برائے اصلاح: ندی میں چاند اترتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں

عاطف ملک

محفلین
ایک غلطی سی سرزد ہوئی ہے!
اساتذہ کرام کی خدمت میں پوسٹ مارٹم کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں‫‫‫‫‫‫‫‫‫‫‫

فلک پر راج کرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
ندی میں چاند اترتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
کسی کو دیکھ کر، سن کر، کسی سے گفتگو کر کے
کوئی چہرہ نکھرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
کسی کے ساتھ ساری زندگی خوش رہنے کے سپنے
کوئی آنکھوں میں بھرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
تمہارا دوست جس کو تم بہت معصوم کہتے ہو
ہماری بات کرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
وہ جس پر خود سے بھی بڑھ کر بھروسہ تھا کیا میں نے
وہ باتوں سے مکرتا ہے ، تو میں مغموم ہوتا ہوں
خیال آئے اگر کہ اس کو بھی شاید کوئی غم ہے
مگر کہنے سے ڈرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
کسی ہرجائی کی خاطر یوں شب بھر جاگنے والا
پتنگا جل کے مرتا ہے، ، تو میں مغموم ہوتا ہوں
فقط اپنی حماقت سے، بھنور میں گر کے بھی کوئی
وہاں سےبچ نکلتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
میں وہ عاطف ہوں جس کو تازگی بالکل نہیں بھاتی
کہیں گلشن سنورتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فقط اپنی حماقت سے، بھنور میں گر کے بھی کوئی
وہاں سےبچ نکلتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
اس کا قافیہ بدل گیا ہے۔ اس شعر کو نکال دیں۔ باقی اشعار میں قوافی، مرتا، کرتا ہوں، ہیں

کسی ہرجائی کی خاطر یوں شب بھر جاگنے والا
پتنگا جل کے مرتا ہے، ، تو میں مغموم ہوتا ہوں
یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
باقی درست ہے
 

عاطف ملک

محفلین
فقط اپنی حماقت سے، بھنور میں گر کے بھی کوئی
وہاں سےبچ نکلتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
اس کا قافیہ بدل گیا ہے۔ اس شعر کو نکال دیں۔ باقی اشعار میں قوافی، مرتا، کرتا ہوں، ہیں
باقی درست ہے
استادِ محترم!
ایسے کر دوں اس شعر کو؟
فقط اپنی حماقت سے، بھنور میں گر کے بھی کوئی
کِنارے پر اُبھرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
 

عاطف ملک

محفلین
کسی ہرجائی کی خاطر یوں شب بھر جاگنے والا
پتنگا جل کے مرتا ہے، ، تو میں مغموم ہوتا ہوں
یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
سر!
پتنگے کی قسمت میں ہی شمع(محبوب) پر قرباں ہونا لکھا ہے،لیکن جب ایسا ہوتا ہے،تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اک ہرجائی کی خاطر اس نے اپنی جان قربان کر دی۔۔۔۔۔۔میرے ذہن میں تو کچھ ایسا ہی خیال تھا۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
استادِ محترم!
ایسے کر دوں اس شعر کو؟
فقط اپنی حماقت سے، بھنور میں گر کے بھی کوئی
کِنارے پر اُبھرتا ہے، تو میں مغموم ہوتا ہوں
اس کے مضمون میں کوئی شاعرانہ معنوی پہلو بھی لانا ہوگا۔ ورنہ بہت سپاٹ محسوس ہوگا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سر!
میری کم علمی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی وضاحت تو کیجیے گا
میرا مطلب ہے کہ اس شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔یہ کہ اگر کوئی اپنی حماقت سے بھنور میں گر کر کنارے پر ابھر تا ہے تو شاعر مغموم ہوجاتا ہے۔ گویا شاعر یہ چاہتا ہے کہ ابھنے والا کیوں ابھرا۔
اگر یہی مضمون ہے تو اس میں شاعری یا شعریت کاعنصر کہاں ہے۔بعض اوقات مضمون اگر کمزور بھی ہو تو اسلوب میں شعریت کا سہارا لیا جاتا ہے۔سو اس شعر کا خیال اور بیان سپاٹ محسوس ہوا۔اگر آپ متفق نہیں تو اس کو ذاتی رائے سمجھ کر نظر انداز کر سکتے ہیں۔آداب
 

عاطف ملک

محفلین
میرا مطلب ہے کہ اس شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔یہ کہ اگر کوئی اپنی حماقت سے بھنور میں گر کر کنارے پر ابھر تا ہے تو شاعر مغموم ہوجاتا ہے۔ گویا شاعر یہ چاہتا ہے کہ ابھنے والا کیوں ابھرا۔
اگر یہی مضمون ہے تو اس میں شاعری یا شعریت کاعنصر کہاں ہے۔بعض اوقات مضمون اگر کمزور بھی ہو تو اسلوب میں شعریت کا سہارا لیا جاتا ہے۔سو اس شعر کا خیال اور بیان سپاٹ محسوس ہوا۔اگر آپ متفق نہیں تو اس کو ذاتی رائے سمجھ کر نظر انداز کر سکتے ہیں۔آداب
بہت نوازش سر!
دراصل مِری شاعری سے واقفیت واجبی سی ہے۔اس لیے شاعری کی اصطلاحات کا پتا نہیں چلتا۔آپ جیسے کرم فرماؤں کی رہنمائی میں کافی باتیں سیکھی ہیں اور اس سلسلے کو اِسی طرح جاری رکھنا چاہتا ہوں۔
السلام علیکم!
 
Top