برائے اصلاح: سب ناگزیر تھے جو پڑے ہیں مزار میں

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی گذارش ہے

سب ناگزیر تھے جو پڑے ہیں مزار میں
کس چیز کا غرور ہے مشتِ غُبار میں

اے موت معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں
مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں

میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر
اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں

خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کا ٹ بھی وُہی تری کجلے کی دھار میں

اک ہوک سی اُٹھی ہے مرے پہلو سے ابھی
شاید تڑپ رہا ہے کوئی انتظار میں

ملتا ہے ہرکسی کو تُو،لیکن مرے لیے
اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں

لینے دےکھُل کے سانس مجھے آخری تو اب
اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں

جو دل میں میرے پیار سے تم نے لگائے ہیں
کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں

تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر
ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں

لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب
پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں

وُہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گئے
جو بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں

مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی
مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کل میں نے اس پر مشورے دینا شروع کیے تھے لیکن پھر اٹھنا پرا، ابھی پتہ چلا کہ وہ محفوظ نہیں رہا!
سب ناگزیر تھے جو پڑے ہیں مزار میں
کس چیز کا غرور ہے مشتِ غُبار میں
.. نا گزیر مفہوم کے اعتبار سے غلط استعمال ہوا ہے

اے موت معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں
مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں
.. درست

میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر
اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں
... درست

خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کا ٹ بھی وُہی تری کجلے کی دھار میں
... کجلے لفظ سے میں واقف نہیں

اک ہوک سی اُٹھی ہے مرے پہلو سے ابھی
شاید تڑپ رہا ہے کوئی انتظار میں
... پہلو کی و کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، الفاظ یا ترتیب بدلو

ملتا ہے ہرکسی کو تُو،لیکن مرے لیے
اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں
.. ہر کسی کو یا کسی سے! لیکن کسی سے میں تنافر بھی ہو جاتا ہے، ترتیب بدل کر دیکھو

لینے دےکھُل کے سانس مجھے آخری تو اب
اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں
.. محاورہ 'اب تو' کا ہے، 'تو اب' کا نہیں ۔ الفاظ بدل کر دیکھو

جو دل میں میرے پیار سے تم نے لگائے ہیں
کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں
.. درست

تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر
ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں
.. ٹھیک

لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب
پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں

وُہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گئے
جو بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں
.... یہ دونوں اشعار ایک ہی قافیے کے؟ تھیک ہیں دونوں لیکن درمیان میں فاصلہ رکھو

مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی
مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں
.. درست
 

مقبول

محفلین
بہت شُکریہ، استادِ محترم
کس چیز کا غرور ہے مشتِ غُبار میں
.. نا گزیر مفہوم کے اعتبار سے غلط استعمال ہوا ہے

سر، اگر آپ کچھ مزید وضاحت فرما دیں تو مجھ کند ذہن کو اسے زیادہ سمجھنے اور درست کرنے میں آسانی ہو جائے گی ۔ تاہم ، جتنا میں سمجھ سکا، اس کے مطابق درجِ ذیل مصرعے آپ کے جائزے کے لیے حاضر ہیں

ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مزار سے مراد قبر ہے نا کہ روایتی مزار۔ قافیہ میں آنے کی وجہ سے استعمال کر لیا۔

جتنے تھے ناگزیر پڑے ہیں مزار میں
یا
آخر کو ناگزیر بھی پہنچے مزار میں
خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کا ٹ بھی وُہی تری کجلے کی دھار میں
... کجلے لفظ سے میں واقف نہیں

کجلے کو کاجل کر دیتا ہو اگر آپ مناسب سمجھیں تو؟

میں نے کچھ آن لائن لغات حوالہ کے لیے دیکھیں تو معلوم ہوا کہ کجلے کو اسم “کاجل” کی تصغیر کے طور پر ماضی کے کچھ شعرا نے استعمال کیا

اک ہوک سی اُٹھی ہے مرے پہلو سے ابھی
شاید تڑپ رہا ہے کوئی انتظار میں
... پہلو کی و کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، الفاظ یا ترتیب بدلو

میں نے “مرے” کے “ے” کو اسقاط سے بچانے لے لیے، پہلو کے “و” کو انجانے میں قتل کر ڈالا۔ اب دیکھیے

اک ہوک سی اٹھی مرے پہلو سے ہے ابھی

ملتا ہے ہرکسی کو تُو،لیکن مرے لیے
اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں
.. ہر کسی کو یا کسی سے! لیکن کسی سے میں تنافر بھی ہو جاتا ہے، ترتیب بدل کر دیکھو

یہ دیکھیے

ملتا ہے تُو رقیب سے لیکن مرے لیے

سر، آپ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کی “تو” میں “و” گرانا فصیح تر ہے ۔ کیا “تُو” کے لیے بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ مصرعہ مجھے دوبارہ کہنا ہو گا۔ براہِ مہربانی اپنی رائے سے نوازیے۔ شُکریہ
لینے دےکھُل کے سانس مجھے آخری تو اب
اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں
.. محاورہ 'اب تو' کا ہے، 'تو اب' کا نہیں ۔ الفاظ بدل کر دیکھو
یہ دیکھیے

لینے دے اب تو کھل کے مجھے سانس آخری
لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب
پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں

وُہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گئے
جو بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں
.... یہ دونوں اشعار ایک ہی قافیے کے؟ تھیک ہیں دونوں لیکن درمیان میں فاصلہ رکھو

سر، دونوں اشعار خود ہی میں نے ایک ساتھ رکھے تھے تاکہ آپ کی نظر پڑے اور ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ ان میں سے کوئی قابلِ قلم زدنی ہے ۔ اگر ان میں سے کوئی شعر بہت ہی کمزور ہے تو حکم کیجیے تاکہ اسے میں نکال دوں ورنہ دونوں کو الگ الگ جگہ پر رکھ دیتا ہوں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
۔۔۔۔۔خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کاٹ بھی وہی ترے کجرے کی دھار میں​
بہت شُکریہ، شکیل صاحب

کجلے کےُلحاظ سے “ترے” اور دھار کے تعلق سے “تری “ ہو سکتا ہے۔ شعر میں حوالہ دھار کا ہے تو میں نے “تری” استعمال کیا۔ استادِ محترم الف عین سے بھی رائے کی درخواست کر لیتے ہیں تاکہ درست لفظ کا انتخاب کیا جا سکے۔

گرائمر کے بھی کچھ اصول ہیں اس طرح کی صورتِ حال کے لیے۔ درست اصطلاحات میرے ذہن سے نکل چکی ہیں کیونکہ میرا زیادہ واسطہ نہیں رہا کافی عرصے سے۔ آپ یاد دہانی کروا سکیں تو ممنون ہوں گا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
نا گزیر کا درست استعمال میرے خیال میں
یہ کہنا نا گزیر ہے کہ...... مراد یہ بات کہنی ہی پرے گی
ان نا گزیر حالات.... ایسے حالات جن کو بدلنا آپ کے بس میں نہ ہو
یہ adverb or adjective کے طور پر آتا ہے۔ میں کوئی لغت نہیں دیکھ رہا ہوں نہ حوالہ دے رہا ہوں، کچھ اور معانی بھی ممکن ہیں لیکن اہل زبان اسی طریقے سے استعمال کرتے ہیں جیسا میں نے لکھا ہے۔ لوگوں کو ناگزیر کہنا سمجھ میں نہیں آتا۔
لغت میں تو بالم، ساجن، پیا، پیتم جیسے بالی ووڈ کے الفاظ بھی مل جائیں گے، لیکن کیا ہر غزل ایسے الفاظ قبول کر سکتی ہے؟ ہاں، مکمل غزل اگرچہ گیت کی زبان میں ہو، تو کجرا، کا روا، کجروا، انکھیاں جیسے. الفاظ قابل قبول ہوں گے۔ لیکن اچجی بھلی اردو غزل میں زبردستی ایسے الفاظ گھسانا اچھا تجربہ نہیں. مانا جاتا۔ کاجل لفظ ہی لانے میں کیا حرج ہے، اور کجلے پر اتنا اصرار کیوں؟
باقی مصرع درست ہو گئے ہیں
سیکنڈ پرسن والا تو قابل ترجیح مکمل تو، فع ہے، لیکن و گرائی بھی جا سکتی ہے لیکن then کے معنی میں تو کو ہمیشہ یک حرفی لایا کریں، و کے اسقاط کے ساتھ
 

مقبول

محفلین
نا گزیر کا درست استعمال میرے خیال میں
یہ کہنا نا گزیر ہے کہ...... مراد یہ بات کہنی ہی پرے گی
ان نا گزیر حالات.... ایسے حالات جن کو بدلنا آپ کے بس میں نہ ہو
یہ adverb or adjective کے طور پر آتا ہے۔ میں کوئی لغت نہیں دیکھ رہا ہوں نہ حوالہ دے رہا ہوں، کچھ اور معانی بھی ممکن ہیں لیکن اہل زبان اسی طریقے سے استعمال کرتے ہیں جیسا میں نے لکھا ہے۔ لوگوں کو ناگزیر کہنا سمجھ میں نہیں آتا۔
لغت میں تو بالم، ساجن، پیا، پیتم جیسے بالی ووڈ کے الفاظ بھی مل جائیں گے، لیکن کیا ہر غزل ایسے الفاظ قبول کر سکتی ہے؟ ہاں، مکمل غزل اگرچہ گیت کی زبان میں ہو، تو کجرا، کا روا، کجروا، انکھیاں جیسے. الفاظ قابل قبول ہوں گے۔ لیکن اچجی بھلی اردو غزل میں زبردستی ایسے الفاظ گھسانا اچھا تجربہ نہیں. مانا جاتا۔ کاجل لفظ ہی لانے میں کیا حرج ہے، اور کجلے پر اتنا اصرار کیوں؟
باقی مصرع درست ہو گئے ہیں
سیکنڈ پرسن والا تو قابل ترجیح مکمل تو، فع ہے، لیکن و گرائی بھی جا سکتی ہے لیکن then کے معنی میں تو کو ہمیشہ یک حرفی لایا کریں، و کے اسقاط کے ساتھ

محترم الف عین صاحب

سر، تفصیلی جواب کے لیے بہت شُکریہ

۱- کجلے کے استعمال پر ہرگز کوئی اصرار نہیں ہے بلکہ میں نے تو آپ کے پہلے تبصرے کے بعد خود ہی کجلے کی جگہ کاجل کا استعمال تجویز کیا (جو شاید آپ کی نظر سے نہیں گذرا) اور اپنے پاس تبدیل بھی کر دیا

باقی جو کجلے کے متعلق میں نے لغات کا حوالہ دیا اس کا مقصد صرف انفارمیشن شیئر کرنا تھا

۲- تو اور تُو کی وضاحت کے لیے بھی شُکریہ

۳- انگلش کا جو لفظ ہے اندسپنسبل اس کا گوگل اردو ترجمہ ناگزیر دکھاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کا اردو میں متبادل کیا ہو گا؟ براہِ کرم رہنمائی فرمائیے
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، ناگزیر کے بغیر مطلع کے پہلے مصرعہ کے درج ذیل متبادل ذہن میں آئے ہیں

سب بادشاہ وزیر پڑے ہیں مزار میں
یا
کل تھے جو خاص آج پڑے ہیں مزار میں

سر، ان پر آپ کی کیا رائے ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب

سر، ناگزیر کے بغیر مطلع کے پہلے مصرعہ کے درج ذیل متبادل ذہن میں آئے ہیں

سب بادشاہ وزیر پڑے ہیں مزار میں
یا
کل تھے جو خاص آج پڑے ہیں مزار میں

سر، ان پر آپ کی کیا رائے ہے؟
نہیں، مزا نہیں آیا
سردار، امیر، امراء وغیرہ کہو
 
سر، شُکریہ۔

کچھ اور بھی کوشش کی ہے

اترے ہیں خالی ہاتھ سکندر مزار میں
(اس مصرعہ میں خالی کا ی گر رہا ہے)
یا

آمر اٹھائے موت نے نصف النَّہار میں

یا

سر، “تخت” والا مصرعہ ہی بہتر ہے؟
۔۔۔استادِ محترم کی اجازت سے تجویزپیش ہے:
خالی جو ہاتھ اُترے سکندر مزار میں
کس بات کا غرور ہے مشتِ غبار میں
÷÷÷​
خالی ہی ہاتھ اترے سکندر مزار میں۔۔۔۔۔۔(مگر عیبِ تنافر آڑے آرہا ہے)
کس بات کا غرور ہے مشتِ غبار میں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
۔۔۔استادِ محترم کی اجازت سے تجویزپیش ہے:
خالی جو ہاتھ اُترے سکندر مزار میں
کس بات کا غرور ہے مشتِ غبار میں
÷÷÷​
خالی ہی ہاتھ اترے سکندر مزار میں۔۔۔۔۔۔(مگر عیبِ تنافر آڑے آرہا ہے)
کس بات کا غرور ہے مشتِ غبار میں
شُکریہ، شکیل صاحب
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، اجتماعی کوشش:) کے بعد مصرعہ اوّل کے درج ذیل متبادل ابھی تک سامنے آئے ہیں ۔ میں نے سوچا ایک جگہ جمع کر کے آپ کے جائزہ کے لیے پیش کروں

کل تخت پر تھے آج پڑے ہیں مزار میں
کل تخت پر تھے آج سکندر مزار میں
دارا مزار میں ہیں سکندر مزار میں
خالی ہی ہاتھ اترے|لوٹے سکندر مزار میں
خالی تھے ہاتھ اترے | لوٹے سکندر مزار میں
اترے ہیں خالی ہاتھ سکندر مزار میں
آمر اٹھائے موت نے نصف النَّہار میں
جابر اٹھائے موت نے نصف النَّہار میں
 
Top