برائے اصلاح: خمیرِ وفا سے اٹھایاگیا ہوں

عاطف ملک

محفلین
مری ابتدائی کاوشوں میں سے اک!چند تبدیلیوں کے ساتھ پیشِ نظر ہے....

زمانے کے ہاتھوں ستایا گیا ہوں
تِرے در پہ پھر سے بلایا گیا ہوں
مِری داستاں تو ازل سے ہے جاری
ہر اک دور میں آزمایا گیا ہوں
کسی کی خدائی کے بت توڑنے پر
کبھی آگ میں پھینکوایا گیا ہوں
ہوں بیچا گیا نیل کی وادیوں میں
سرِ طور جلوہ دکھایا گیا ہوں
ستایا گیا ریگزارِ عرب میں
کہ مجنون کہہ کر بلایا گیا ہوں
کبھی ہو کہ خود رفتہ دیوانگی میں
"انالحق" کی سولی چڑھایا گیا ہوں
ہے عینِ وفا زندگی میری عاطف
خمیرِ وفا سے اٹھایا گیا ہوں
 

فاخر رضا

محفلین
مری ابتدائی کاوشوں میں سے اک!چند تبدیلیوں کے ساتھ پیشِ نظر ہے....

زمانے کے ہاتھوں ستایا گیا ہوں
تِرے در پہ پھر سے بلایا گیا ہوں
مِری داستاں تو ازل سے ہے جاری
ہر اک دور میں آزمایا گیا ہوں
کسی کی خدائی کے بت توڑنے پر
کبھی آگ میں پھینکوایا گیا ہوں
ہوں بیچا گیا نیل کی وادیوں میں
سرِ طور جلوہ دکھایا گیا ہوں
ستایا گیا ریگزارِ عرب میں
کہ مجنون کہہ کر بلایا گیا ہوں
کبھی ہو کہ خود رفتہ دیوانگی میں
"انالحق" کی سولی چڑھایا گیا ہوں
ہے عینِ وفا زندگی میری عاطف
خمیرِ وفا سے اٹھایا گیا ہوں
بہت اچھا لکھا ہے . سارے نبیوں کے حالات لکھ دیئے . ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی آدمی عشق کے سفر پر نکلا ہو اور ان آزمائشوں سے گزرا ہو. مجال ہے کہ ذرا بھی تردد ہوا ہو . ماشاءاللہ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی مسلسل غزل ہے۔ مطلع البتہ بدل دیں ت اچھا ہے۔ دو لختی کی کیفیت ہے۔
مزید یہ کہ
کبھی آگ میں پھینکوایا گیا ہوں
پھینکوانا درست نہیں، پھِنکوانا‘ ہونا چاہیے۔

کہ مجنون کہہ کر بلایا گیا ہوں
عموماً ’مجنوں“ کہا جاتا ہے۔ مجنون نہیں۔ یہاں ’دیوانہ‘ ہی کر دیں۔
سولی چڑھایا گیا ہوں
بھی غلط محاورہ ہے، شاید پنجابی میں درست ہو، اردو ہندی میں ’سولی پر‘ چڑھانا ہوتا ہے۔ ویسے چل سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
عدم اور ہستی والا شعر اب بہتر ہو گیا ہے۔
مجنون سے میں سمجھ گیا تھا کہ اشارہ نبی اکرم (ص) کی طرف ہے۔ اس شعر کو تو مزید اچھا ہونا چاہیے تھا کہ نبیوں کے سردار کے بارے میں تھا، لیکن کمزور ہو گیا۔
 

عاطف ملک

محفلین
مجنون سے میں سمجھ گیا تھا کہ اشارہ نبی اکرم (ص) کی طرف ہے۔ اس شعر کو تو مزید اچھا ہونا چاہیے تھا کہ نبیوں کے سردار کے بارے میں تھا، لیکن کمزور ہو گیا۔
جی بہت بہتر!
انشا اللہ اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 

عاطف ملک

محفلین
مجنون سے میں سمجھ گیا تھا کہ اشارہ نبی اکرم (ص) کی طرف ہے۔ اس شعر کو تو مزید اچھا ہونا چاہیے تھا کہ نبیوں کے سردار کے بارے میں تھا، لیکن کمزور ہو گیا۔
سر!
اس شعر کو مزید اچھا کرنے کی کوشش کروں گا.....
فی الوقت ان اشعار پہ رائے دیجیے گا.

گھسیٹا گیا باندھ کر پتھروں پر
گرم کوئلوں پر لٹایا گیا ہوں
میں وہ راز جو موت سے ماورا ہے
یا
حقیقت مِری موت سے ماورا ہے
کہ نوکِ سناں پر سنایا گیا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
’گرم‘ میں ’ر‘ پر جزم ہے، یہاں زبر باندھا گیا ہے۔
دوسرے شعر میں ’سنایا گیا ہوں‘ سمجھ میں نہیں آیا۔
 

فاخر رضا

محفلین
ایک شخص کیسے سنایا جا سکتا ہے؟؟
اگر یوں ہوتا تو شاید سمجھ آ جاتا

میں آہنگِ سر چشمہء زندگی ہوں
کہ نوکِ سناں پر سنایا گیا ہوں
حقیقت مری موت سے ماورا ہے۔
کہ نوک سناں پر سنایا گیا ہوں
یعنی وہ ہستی جسے موت بھی تلاوت قرآن سے روک نہ سکی۔ اور اس نے نوک سناں پر بھی تلاوت کی۔ اشارہ امام عالی مقام کی طرف ہے جنہوں نے نوک سناں پر تلاوت کی۔ان کی حقیقت کو موت بھی ختم نہ کرسکی۔ ہو سکتا ہے شعری اسلوب میں اس میں اصلاح کی گنجائش ہو مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ بے معنی شعر ہو۔ لکھنے والے نے ایک سلسلہ باندھا ہے، پہلے شعر سے لیکر آخر تک۔ جب اس تناظر میں دیکھا جائے گا تو سمجھ آجائے گا۔ یہ جیسا کہ استاد محترم الف عین نے کہا ایک مسلسل غزل ہے۔ کسی بھی قربانی کے سلسلے کی معراج کربلا ہے اور اسے شاعری میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
 
حقیقت مری موت سے ماورا ہے۔
کہ نوک سناں پر سنایا گیا ہوں
یعنی وہ ہستی جسے موت بھی تلاوت قرآن سے روک نہ سکی۔ اور اس نے نوک سناں پر بھی تلاوت کی۔ اشارہ امام عالی مقام کی طرف ہے جنہوں نے نوک سناں پر تلاوت کی۔ان کی حقیقت کو موت بھی ختم نہ کرسکی۔ ہو سکتا ہے شعری اسلوب میں اس میں اصلاح کی گنجائش ہو مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ بے معنی شعر ہو۔ لکھنے والے نے ایک سلسلہ باندھا ہے، پہلے شعر سے لیکر آخر تک۔ جب اس تناظر میں دیکھا جائے گا تو سمجھ آجائے گا۔ یہ جیسا کہ استاد محترم الف عین نے کہا ایک مسلسل غزل ہے۔ کسی بھی قربانی کے سلسلے کی معراج کربلا ہے اور اسے شاعری میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
بلاوجہ آپ نے اتنی زحمت کی۔ صرف اتنا بتا دیتے کہ سنایا گیا ہوں کا کیا مقصد ہے اس شعر میں۔
بے معنی ہونے کا فتویٰ تو کسی نے نہیں دیا۔ ہاں، مجھ ایسے شخص کے لیے یہ شعر ناقابلِ فہم ضرور ہے کیونکہ میرے نزدیک ایک نغمہ سنایا جا سکتا ہے یا ایک آواز سنائی جا سکتی ہے۔ جس کی حقیقت موت سے ماورا ہے اس کا سنایا جانا چہ معنیٰ دارد؟
 

عاطف ملک

محفلین
ایک شخص کیسے سنایا جا سکتا ہے؟؟
اگر یوں ہوتا تو شاید سمجھ آ جاتا

میں آہنگِ سر چشمہء زندگی ہوں
کہ نوکِ سناں پر سنایا گیا ہوں
بصدِ احترام, جناب یہ شخص کا ذکر ہی نہیں ہے,اس میں "عشق" کا ذکر ہے...البتہ آپ نے جو مصرعِ اول تجویز کیا,اس پہ تو دل آگیا ہے
 

عاطف ملک

محفلین
حقیقت مری موت سے ماورا ہے۔
کہ نوک سناں پر سنایا گیا ہوں
یعنی وہ ہستی جسے موت بھی تلاوت قرآن سے روک نہ سکی۔ اور اس نے نوک سناں پر بھی تلاوت کی۔ اشارہ امام عالی مقام کی طرف ہے جنہوں نے نوک سناں پر تلاوت کی۔ان کی حقیقت کو موت بھی ختم نہ کرسکی۔ ہو سکتا ہے شعری اسلوب میں اس میں اصلاح کی گنجائش ہو مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ بے معنی شعر ہو۔ لکھنے والے نے ایک سلسلہ باندھا ہے، پہلے شعر سے لیکر آخر تک۔ جب اس تناظر میں دیکھا جائے گا تو سمجھ آجائے گا۔ یہ جیسا کہ استاد محترم الف عین نے کہا ایک مسلسل غزل ہے۔ کسی بھی قربانی کے سلسلے کی معراج کربلا ہے اور اسے شاعری میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
بالکل جناب!
یہی کہنا چاہ رہا تھا میں اس شعر میں.
 

عاطف ملک

محفلین
’گرم‘ میں ’ر‘ پر جزم ہے، یہاں زبر باندھا گیا ہے۔
سر!
اب اس میں میری کم علمی کا قصور ہے.....آپ کی اور باقی اساتذہ کی مہربانی رہی تو انشااللہ کچھ تو سیکھ ہی لوں گا.
ویسے اگر گنجائش نکل سکتی ہو تو میں اس مصرعے میں رعایت چاہتا ہوں کیونکہ یہ شعر مجھے ذاتی طور پر پسند ہے
 
Top