برائے اصلاح ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

نوید ناظم

محفلین
دیکھیے اس کو' کہاں تک جائے گی
یہ نظر اب آسماں تک جائے گی

جس جگہ پَر جلتے ہوں جبریل کے
یہ محبت تو وہاں تک جائے گی

بات چل نکلی ہے یارو برق پر
بات میرے آشیاں تک جائے گی

یہ کہانی ہے ہمارے پیار کی
یہ تو خلقت کی زباں تک جائے گی

بات جب نکلے گی میرے قتل کی
تیرے پیروں کے نشاں تک جائے گی

داستانِ عشق میں آئے گا ہجر
جب کہانی درمیاں تک جائے گی

اس اداسی نے کہاں جانا ہے اور
یہ تو بس میرے مکاں تک جائے گی

راکھ کا اک ڈھیر ہو گا دیکھنا
میری آہِ دل جہاں تک جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
یکھیے اس کو' کہاں تک جائے گی
یہ نظر اب آسماں تک جائے گی
۔۔درست

جس جگہ پَر جلتے ہوں جبریل کے
یہ محبت تو وہاں تک جائے گی
÷÷پہلا مصرع روانی متاثر ہے، جلتے ‘ کی ’ے‘ کے اسقاط کی وجہ سے
پر جہاں جبریل کے جل جائیں گے
یا اس قسم کا کچھ مصرع زیادہ بہتر ہو گا۔

بات چل نکلی ہے یارو برق پر
بات میرے آشیاں تک جائے گی
÷÷دونوں مصرعوں میں ’بات‘ کی تکرار ہے۔ دوسرے صرع میں تبدیلی کریں، جیسے ’اب تو میرے آشیاں۔۔۔‘

یہ کہانی ہے ہمارے پیار کی
یہ تو خلقت کی زباں تک جائے گی
۔۔اس میں بھی ’یہ‘ کی تکرار۔

بات جب نکلے گی میرے قتل کی
تیرے پیروں کے نشاں تک جائے گی
۔۔درست

داستانِ عشق میں آئے گا ہجر
جب کہانی درمیاں تک جائے گی
÷÷یہ شعر سمجھ می نہیں آیا۔ واضح کرو۔

اس اداسی نے کہاں جانا ہے اور
یہ تو بس میرے مکاں تک جائے گی
÷÷ ’نے جانا ہے‘ پنجابی کا طرز بیان ہے، اردو کا نہیں۔

راکھ کا اک ڈھیر ہو گا دیکھنا
میری آہِ دل جہاں تک جائے گی
۔۔درست، پہلا مصرع زیادہ چست نہیں۔
 

نوید ناظم

محفلین
یکھیے اس کو' کہاں تک جائے گی
یہ نظر اب آسماں تک جائے گی
۔۔درست

جس جگہ پَر جلتے ہوں جبریل کے
یہ محبت تو وہاں تک جائے گی
÷÷پہلا مصرع روانی متاثر ہے، جلتے ‘ کی ’ے‘ کے اسقاط کی وجہ سے
پر جہاں جبریل کے جل جائیں گے
یا اس قسم کا کچھ مصرع زیادہ بہتر ہو گا۔

بات چل نکلی ہے یارو برق پر
بات میرے آشیاں تک جائے گی
÷÷دونوں مصرعوں میں ’بات‘ کی تکرار ہے۔ دوسرے صرع میں تبدیلی کریں، جیسے ’اب تو میرے آشیاں۔۔۔‘

یہ کہانی ہے ہمارے پیار کی
یہ تو خلقت کی زباں تک جائے گی
۔۔اس میں بھی ’یہ‘ کی تکرار۔

بات جب نکلے گی میرے قتل کی
تیرے پیروں کے نشاں تک جائے گی
۔۔درست

داستانِ عشق میں آئے گا ہجر
جب کہانی درمیاں تک جائے گی
÷÷یہ شعر سمجھ می نہیں آیا۔ واضح کرو۔

اس اداسی نے کہاں جانا ہے اور
یہ تو بس میرے مکاں تک جائے گی
÷÷ ’نے جانا ہے‘ پنجابی کا طرز بیان ہے، اردو کا نہیں۔

راکھ کا اک ڈھیر ہو گا دیکھنا
میری آہِ دل جہاں تک جائے گی
۔۔درست، پہلا مصرع زیادہ چست نہیں۔
بہت شکریہ سر۔۔۔۔
اشعار کو حکم کے مطابق ڈھالا ہے' دیکھیے گا۔۔۔

جس جگہ جلتے ہیں پر جبریل کے
یہ محبت تو وہاں تک جائے گی

بات چل نکلی ہے یارو برق پر
اب یہ میرے آشیاں تک جائے گی

یہ کہانی ہے ہمارے پیار کی
دیکھ خلقت کی زباں تک جائے گی

یہ اداسی اور جائے گی کہاں
دیکھنا میرے مکاں تک جائے گی

پھر وہاں تک راکھ ہو گی دیکھنا
میری آہِ دل جہاں تک جائے گی

داستانِ عشق میں آئے گا ہجر
جب کہانی درمیاں تک جائے گی
÷÷یہ شعر سمجھ می نہیں آیا۔ واضح کرو۔
سر اس میں تو صرف یہ کہا تھا کہ عشق کی داستان جو چل رہی ہے جب یہ کہانی درمیان میں پہنچ جائے گی پھر اس کے اندر ہجر آ جائے گا۔
 

عاطف ملک

محفلین
جس جگہ جلتے ہیں پر جبریل کے
یہ محبت تو وہاں تک جائے گی

بات چل نکلی ہے یارو برق پر
اب یہ میرے آشیاں تک جائے گی

یہ اداسی اور جائے گی کہاں
دیکھنا میرے مکاں تک جائے گی
بہت ہی عمدہ نوید بھائی!
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
سر اس میں تو صرف یہ کہا تھا کہ عشق کی داستان جو چل رہی ہے جب یہ کہانی درمیان میں پہنچ جائے گی پھر اس کے اندر ہجر آ جائے گا۔
درمیان میں پہنچنا کوئی محاورہ نہیں۔ یوں بھی کہانی کہاں تک چلے گی، جب اس کا یقین نہ ہو تو کس طرح اس کا درمیانی نقطہ مقرر کیا جا سکتا ہے؟ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب یہ کہانی کچھ آگے بڑھے گی تو اس میں ہجر بھی آ جائے گا۔ لیکن اس غزل میں تو قافیہ ہی یہ ’دریاں‘ ہی ہے۔ اس شعر کو نکال ہی دو۔ اس خیال کو کسی اور غزل میں کہو، اگر اتنا پسند ہی ہے تو!
 

نوید ناظم

محفلین
درمیان میں پہنچنا کوئی محاورہ نہیں۔ یوں بھی کہانی کہاں تک چلے گی، جب اس کا یقین نہ ہو تو کس طرح اس کا درمیانی نقطہ مقرر کیا جا سکتا ہے؟ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب یہ کہانی کچھ آگے بڑھے گی تو اس میں ہجر بھی آ جائے گا۔ لیکن اس غزل میں تو قافیہ ہی یہ ’دریاں‘ ہی ہے۔ اس شعر کو نکال ہی دو۔ اس خیال کو کسی اور غزل میں کہو، اگر اتنا پسند ہی ہے تو!
ٹھیک سر' اس شعر کو نکال دیا ہے۔
 
Top