برائے اصلاح : غزل ۔۔۔ محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا۔ از : محمد ذیشان نصر ؔ

متلاشی

محفلین
اپنی تازہ غزل بغرض اصلاح پیشِ خدمت ہے ۔۔۔۔!​
محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا​
جو کچھ ہو گا، محبت سے نہ ہرگز ہی سوا ہو گا​
جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں​
نہ جانے راز آخر کب زمانے پر یہ وا ہو گا​
محبت اک حقیقت ہے ، محبت اک عبادت ہے​
یہی فرمان ہے رب کا ، کہیں تم نے سنا ہو گا​
محبت کی حقیقت تم کو میں بتلاؤں کیا یارو!​
سبھی معلوم ہے تم کو ، سبھی تم نے پڑھا ہو گا​
نہ مرنے کا ہے غم مجھ کو ، نہ جینے کی تمناہے​
عجب ہی بے قراری ہے ، نہ جانے آگے کیا ہو گا​
ہمیں تو ہے یقیں کامل ترے اقرارِ الفت کا​
کیا تھا تم نے جو وعدہ کبھی تو وہ وفا ہو گا​
یہی اعجازِ الفت ہے ذرا سن غور سے ذیشان​
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز ہی فنا ہو گا !​
محمد ذیشان نصر​
 

الف عین

لائبریرین
محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا
جو کچھ ہو گا، محبت سے نہ ہرگز ہی سوا ہو گا

//’جکچ‘ اچھا نہیں لگتا۔ اور اسی طرح ‘ہر گز ہی‘ بھی پسند نہیں آیا
جو ہو گا، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا

جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں
نہ جانے راز آخر کب زمانے پر یہ وا ہو گا

// نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا
زیادہ رواں ہو گا۔

محبت اک حقیقت ہے ، محبت اک عبادت ہے
یہی فرمان ہے رب کا ، کہیں تم نے سنا ہو گا
//شعر تو درست ہے، لیکن بات غلط ہے۔ قرآن کریم میں ایسا کچھ تو نہیں ہے!!

محبت کی حقیقت تم کو میں بتلاؤں کیا یارو!
سبھی معلوم ہے تم کو ، سبھی تم نے پڑھا ہو گا

// تمہیں معلوم ہو گا ہی، سبھی تم نے پڑھا ہو گا
زیادہ رواں مصرع ہو گا۔

نہ مرنے کا ہے غم مجھ کو ، نہ جینے کی تمناہے
عجب ہی بے قراری ہے ، نہ جانے آگے کیا ہو گا
// عجب ’ہی‘ بے قراری ہے؟؟
’عجب سی‘، یا ’عجب اک‘ بہتر ہو گا۔

ہمیں تو ہے یقیں کامل ترے اقرارِ الفت کا
کیا تھا تم نے جو وعدہ کبھی تو وہ وفا ہو گا
//یہاں صیغے کی پرابلم ہے۔ پہلے مصرع میں تو، دوسرے میں تم۔ آسانی سے تم کی جگہ تو‘ لایا جا سکتا ہے۔

یہی اعجازِ الفت ہے ذرا سن غور سے ذیشان
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز ہی فنا ہو گا !
//’ ہی‘ اچھا نہیں لگتا ہے ہر گز کے ساتھ۔
یہ جذبہ ایسا جذبہ ہے نہیں ہر گز فنا ہو گا !
 

متلاشی

محفلین
محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا
جو کچھ ہو گا، محبت سے نہ ہرگز ہی سوا ہو گا

//’جکچ‘ اچھا نہیں لگتا۔ اور اسی طرح ‘ہر گز ہی‘ بھی پسند نہیں آیا
جو ہو گا، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا

جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں
نہ جانے راز آخر کب زمانے پر یہ وا ہو گا

// نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا
زیادہ رواں ہو گا۔

محبت اک حقیقت ہے ، محبت اک عبادت ہے
یہی فرمان ہے رب کا ، کہیں تم نے سنا ہو گا
//شعر تو درست ہے، لیکن بات غلط ہے۔ قرآن کریم میں ایسا کچھ تو نہیں ہے!!

محبت کی حقیقت تم کو میں بتلاؤں کیا یارو!
سبھی معلوم ہے تم کو ، سبھی تم نے پڑھا ہو گا

// تمہیں معلوم ہو گا ہی، سبھی تم نے پڑھا ہو گا
زیادہ رواں مصرع ہو گا۔

نہ مرنے کا ہے غم مجھ کو ، نہ جینے کی تمناہے
عجب ہی بے قراری ہے ، نہ جانے آگے کیا ہو گا
// عجب ’ہی‘ بے قراری ہے؟؟
’عجب سی‘، یا ’عجب اک‘ بہتر ہو گا۔

ہمیں تو ہے یقیں کامل ترے اقرارِ الفت کا
کیا تھا تو نے جو وعدہ کبھی تو وہ وفا ہو گا
//یہاں صیغے کی پرابلم ہے۔ پہلے مصرع میں تو، دوسرے میں تم۔ آسانی سے تم کی جگہ تو‘ لایا جا سکتا ہے۔

یہی اعجازِ الفت ہے ذرا سن غور سے ذیشان
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز ہی فنا ہو گا !
//’ ہی‘ اچھا نہیں لگتا ہے ہر گز کے ساتھ۔
یہ جذبہ ایسا جذبہ ہے نہیں ہر گز فنا ہو گا !
استاذ گرامی ذرا اب دیکھئے ۔۔۔!

محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا
جو ہو گا ، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا

جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں
نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا

جو ہیں اہلِ جنوں واقف ہیں اسرارِ محبت سے
بھلا اہلِ خرد پر راز کیوں کر یہ کھلا ہو گا

نہ مرنے کا ہے غم مجھ کو ، نہ جینے کی تمنا ہے
عجب اک بے قراری ہے نہ جانے آگے کیا ہو گا

نہ چکر میں تو پڑ اس کے کہ یوں ہو گا تو کیا ہوگا ؟
ارے ہو گا وہی آخر ، جو منظورِ خدا ہوگا

ہمیں تو ہے یقیں کامل ترے اقرارِ الفت کا
کیا تھا تو نے جو وعدہ کبھی تو وہ وفا ہو گا

یہی اعجازِ الفت ہے ذرا سن غور سے ذیشان
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز پھر فنا ہو گا ÷ یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو کبھی بھی نہ فنا ہو گا

(سرخ رنگ والے نئے شعر ہیں )
 

الف عین

لائبریرین
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز پھر فنا ہو گا
اور
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو کبھی بھی نہ فنا ہو گا

میں پہلا بہتر ہے، دوسرے میں ’نہ‘ درست نہیں آتا۔
نئے اشعار میں پہلا تو اچھا ہے۔ دوسرے کا اضافہ کیوں؟ یہ تو وہی بات ہے جو مشہور عام شعر ہے نہ جانے کس کا
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
اس مزیز مطلع کی ضرورت نہیں ہے۔
باقی درست ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اپنی تازہ غزل بغرض اصلاح پیشِ خدمت ہے ۔۔۔۔!

محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا
جو کچھ ہو گا، محبت سے نہ ہرگز ہی سوا ہو گا

جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں
نہ جانے راز آخر کب زمانے پر یہ وا ہو گا

محبت اک حقیقت ہے ، محبت اک عبادت ہے
یہی فرمان ہے رب کا ، کہیں تم نے سنا ہو گا

محبت کی حقیقت تم کو میں بتلاؤں کیا یارو!
سبھی معلوم ہے تم کو ، سبھی تم نے پڑھا ہو گا

نہ مرنے کا ہے غم مجھ کو ، نہ جینے کی تمناہے
عجب ہی بے قراری ہے ، نہ جانے آگے کیا ہو گا

ہمیں تو ہے یقیں کامل ترے اقرارِ الفت کا
کیا تھا تم نے جو وعدہ کبھی تو وہ وفا ہو گا

یہی اعجازِ الفت ہے ذرا سن غور سے ذیشان
یہ جذبہ ہے وہ جذبہ جو نہ ہرگز ہی فنا ہو گا !

محمد ذیشان نصر​
آپ نے ابھی محبت پر جو تحریر شریک کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نثر کی صورت اور یہ منظوم کلام ہے ۔ دونوں میں خیال ایک ہی ہے ۔ اچھا اور خوب کہا!
 
Top