چاہیے
 

امان زرگر

محفلین
درست ہے غزل۔ بس یہ عجز بیان کا شکار ہے
چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
قطرہ جو ٹپکے" کا مطلب پہلے مصرع میں 'قطرہ' لانے سے درست ظاہر ہوتا ہے۔ یوں بھی چشم مونث ہے، صدف کی چشم تر ہونا چاہیے
سر چشمِ تر کو صدف کہا ہے کہ چشمِ تر کے(کی) صدف سے جو قطرہ ٹپکتا ہے اس کا رتبہ گہر تک جا پہنچتا ہے۔

یا مفہوم بدل دیں تو ان اشکال کو بھی دیکھ لیں۔۔۔۔

چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
یا
چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
قطرہ رتبے میں گہر تک پہنچے
یا
چشمِ پرنم سے صدف کی صورت
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
سر چشمِ تر کو صدف کہا ہے کہ چشمِ تر کے(کی) صدف سے جو قطرہ ٹپکتا ہے اس کا رتبہ گہر تک جا پہنچتا ہے۔

یا مفہوم بدل دیں تو ان اشکال کو بھی دیکھ لیں۔۔۔۔

چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
یا
چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
قطرہ رتبے میں گہر تک پہنچے
یا
چشمِ پرنم سے صدف کی صورت
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے
گستاخی معاف
قطرہ گہر تب بنتا ہے جب صدف میں ٹپکتا ہے، یہ بات کسی بھی مصرعے سے ظاہر نہیں ہو رہی ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
گستاخی معاف
قطرہ گہر تب بنتا ہے جب صدف میں ٹپکتا ہے، یہ بات کسی بھی مصرعے سے ظاہر نہیں ہو رہی ہے۔
جناب گہر بننے کی بات ہی نہیں یہاں۔
( آنسو کا) قطرہ جب چشمِ تر کے صدف(مؤنث سیپ، مذکر سیپ کی شکل کا ایک پیالہ) سے ٹپکتا ہے تو (اس کا) رتبہ گہر تک جا پہنچتا ہے(مطلب آنسو انمول ہوتا ہے)
 

عظیم

محفلین
جناب گہر بننے کی بات ہی نہیں یہاں۔
( آنسو کا) قطرہ جب چشمِ تر کے صدف(مؤنث سیپ، مذکر سیپ کی شکل کا ایک پیالہ) سے ٹپکتا ہے تو (اس کا) رتبہ گہر تک جا پہنچتا ہے(مطلب آنسو انمول ہوتا ہے)
کیا صرف 'صدف' سے ٹپکنے کی وجہ سے قطرہ گہر کا رتبہ پا رہا ہے ؟ مجھے اس بات کی کمی لگی کہ اس قطرہ کا بہت خاص ہونا کہیں سے ظاہر نہیں ہوتا، صرف چشمِ تر کو صدف کہا گیا ہے ؟ اگر اس کے ٹپکنے کی وجہ بھی بیان کی جائے، یعنی کسی کا دکھ دیکھ کر جو آنسو گرتا ہے وہ گہر کا رتبہ رکھتا ہے وغیرہ، آپ کے بیاں کردہ مضمون میں 'گہر کے رتبے کو کیوں پہنچتا ہے، وہ قطرہ، اس بات کی کمی سی ہے ۔
 

امان زرگر

محفلین
کیا صرف 'صدف' سے ٹپکنے کی وجہ سے قطرہ گہر کا رتبہ پا رہا ہے ؟ مجھے اس بات کی کمی لگی کہ اس قطرہ کا بہت خاص ہونا کہیں سے ظاہر نہیں ہوتا، صرف چشمِ تر کو صدف کہا گیا ہے ؟ اگر اس کے ٹپکنے کی وجہ بھی بیان کی جائے، یعنی کسی کا دکھ دیکھ کر جو آنسو گرتا ہے وہ گہر کا رتبہ رکھتا ہے وغیرہ، آپ کے بیاں کردہ مضمون میں 'گہر کے رتبے کو کیوں پہنچتا ہے، وہ قطرہ، اس بات کی کمی سی ہے ۔
جی عظیم بھائی درست فرمایا آپ نے اس طرف توجہ نہیں گئی۔ بہتری لانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
 

امان زرگر

محفلین
کیا صرف 'صدف' سے ٹپکنے کی وجہ سے قطرہ گہر کا رتبہ پا رہا ہے ؟ مجھے اس بات کی کمی لگی کہ اس قطرہ کا بہت خاص ہونا کہیں سے ظاہر نہیں ہوتا، صرف چشمِ تر کو صدف کہا گیا ہے ؟ اگر اس کے ٹپکنے کی وجہ بھی بیان کی جائے، یعنی کسی کا دکھ دیکھ کر جو آنسو گرتا ہے وہ گہر کا رتبہ رکھتا ہے وغیرہ، آپ کے بیاں کردہ مضمون میں 'گہر کے رتبے کو کیوں پہنچتا ہے، وہ قطرہ، اس بات کی کمی سی ہے ۔
چشمِ تر کے جو صدف سے پئے غم
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے

کچھ یوں صورت ترتیب پا سکتی ہے۔۔
 

امان زرگر

محفلین
...
حال اربابِ اثر تک پہنچے
بھیک پھر کاسۂِ سر تک پہنچے

عشق جب ہاتھ میں تیشہ پکڑے
بات اعجازِ ہنر تک پہنچے

چار تنکے ہیں مرا سرمایہ
یہ صدا برق و شرر تک پہنچے

لمس کو تیرے بدن یوں ترسے
ابتلا قلب و جگر تک پہنچے

بجھ گیا دیکھ چراغِ سحری
قافلے شب کے سحر تک پہنچے
 

امان زرگر

محفلین
سر چشمِ تر کو صدف کہا ہے کہ چشمِ تر کے(کی) صدف سے جو قطرہ ٹپکتا ہے اس کا رتبہ گہر تک جا پہنچتا ہے۔

یا مفہوم بدل دیں تو ان اشکال کو بھی دیکھ لیں۔۔۔۔

چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
یا
چشمِ تر سے جو صدف کی ٹپکے
قطرہ رتبے میں گہر تک پہنچے
یا
چشمِ پرنم سے صدف کی صورت
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے
سر الف عین
 
Top