برائے اصلاح " ایک عالم ہے بے قراری کا"

اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزاراش ہے

ایک عالم ہے بے قراری کا
گویا موسم ہے آہ و زاری کا

جس کا دل ہے غموں کا شیدائی
اسے کیا شکوہ غم گساری کا

عشق میں دل تو ہو گیا ایسے
جیسے کاسہ کسی بھکاری کا

بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے
عشق کو کھیل اک مداری کا

ابتدا سے ہے دمِ آخر تک
زندگی نام بے قراری کا
 

بافقیہ

محفلین
بہت خوبصورت جناب!

آخری شعر کا پہلا مصرعہ ایک بار دیکھ لیں۔ اگر یوں کردیں تو!

ابتدا سے ہے تا دم آخر
 
آخری تدوین:
دمِ آخر کا مطلب ہی آخر تک ہے۔ اس لئے تک لگانے کی ضرورت نہیں
ختم ہوتی ہے موت سے ورنہ
زندگی نام بے قراری کا
 

الف عین

لائبریرین
اسے کیا شکوہ غم گساری کا
کی ترتیب الٹ دیں
کیا اسے شکوہ....
تا دم آخر بہتر ہے لیکن قراری محض استعمال نہیں ہوتا، صرف بے قراری ہوتا ہے اور قرار
 
Top