برائے اصلاح؛ ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات، کیا کروں

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب، دیگر اساتذہ کرام و احباب کی خدمت میں ایک پرانا دو غزلہ اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
غزل 1
کوئی نہیں جو پینے میں دے ساتھ ،کیا کروں
یا
وُہ دِلرُبا نہیں ہے مرے ساتھ ، کیا کروں
ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات، کیا کروں

انکار اُس کا پہلے تھا، انکار آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات، کیا کروں

فہرست میں ہوں آخری نمبر پہ اس کی میں
وُہ عاشقوں کی دیکھتا ہے ذات، کیا کروں

کہتا ہے اس کے ساتھ کے قابل نہیں ہوں میں
غربت کی میری یہ بھی ہیں برکات، کیا کروں

درکار مجھ کو اس کی محبت کا ہے یقیں
سُنتا نہیں وُہ اس پہ کوئی بات، کیا کروں

ممکن ہے مجھ کو چھوڑ کے دشمن سے جا ملے
کرتا نہیں وُہ دور یہ خدشات، کیا کروں

خط کا جواب، اُس نے تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات، کیا کروں

اپنے جلا کے خواب میں کرتا ہوں روشنی
گذرے گی اب یوں زندگی کی رات ، کیا کروں
یا
گذرے گی زندگی کی یوں اب رات ، کیا کروں

مقبول جا کے بخت کہاں پر کروں تلاش
رکھتے نہیں لکیر مرے ہاتھ ، کیا کروں

غزل 2
وُہ چاہتا ہے پھر سے ملاقات، کیا کروں
زندہ ابھی ہیں میرے بھی جذبات، کیا کروں

سوچا تھا جب ملا وُہ تو سب کچھ کہوں گا مَیں
آیا ہے وُہ ، تو سوچ میں ہوں بات کیا کروں

اندر ہے دل کے شامِ غریباں بپا مرے
باہر بکھیرنے ہیں پہ نغمات، کیا کروں

مُلّا ہے مجھ کو دیتا جہنم کی دھمکیاں
میں جنتی ہوں ، کہتی ہیں آیات ، کیا کروں

آنکھیں اداس رہتی ہیں ،چہرے پہ خوف ہے
اتنے مجھے ہیں ملتے کہ صدمات، کیا کروں

خوشیاں تمام عمر نہ گُذریں قریب سے
مجھ پر ہوئی غموں کی ہے برسات ، کیا کروں

مقبول، مفت درد میں تقسیم کرتا ہوں
یہ بھی اگر کروں نہ تو خیرات کیا کروں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب، دیگر اساتذہ کرام و احباب کی خدمت میں ایک پرانا دو غزلہ اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
غزل 1
کوئی نہیں جو پینے میں دے ساتھ ،کیا کروں
یا
وُہ دِلرُبا نہیں ہے مرے ساتھ ، کیا کروں
ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات، کیا کروں
دوسرا متبادل ہی بہتر ہے، پہلے میں 'پینمے' ناگوار لگتا ہے
انکار اُس کا پہلے تھا، انکار آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات، کیا کروں
دونوں بار انکار کی ضرورت نہیں، ایک "بھی" کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے
انکار اس کا پہلے بھی تھا، اور آج بھی
یا کچھ بہتر سوچو
فہرست میں ہوں آخری نمبر پہ اس کی میں
وُہ عاشقوں کی دیکھتا ہے ذات، کیا کروں
اسے نکال ہی دیا جائے
کہتا ہے اس کے ساتھ کے قابل نہیں ہوں میں
غربت کی میری یہ بھی ہیں برکات، کیا کروں
یہ برکات ہیں؟
درکار مجھ کو اس کی محبت کا ہے یقیں
سُنتا نہیں وُہ اس پہ کوئی بات، کیا کروں
درکار اس کی محبت کا یقین "دلانا" ہو گا، نہ کہ صرف یقین!
ممکن ہے مجھ کو چھوڑ کے دشمن سے جا ملے
کرتا نہیں وُہ دور یہ خدشات، کیا کروں
ٹھیک
خط کا جواب، اُس نے تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات، کیا کروں
اس کو تو دینا نہیں....
اپنے جلا کے خواب میں کرتا ہوں روشنی
گذرے گی اب یوں زندگی کی رات ، کیا کروں
یا
گذرے گی زندگی کی یوں اب رات ، کیا کروں
کرتا ہوں اپنے خواب جلا کر میں روشنی
آسان سا سادہ اور رواں مصرع نہیں!
گزرے گی کا صیغہ کیوں؟ گزرتی یا گزر رہی کہو
مقبول جا کے بخت کہاں پر کروں تلاش
رکھتے نہیں لکیر مرے ہاتھ ، کیا کروں
درست
غزل 2
وُہ چاہتا ہے پھر سے ملاقات، کیا کروں
زندہ ابھی ہیں میرے بھی جذبات، کیا کروں
درست
سوچا تھا جب ملا وُہ تو سب کچھ کہوں گا مَیں
آیا ہے وُہ ، تو سوچ میں ہوں بات کیا کروں
جب ملے گا... بہتر ہو گا
باقی درست
اندر ہے دل کے شامِ غریباں بپا مرے
باہر بکھیرنے ہیں پہ نغمات، کیا کروں
یہ قافیہ بندی لگ رہا ہے
مُلّا ہے مجھ کو دیتا جہنم کی دھمکیاں
میں جنتی ہوں ، کہتی ہیں آیات ، کیا کروں
درست
آنکھیں اداس رہتی ہیں ،چہرے پہ خوف ہے
اتنے مجھے ہیں ملتے کہ صدمات، کیا کروں
"مجھے ہیں ملتے" کی بندش اچھی نہیں
خوشیاں تمام عمر نہ گُذریں قریب سے
مجھ پر ہوئی غموں کی ہے برسات ، کیا کروں
ہوتی رہی غموں کی ہی برسات...
بہتر ہو گا
مقبول، مفت درد میں تقسیم کرتا ہوں
یہ بھی اگر کروں نہ تو خیرات کیا کروں
مقبول بانٹتا ہوں میں ہردرد مفت میں
بہتر مصرع ہو گا جو تم خود بھی کہہ سکتے تھے
میرا مشورہ ہے کہ اشعار چن کر ایک ہی غزل بناؤ، آٹھ نو اشعار بھی ہو سکتے ہیں غزل میں
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
خط کا جواب، اُس نے تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات، کیا کروں
اگر جواب آ جاتا تو آپ بھی یہ کہتے ۔ ۔ شاعروں کی زندگی آسان نہیں ۔ ۔ :mrgreen: :mrgreen:

قاصد کی آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
 

مقبول

محفلین
اگر جواب آ جاتا تو آپ بھی یہ کہتے ۔ ۔ شاعروں کی زندگی آسان نہیں ۔ ۔ :mrgreen: :mrgreen:

قاصد کی آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
بالکل ، مجھے پتہ ہے جواب نہیں آنا اس لیے میں نے بھی زحمت نہیں کی😄
جن کے جواب آتے ہیں وہ پھر شاعر تو نہیں بنتے نا!😄😄
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
کچھ درستگی کی ہے، کچھ اشعار نکالے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کچھ اور اشعار نکالنے والے ہیں تو براہِ مہربانی نشاندہی فرما دیجیے
دوسرا متبادل ہی بہتر ہے، پہلے میں 'پینمے' ناگوار لگتا ہے
دوسرا متبادل رکھ لیا ہے
ونوں بار انکار کی ضرورت نہیں، ایک "بھی" کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے
انکار اس کا پہلے بھی تھا، اور آج بھی
یا کچھ بہتر سوچو
انکار اُس نے کل بھی کیا اور آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات، کیا کروں
اسے نکال ہی دیا جائے
نکال دیا ہے
نکال دیا ہے
نکال دیا ہے
کرتا ہوں اپنے خواب جلا کر میں روشنی
آسان سا سادہ اور رواں مصرع نہیں!
گزرے گی کا صیغہ کیوں؟ گزرتی یا گزر رہی کہو
کرتا ہو اپنے خواب جلا کر میں روشنی
ہے یوں گذرتی اب تو مری رات، کیا کروں

میں کیوں کہ ے گرانے میں بدنام ہوں😁 تو اس لیے ایسی ترتیب رکھی تھی تاکہ اپنے کی ے نہ گرے ۔ اگر آپ یہ رہنمائی فرما دیں کہ کہاں ے اور ی گر سکتے ہیں تو بہت مہربانی ہو گی
درکار اس کی محبت کا یقین "دلانا" ہو گا، نہ کہ صرف یقین!
مجھ کو دلائے اپنی محبت کا وُہ یقیں
سُنتا نہیں وُہ اس پہ کوئی بات، کیا کروں
یا
کہتے ہیں اس کے حسن کی کیا بات ہے ، اگر
یہ بات ہے تو اس پہ میں پھر بات کیا کروں
یہ قافیہ بندی لگ رہا ہے
نکال دیا ہے
"مجھے ہیں ملتے" کی بندش اچھی نہیں
آنکھیں اداس رہتی ہیں ،چہرے پہ خوف ہے
اتنے ہیں مجھ کو ملتے کہ صدمات، کیا کروں

باقی اشعار آپ کی تجاویز کی مطابق کر دیئے ہیں۔ شُکریہ
 

مقبول

محفلین
جناب اشرف علی صاحب
آپ نے آ بیل مجھے مار، والا کام کر دیا ہے😄😄
میں بھی سوچ رہا تھا کہ ایک غزل بناؤں ، لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ چلیں آپ نے او کھلی میں سر دے دیا ہے 😄😄تو میری مدد کیجیے۔ میں دونوں غزلیں نیچے لکھ رہا ہوں ، آپ کو جیسے بہتر لگے ایک غزل کی صورت دے کر جواب میں لکھ دیجیئے ۔ مہربانی ہو گی۔ میرا کام آسان ہو جائے گا😁😁
کوئی اور دوست بھی مدد کرنا چاہے تو بلا تکلف کر سکتا ہے

غزل ۱
وُہ دِلرُبا نہیں ہے مرے ساتھ ، کیا کروں
ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات، کیا کروں

انکار اُس نے کل بھی کیا اور آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات، کیا کروں

مجھ کو دلائے اپنی محبت کا وُہ یقیں
سُنتا نہیں وُہ اس پہ کوئی بات، کیا کروں

خط کا جواب، اُس کو تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات کیا کروں

کرتا ہو اپنے خواب جلا کر میں روشنی
ہے یوں گذرتی اب تو مری رات، کیا کروں

مقبول جا کے بخت کہاں پر کروں تلاش
رکھتے نہیں لکیر مرے ہاتھ ، کیا کروں

غزل ۲
وُہ چاہتا ہے پھر سے ملاقات، کیا کروں
زندہ ابھی ہیں میرے بھی جذبات، کیا کروں

سوچا تھا جب ملے گا تو سب کچھ کہوں گا مَیں
آیا ہے وُہ ،تو سوچ میں ہوں بات کیا کروں

مُلّا ہے مجھ کو دیتا جہنم کی دھمکیاں
میں جنتی ہوں ، کہتی ہیں آیات ، کیا کروں

خوشیاں تمام عمر نہ گُذریں قریب سے
ہوتی رہی غموں کی ہی برسات ، کیا کروں

مقبول، بانٹتا ہوں میں ہر درد مفت میں
یہ بھی اگر کروں نہ تو خیرات کیا کروں
 

اشرف علی

محفلین
میرے پسندیدہ اشعار

وُہ دِلرُبا نہیں ہے مرے ساتھ ، کیا کروں
ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات ، کیا کروں

انکار اُس نے کل بھی کیا اور آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات ، کیا کروں

خط کا جواب ، اُس کو تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات کیا کروں

کرتا ہوں اپنے خواب جلا کر میں روشنی
ہے یوں گذرتی اب تو مِری رات ، کیا کروں

سوچا تھا جب ملے گا تو سب کچھ کہوں گا مَیں
آیا ہے وہ ، تو سوچ میں ہوں بات کیا کروں

خوشیاں تمام عمر نہ گُذریں قریب سے
ہوتی رہی غموں کی ہی برسات ، کیا کروں

مقبول ، بانٹتا ہوں میں ہر درد مفت میں
یہ بھی اگر کروں نہ تو خیرات کیا کروں
 

مقبول

محفلین
میرے پسندیدہ اشعار

وُہ دِلرُبا نہیں ہے مرے ساتھ ، کیا کروں
ہوتی رہے جو ہوتی ہے برسات ، کیا کروں

انکار اُس نے کل بھی کیا اور آج بھی
بدلی نہیں ہے صورتِ حالات ، کیا کروں

خط کا جواب ، اُس کو تو دینا نہیں کبھی
کالے میں روز بیٹھ کے صفحات کیا کروں

کرتا ہوں اپنے خواب جلا کر میں روشنی
ہے یوں گذرتی اب تو مِری رات ، کیا کروں

سوچا تھا جب ملے گا تو سب کچھ کہوں گا مَیں
آیا ہے وہ ، تو سوچ میں ہوں بات کیا کروں

خوشیاں تمام عمر نہ گُذریں قریب سے
ہوتی رہی غموں کی ہی برسات ، کیا کروں

مقبول ، بانٹتا ہوں میں ہر درد مفت میں
یہ بھی اگر کروں نہ تو خیرات کیا کروں
بہترین
اشرف علی صاحب، بہت شُکریہ
 
Top