برائے اصلاح: خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے

akhtarwaseem

محفلین
خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے
جانے کیا دُکھ نفس میں رہتا ہے

جان کا کچھ نہیں بھروسہ پر
دل مُسلسل ہوس میں رہتا ہے

روح رہتی ہے جسم میں جیسے
اک پرندہ قفس میں رہتا ہے

سلطنت لاکھ سُکھ میں جیتی ہو
ایک نالہ جرس میں رہتا ہے

ہو جو اک بار آنکھ سے اوجھل
کون پھر دسترس میں رہتا ہے

کب مچل جائے کیا کہیں دل کا
کب ہمیشہ یہ بس میں رہتا ہے

جو مُیسر ہے جی لو اب جانے
کون اگلے برس میں رہتا ہے
------------------------
 

امین شارق

محفلین
خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے
جانے کیا دُکھ نفس میں رہتا ہے

جان کا کچھ نہیں بھروسہ پر
دل مُسلسل ہوس میں رہتا ہے

روح رہتی ہے جسم میں جیسے
اک پرندہ قفس میں رہتا ہے

سلطنت لاکھ سُکھ میں جیتی ہو
ایک نالہ جرس میں رہتا ہے

ہو جو اک بار آنکھ سے اوجھل
کون پھر دسترس میں رہتا ہے

کب مچل جائے کیا کہیں دل کا
کب ہمیشہ یہ بس میں رہتا ہے

جو مُیسر ہے جی لو اب جانے
کون اگلے برس میں رہتا ہے
------------------------
اچھی غزل ہے داد قبول کریں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے
جانے کیا دُکھ نفس میں رہتا ہے

خوف کا "پیش و پس" میں رہنا ایک بے تکا سا بیان ہے ۔ پیش و پس (دراصل پس و پیش) ایک مستعمل روز مرہ ہے جس کا استعمال یہاں بیان کردہ مضمون سے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
نفَس بھی لگتا ہے نفس کے معنی میں لیا گیا ہے کیوں کہ سانس میں دکھ رہنا بھی اسی طرح عجیب بیان ہے ۔ نفس میں دکھ البتہ قبول کیا جاسکتا ہے ۔

آخری شعر میں پہلا مصرع اس طرح کہا گیا ہے کہ دوسرے مصرع میں "میں" کی جگہ تک آنا چاہیئے ۔
 
Top