فرخ منظور
لائبریرین
بد زبان
علی سردار جعفری کا سعادت حسن منٹو پر ایک مضمون
ہماری محفل سے اردو ادب کا سب سے بڑا بدزبان اُٹھ گیا اور محفل سونی ہو گئی۔ وہ ایسا بدزبان تھا جس پر خوش زبانوں اور پاکیزہ بیانوں کو رشک آسکتا ہے۔ بدزبان بہت ہوئے ہیں جنہیں ہمارا گندا اور گھناؤنا سماج ریگستان کی خار دار جھاڑیوں کی طرح پیدا کرتا ہے لیکن منٹو کو جو سلیقہ آتا تھا وہ کسی کو نصیب نہیں۔ اس نے کانٹوں سے پھول کھلائے تھے۔ اس نے بدزبانی کو ادب اور فن کا درجہ دے دیا تھا۔ جسے پڑھ کر کبھی غصہ آتا تھا کبھی پیار اور کبھی جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی تھی لیکن بے پڑھے رہا بھی نہیں جاتا تھا۔ کوئی پرچہ آیا اور منٹو کی تحریر سب سے پہلے پڑھنا شروع کر دی۔ اب کے اس نے کس کو گالی دی ہے، کس کو لتاڑا ہے، سماج کے کس پہلو کو بے نقاب کیا ہے، منٹو کی کوئی کتاب آئی اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی بیتابی پیدا ہوئی جیسے کسی معشوقہ کا انتظار کیا جا رہا تھا اور وہ یکایک بغیر اطلاع کے شہر میں آگئی ہے اور خدا کی خلقت اس کی طرف دوڑ رہی ہے اور آج وہ بدزبان چلا گیا ہے تو ساری خلقت رو رہی ہے۔ اب وہ کوئی افسانہ نہیں لکھے گا۔ اب اس کی کوئی کتاب نہیں آئے گی۔ اب کوئی خفا نہیں ہو گا۔ کوئی مقدمہ نہیں چلائے گا۔ اب پاگل خانے میں اتنا ذہین پاگل نہیں آئے گا، شراب خانے میں اتنا تلخ شرابی قدم نہیں رکھے گا۔ دوستوں کی محفل میں ایسا لڑ لڑ کر محبت کرنے والا نہیں بیٹھے گا۔ صرف اس بدزبان کی شگفتہ کلامی یاد رہے گی۔
منٹو ایک بے حد پیارے، انتہائی ذہین، مگرجھلائے ہوئے بچّے کی طرح تھا جسے اپنے باپ سے شکایت پیدا ہو گئی ہو، بھائیوں سے حسد ہو گیا ہو جس نے کسی چھوٹی یا بڑی نا انصافی پر بگڑ کر اپنے سارے کھلونے توڑ ڈالے ہوں اور پیار کرنے والی ماں کے گلے میں بھی، جس سے خود بھی اسے بے انتہا محبت رہی ہو، اپنی خود پسندی اور خود داری کی وجہ سے بانہیں ڈالنے میں تکلّف کیا ہو اور اب سب کو یہ دِکھا رہا ہو کہ مجھے ان کھلونوں سے کوئی رغبت نہیں۔ یہ بدصورت تھے۔ دیکھو کرسیاں کھلونوں سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ میں پلنگ سے بھی کھیل سکتا ہوں۔ دیکھو اس خارش ذدہ کتّے کے دل میں تم سے زیادہ انسانیت ہے اور اس لنگڑی بِلّی میں تم سے زیادہ حسن ہے اور پھر یہ محسوس کر کے جیسے سب حیرت زدہ ہیں اور اس کی ان حرکتوں کو شوق سے دیکھ رہے ہیں جن میں اس کی ذہانت کی اپج ہے۔ وہ آپ ہی آپ مسکرا دیتا ہو۔ پھر بڑے ہو جانے کے بعد بھی اس میں یہی عادت باقی رہ گئی ہو اور وہ پورے سماج سے بدزبانی کر رہا ہو اور اپنا انتقام لے رہا ہو۔ یہ بدزبانی خال خال اردو اساتذہ کے یہاں بھی مل جاتی ہے اور بعض ادیبوں کا طرہّ امتیاز ہے لیکن منٹو نے اسے اس بلند سطح پر پہنچا دیا تھا جہاں سے اس نے اردو ادب کے بعض ایسے لافانی افسانوں کی تخلیق کی جن کا جواب کبھی نہیں پیدا ہو سکے گا۔ آنے والی نسلیں منٹو سے سیکھیں گی لیکن منٹو نہیں آئے گا۔ نئے ادیب منٹو سے یہ بھی سیکھیں گے کہ کیا لکھنا چاہیے اور کیسے لکھنا چاہیے اور یہ بھی سیکھیں گے کہ کیا نہیں لکھنا چاہیے اور کیسے نہیں لکھنا چاہیے، مگر ان میں سے کوئی منٹو کی طرح ٹیڑھا، تیکھا، تلخ، ترش اور شیریں نہیں ہو گا اور ماتم اسی کا ہے۔ منٹو نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء روسی اور فرانسیسی ادیبوں کے ترجموں سے کی جن کا اسلوب اور انداز فکر اس کی ابتدائی تحریروں میں نمایاں ہے۔ لیکن ان میں گورکی کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جو بورژوا عہد کی تنقیدی حقیقت نگاری سے آگے بڑھ سکا ہو۔ اس لیے منٹو کی ابتدائی ادبی ذہنی تشکیل اسی سانچے میں ہوئی۔
پھر وہ زمانہ بھی عجیب تھا۔ یورپ کی انحطاط پذیر سرمایہ داری بہت بڑے پیمانے پر فاشزم کا روپ اختیار کر رہی تھی اور بہت سے نوجوان باغیوں کو نراجیت کی طرف دھکیل رہی تھی۔ جو ادب اور آرٹ میں فرانسیسی دادا ازم اور سورِیلزم کی شکلیں اختیار کر رہی تھی۔ یہ نظریے اور تحریکیں دشمن کو نہ پہچاننے اور انسانیت کی تاریخی رفتار کو نہ سمجھنے سے پیدا ہو رہی تھیں اور ہندوستان کا سڑا ہوا جاگیرداری نظام جس پر بیرونی شہنشاہیت کی کوڑھ اوپر سے جمی ہوئی تھی، انقلابی جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ سیاسی دہشت پسندوں اور ادبی رومانی باغیوں کو بھی جنم دے رہا تھا اس لیے منٹو کی اس وقت کی ذہنی تشکیل میں جب آج سے بیس برس پہلے میں اس سے پہلی بار علی گڑھ میں ملا تھا، سب سے زیادہ اہم انقلابِ روس، جلیاں والا باغ، بھگت سنگھ، کروپائکن ، وکٹرہیوگو، گور کی اور روموناف کی ایک کتاب ’’Without Cherry Blossom‘‘ تھی اور گورکی کا اثر اس کے ابتدائی آوارہ گرد کرداروں کی حد تک تھا (شاید کچھ اور چیزیں رہی ہوں جن کا مجھے علم نہیں) اور ان سب کو منٹو نے اپنی ذاتی زندگی کی تلخیوں اور سماجی زندگی کی ناانصافیوں کے تلخ قوام میں گوندھنے کے بعد ایک نیا اور خالص اپنا قالب دیا جس کا نام افسانہ نگار سعادت حسن منٹو تھا۔ یہ اس کی اپنی اور صرف اپنی مکمل شخصیت تھی جو ہر چیز سے ٹکرا سکتی تھی، کسی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی تھی، کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتی تھی، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی تھی اور اپنا حق مانگنے سے بھی انکار کر سکتی تھی، بعد کے بیس سالوں میں نئے نئے اثرات آتے گئے، حالات کی پرچھائیاں پڑتی رہیں، گورکی، انقلاب روس، وکٹرہیوگو اور جلیاں والا باغ دبتے گئے، بھگت سنگھ، کروپائکن اور روموناف اُبھرتے گئے جن میں سن ۱۹۴۰ء کے بعد سومرسٹ ماہم بھی شامل ہو گیا۔ آپ بھگت سنگھ کی دہشت پسندی سے نظریاتی اور عملی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کی سامراج دشمنی اور حبِ الوطنی پر انگلی نہیں اُٹھا سکتے، اسی طرح آپ منٹو سے ادبی اور نظریاتی اختلاف کتنا ہی رکھیں، اُس کے خلوص، دیانت داری، انسانیت دوستی، حب الوطنی اور سامراج دشمنی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہ جاتی کہ منٹو اپنے سماج کے چیتھڑے اُڑا سکتا تھا، اس کی دھجیاں بکھیر سکتا تھا لیکن نہ تو اس کی تعمیر نو کر سکتا تھا اور نہ اس کی عریانی کو لباس دے سکتا تھا۔ وہ اس عہد کی تنقیدی حقیقت نگاری کا ایک بہت بڑا معجزہ تھااور ادبی دہشت پسندی کا کارواں سالار، اور اس تنقیدی حقیقت نگاری اور ادبی دہشت پسندی پر اُسے اُس کی شرافت نفس اور انسانیت دوستی اُکساتی رہتی تھی، چنانچہ سن 1940ء کے بعد اس نے اپنے افسانوں کی کامیابی کا یہ معیار بنا لیا تھا کہ جس پر سب سے زیادہ ہنگامہ ہو وہ اس کا کامیاب ترین افسانہ ہے۔ ایک بار اس نے غالباً سنہ 1945ء یا 46ء میں مجھ سے بمبئی میں کہا کہ
’’سردار، افسانہ لکھ کر مزا نہیں آیا، نہ کسی نے گالی دی نہ مقدمہ چلا۔‘‘
وہ بیدی کی طرح اپنے دکھیارے کرداروں کے دل میں اُتر کر انسانیت کے دل کی شرافت کی گواہی نہیں دے سکتا تھا، نہ عصمت چغتائی کی طرح معصوم گنہگاروں کے سروں پر ایسا آنچل ڈال سکتا تھا جو دامنِ مریم سے زیادہ پاکیزہ ہو، اور نہ کرشن چندر کی طرح ایک اُبلتے اور تڑپتے ہوئے سماج کی شاعرانہ حرکت کو قلم کی جنبش میں سمیٹ کر آنے والے خوبصورت مستقبل کا مژدہ سنا سکتا تھا۔ اسے دکھیاروں سے زیادہ مسخ شدہ روحوں سے دلچسپی تھی، صحتمندوں سے زیادہ مریضوں اور بیماروں کے دل ٹٹولنے میں مزا آتا تھا، آوارہ گردوں سے زیادہ اس کے ہیرو غنڈے اور لفنگے ہوتے تھے اور ان سب کو اٹھا کروہ سماج کے سر پر انڈیل دیتا تھا اور پھر اپنی تلخ ہنسی ہنستا تھا اور اگر کہیں اسے زہد و تقویٰ کا لبادہ نظر آجاتا تھا تو اسے یقین ہو جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا جھوٹا ہے اور وہ اس لبادے کو پاش پاش کر کے اس آدمی کو ننگا کر دیتا تھا۔
منٹو کے ہاتھ میں یہ سماج سڑی ہوئی پیاز کی گانٹھ کی طرح تھا جس کے چھلکے وہ بڑی نزاکت اور چابک دستی سے اُتارتا جاتا تھا اور یہ کہہ کہہ کر ہنستا جاتا تھا کہ دیکھو تمہارا سماج پیاز کے چھلکوں کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ گانٹھ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اس کے کچھ چھلکے ابھی تک باقی ہیں اور سخت اور ٹھوس چیز ہونے کا دھوکا دے رہے ہیں لیکن وہ انگلیاں جو بڑی فنکاری سے اس کے چھلکے اُتار سکتی تھیں آج قبر میں ٹھنڈی پڑی ہوئی ہیں اور ہر ادیب یہ خواہش کر سکتا ہے کہ کاش اس کی انگلیوں کا یہ جادو ایک دن ہی کے لیے نصیب ہو جاتا۔
منٹو کی عظمت اِس میں ہے کہ اس نے اس سماج کے سامنے اس کی ننگی تصویر لا کر کھڑی کر دی۔ اُس نے چکلوں سے، بازاروں سے، شراب خانوں سے، گھروں کی چار دیواری اور دفتروں سے، سماج کے تمام نہاں خانوں سے انسانی لاشوں کو باہر نکالا اور منظرِ عام پر کھڑے ہو کر کہا: ’’دیکھو یہ وہ جانور ہیں جو کبھی انسان تھے، لیکن منٹو کی ٹریجڈی اس میں تھی کہ وہ ان شکلوں کو نہ دیکھ سکا، جنہیں منظر عام پر لا کر وہ کہہ سکتا: ’’دیکھو یہ وہ انسان ہیں جو کبھی جانور تھے۔‘‘ وہ حقیقت کو اس کی مکمل اور اصلی شکل میں نہیں دیکھ سکا صرف ایک مسخ شدہ پہلو کو دیکھ کر احتجاج کر کے رہ گیا۔ اور یہ چیز آدمی کو تھوڑا سا سنگدل بھی بنا دیتی ہے۔ جس طرح ہم عام زندگی میں مفلسی، مظالم اور غلاظت کو دیکھتے دیکھتے اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور اسے برداشت کرنے لگتے ہیں اور سڑک کے کنارے مرے ہوئے آدمی کو وہیں پڑا چھوڑ کر گزر جاتے ہیں۔ بھوکے کو بھوکا دیکھ کر بھی خود کھاناکھاتے رہتے ہیں اسی طرح ادب میں بھی مسخ شدہ کرداروں کی تصویر کشی کرتے کرتے ادیب اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ بعض اوقات انتہائی مظالم اور بڑی سے بڑی ٹریجڈی بھی اسے متاثر نہیں کر سکتی۔
اسی وجہ سے منٹو نے اچھّے افسانوں کے ساتھ بُرے افسانوں کی بھی تخلیق کی ہے۔ اگر اس نے ایسی شاہکار کہانیاں لکھی ہیں، جیسے نیا قانون، ترقی پسند قبرستان،مُوتری، کھول دو، موذیل ، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ تو سجّاد ظہیر کے الفاظ میں ایسے ’’درد ناک مگر فضول‘‘ افسانے بھی جیسے بو اور ہتک اور ایسے چونکا دینے والے مگر مہمل افسانے بھی جیسے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘۔ جہاں اس نے انسان کا گوشت پتیلی میں پکوا دیا کبھی اس کی انسانیت اتنی لطیف ہو جاتی تھی کہ ریل میں بیٹھے ہوئے بچے کے دل کی دھڑکنوں کو سمجھ لیتا تھا جس کا باپ اس کے ساتھ کھیل نہیں سکتا اور کبھی منٹو میں اتنی کلبیت آجاتی تھی کہ اتنی بڑی ٹریجڈی کا مذاق اڑانے پر اُتر آتا تھا جیسے سن 47ء کے فسادات۔ وہ انسانی اعمال میں کھو کر ان سے دلچسپی لینے لگتا تھا اور محرکات سے غافل ہو جاتا تھا ایسا ادیب اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں بھی بیک وقت اتنا ہی نرم دل اور سنگ دل ہو سکتا ہے۔
پھر ایسا ادیب ایک فرد بن جاتا ہے۔ دوست اور دشمن دونوں سے الگ اور اس کی خودپسندی نہ اسے ترقی پسندوں کے ساتھ آنے دیتی ہے اور نہ رجعت پسندوں میں جانے دیتی ہے چنانچہ منٹو بھی ان دونوں سے الگ رہ کر فیصلے صادر کرنے کا عادی ہو گیا تھا اور یہ فیصلے افسانوں کا روپ اختیار کر لیتے تھے۔ وہ فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے، کبھی صحیح ، کبھی خوبصورت اور کبھی بدصورت۔
فنّی اعتبار سے منٹو اپنا جو اب آپ تھا۔ اس کی زبان میں جو سادگی اور پرکاری تھی، جو اثر تھا، کردار نگاری میں جو تیکھا پن، اور نوک پلک تک کا احساس تھا، پلاٹ میں جو گٹھاؤ تھا ،کہانی میں جو کہانی پن تھا اورسٹائل میں بلا کے طنز کی تلخی کے ساتھ جو شاعرانہ مٹھاس تھی وہ کسی کے پاس نہیں۔ وہ دو جملوں میں کردار بنا کر کھڑے کر دیتا تھا اور جس طرح چاہتا تھا کہانی کہتا تھا، اس کی کہانی پڑھ کر یہ احساس مشکل ہی سے ہوتا تھا کہ یہ پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ وہ ایسی معمولی اور عظیم معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی پہاڑی چشمہ بہہ رہا ہو یا درخت اُگا ہُوا ہو۔ اُس کا وجود بے چون و چرا تسلیم کرنا پڑتا تھا اور یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے، یہ فنکار کی پہچان ہے۔
وہ حسّاس تھا اس لیے دوبار پاگل خانے گیا۔ بے باک تھا اس لیے کئی بار عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، خود سر تھا اس لیے دشمنوں سے ٹکراتا رہا۔ غیور تھا اس لیے بھوکا مرتا رہا۔ ازل کا پیاسا تھا اس لیے شراب پیتا رہا اور زندہ رہنے کی تاب نہ لاسکا اس لیے مر گیا۔ لیکن فن کار تھا اس لیے مر کے بھی زندہ ہے!
آپ آخر میں پوچھیں گے وہ بدزبان کیوں تھا؟ اس لیے کہ اس سماج نے اس سے بدزبانی کی تھی، اور اس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں سے بدزبانی کی تھی۔ اس کی بدزبانی سے نقصان کم پہنچا ہے فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ منٹو کی بدزبانی ہمارے ادب کی عزیز متاع ہے جسے ہم زندہ رکھیں گے اور جو ہمیں زندہ رکھے گی۔
علی سردار جعفری کا سعادت حسن منٹو پر ایک مضمون
ہماری محفل سے اردو ادب کا سب سے بڑا بدزبان اُٹھ گیا اور محفل سونی ہو گئی۔ وہ ایسا بدزبان تھا جس پر خوش زبانوں اور پاکیزہ بیانوں کو رشک آسکتا ہے۔ بدزبان بہت ہوئے ہیں جنہیں ہمارا گندا اور گھناؤنا سماج ریگستان کی خار دار جھاڑیوں کی طرح پیدا کرتا ہے لیکن منٹو کو جو سلیقہ آتا تھا وہ کسی کو نصیب نہیں۔ اس نے کانٹوں سے پھول کھلائے تھے۔ اس نے بدزبانی کو ادب اور فن کا درجہ دے دیا تھا۔ جسے پڑھ کر کبھی غصہ آتا تھا کبھی پیار اور کبھی جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی تھی لیکن بے پڑھے رہا بھی نہیں جاتا تھا۔ کوئی پرچہ آیا اور منٹو کی تحریر سب سے پہلے پڑھنا شروع کر دی۔ اب کے اس نے کس کو گالی دی ہے، کس کو لتاڑا ہے، سماج کے کس پہلو کو بے نقاب کیا ہے، منٹو کی کوئی کتاب آئی اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی بیتابی پیدا ہوئی جیسے کسی معشوقہ کا انتظار کیا جا رہا تھا اور وہ یکایک بغیر اطلاع کے شہر میں آگئی ہے اور خدا کی خلقت اس کی طرف دوڑ رہی ہے اور آج وہ بدزبان چلا گیا ہے تو ساری خلقت رو رہی ہے۔ اب وہ کوئی افسانہ نہیں لکھے گا۔ اب اس کی کوئی کتاب نہیں آئے گی۔ اب کوئی خفا نہیں ہو گا۔ کوئی مقدمہ نہیں چلائے گا۔ اب پاگل خانے میں اتنا ذہین پاگل نہیں آئے گا، شراب خانے میں اتنا تلخ شرابی قدم نہیں رکھے گا۔ دوستوں کی محفل میں ایسا لڑ لڑ کر محبت کرنے والا نہیں بیٹھے گا۔ صرف اس بدزبان کی شگفتہ کلامی یاد رہے گی۔
منٹو ایک بے حد پیارے، انتہائی ذہین، مگرجھلائے ہوئے بچّے کی طرح تھا جسے اپنے باپ سے شکایت پیدا ہو گئی ہو، بھائیوں سے حسد ہو گیا ہو جس نے کسی چھوٹی یا بڑی نا انصافی پر بگڑ کر اپنے سارے کھلونے توڑ ڈالے ہوں اور پیار کرنے والی ماں کے گلے میں بھی، جس سے خود بھی اسے بے انتہا محبت رہی ہو، اپنی خود پسندی اور خود داری کی وجہ سے بانہیں ڈالنے میں تکلّف کیا ہو اور اب سب کو یہ دِکھا رہا ہو کہ مجھے ان کھلونوں سے کوئی رغبت نہیں۔ یہ بدصورت تھے۔ دیکھو کرسیاں کھلونوں سے زیادہ خوب صورت ہیں۔ میں پلنگ سے بھی کھیل سکتا ہوں۔ دیکھو اس خارش ذدہ کتّے کے دل میں تم سے زیادہ انسانیت ہے اور اس لنگڑی بِلّی میں تم سے زیادہ حسن ہے اور پھر یہ محسوس کر کے جیسے سب حیرت زدہ ہیں اور اس کی ان حرکتوں کو شوق سے دیکھ رہے ہیں جن میں اس کی ذہانت کی اپج ہے۔ وہ آپ ہی آپ مسکرا دیتا ہو۔ پھر بڑے ہو جانے کے بعد بھی اس میں یہی عادت باقی رہ گئی ہو اور وہ پورے سماج سے بدزبانی کر رہا ہو اور اپنا انتقام لے رہا ہو۔ یہ بدزبانی خال خال اردو اساتذہ کے یہاں بھی مل جاتی ہے اور بعض ادیبوں کا طرہّ امتیاز ہے لیکن منٹو نے اسے اس بلند سطح پر پہنچا دیا تھا جہاں سے اس نے اردو ادب کے بعض ایسے لافانی افسانوں کی تخلیق کی جن کا جواب کبھی نہیں پیدا ہو سکے گا۔ آنے والی نسلیں منٹو سے سیکھیں گی لیکن منٹو نہیں آئے گا۔ نئے ادیب منٹو سے یہ بھی سیکھیں گے کہ کیا لکھنا چاہیے اور کیسے لکھنا چاہیے اور یہ بھی سیکھیں گے کہ کیا نہیں لکھنا چاہیے اور کیسے نہیں لکھنا چاہیے، مگر ان میں سے کوئی منٹو کی طرح ٹیڑھا، تیکھا، تلخ، ترش اور شیریں نہیں ہو گا اور ماتم اسی کا ہے۔ منٹو نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء روسی اور فرانسیسی ادیبوں کے ترجموں سے کی جن کا اسلوب اور انداز فکر اس کی ابتدائی تحریروں میں نمایاں ہے۔ لیکن ان میں گورکی کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جو بورژوا عہد کی تنقیدی حقیقت نگاری سے آگے بڑھ سکا ہو۔ اس لیے منٹو کی ابتدائی ادبی ذہنی تشکیل اسی سانچے میں ہوئی۔
پھر وہ زمانہ بھی عجیب تھا۔ یورپ کی انحطاط پذیر سرمایہ داری بہت بڑے پیمانے پر فاشزم کا روپ اختیار کر رہی تھی اور بہت سے نوجوان باغیوں کو نراجیت کی طرف دھکیل رہی تھی۔ جو ادب اور آرٹ میں فرانسیسی دادا ازم اور سورِیلزم کی شکلیں اختیار کر رہی تھی۔ یہ نظریے اور تحریکیں دشمن کو نہ پہچاننے اور انسانیت کی تاریخی رفتار کو نہ سمجھنے سے پیدا ہو رہی تھیں اور ہندوستان کا سڑا ہوا جاگیرداری نظام جس پر بیرونی شہنشاہیت کی کوڑھ اوپر سے جمی ہوئی تھی، انقلابی جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ سیاسی دہشت پسندوں اور ادبی رومانی باغیوں کو بھی جنم دے رہا تھا اس لیے منٹو کی اس وقت کی ذہنی تشکیل میں جب آج سے بیس برس پہلے میں اس سے پہلی بار علی گڑھ میں ملا تھا، سب سے زیادہ اہم انقلابِ روس، جلیاں والا باغ، بھگت سنگھ، کروپائکن ، وکٹرہیوگو، گور کی اور روموناف کی ایک کتاب ’’Without Cherry Blossom‘‘ تھی اور گورکی کا اثر اس کے ابتدائی آوارہ گرد کرداروں کی حد تک تھا (شاید کچھ اور چیزیں رہی ہوں جن کا مجھے علم نہیں) اور ان سب کو منٹو نے اپنی ذاتی زندگی کی تلخیوں اور سماجی زندگی کی ناانصافیوں کے تلخ قوام میں گوندھنے کے بعد ایک نیا اور خالص اپنا قالب دیا جس کا نام افسانہ نگار سعادت حسن منٹو تھا۔ یہ اس کی اپنی اور صرف اپنی مکمل شخصیت تھی جو ہر چیز سے ٹکرا سکتی تھی، کسی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی تھی، کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتی تھی، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی تھی اور اپنا حق مانگنے سے بھی انکار کر سکتی تھی، بعد کے بیس سالوں میں نئے نئے اثرات آتے گئے، حالات کی پرچھائیاں پڑتی رہیں، گورکی، انقلاب روس، وکٹرہیوگو اور جلیاں والا باغ دبتے گئے، بھگت سنگھ، کروپائکن اور روموناف اُبھرتے گئے جن میں سن ۱۹۴۰ء کے بعد سومرسٹ ماہم بھی شامل ہو گیا۔ آپ بھگت سنگھ کی دہشت پسندی سے نظریاتی اور عملی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کی سامراج دشمنی اور حبِ الوطنی پر انگلی نہیں اُٹھا سکتے، اسی طرح آپ منٹو سے ادبی اور نظریاتی اختلاف کتنا ہی رکھیں، اُس کے خلوص، دیانت داری، انسانیت دوستی، حب الوطنی اور سامراج دشمنی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہ جاتی کہ منٹو اپنے سماج کے چیتھڑے اُڑا سکتا تھا، اس کی دھجیاں بکھیر سکتا تھا لیکن نہ تو اس کی تعمیر نو کر سکتا تھا اور نہ اس کی عریانی کو لباس دے سکتا تھا۔ وہ اس عہد کی تنقیدی حقیقت نگاری کا ایک بہت بڑا معجزہ تھااور ادبی دہشت پسندی کا کارواں سالار، اور اس تنقیدی حقیقت نگاری اور ادبی دہشت پسندی پر اُسے اُس کی شرافت نفس اور انسانیت دوستی اُکساتی رہتی تھی، چنانچہ سن 1940ء کے بعد اس نے اپنے افسانوں کی کامیابی کا یہ معیار بنا لیا تھا کہ جس پر سب سے زیادہ ہنگامہ ہو وہ اس کا کامیاب ترین افسانہ ہے۔ ایک بار اس نے غالباً سنہ 1945ء یا 46ء میں مجھ سے بمبئی میں کہا کہ
’’سردار، افسانہ لکھ کر مزا نہیں آیا، نہ کسی نے گالی دی نہ مقدمہ چلا۔‘‘
وہ بیدی کی طرح اپنے دکھیارے کرداروں کے دل میں اُتر کر انسانیت کے دل کی شرافت کی گواہی نہیں دے سکتا تھا، نہ عصمت چغتائی کی طرح معصوم گنہگاروں کے سروں پر ایسا آنچل ڈال سکتا تھا جو دامنِ مریم سے زیادہ پاکیزہ ہو، اور نہ کرشن چندر کی طرح ایک اُبلتے اور تڑپتے ہوئے سماج کی شاعرانہ حرکت کو قلم کی جنبش میں سمیٹ کر آنے والے خوبصورت مستقبل کا مژدہ سنا سکتا تھا۔ اسے دکھیاروں سے زیادہ مسخ شدہ روحوں سے دلچسپی تھی، صحتمندوں سے زیادہ مریضوں اور بیماروں کے دل ٹٹولنے میں مزا آتا تھا، آوارہ گردوں سے زیادہ اس کے ہیرو غنڈے اور لفنگے ہوتے تھے اور ان سب کو اٹھا کروہ سماج کے سر پر انڈیل دیتا تھا اور پھر اپنی تلخ ہنسی ہنستا تھا اور اگر کہیں اسے زہد و تقویٰ کا لبادہ نظر آجاتا تھا تو اسے یقین ہو جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا جھوٹا ہے اور وہ اس لبادے کو پاش پاش کر کے اس آدمی کو ننگا کر دیتا تھا۔
منٹو کے ہاتھ میں یہ سماج سڑی ہوئی پیاز کی گانٹھ کی طرح تھا جس کے چھلکے وہ بڑی نزاکت اور چابک دستی سے اُتارتا جاتا تھا اور یہ کہہ کہہ کر ہنستا جاتا تھا کہ دیکھو تمہارا سماج پیاز کے چھلکوں کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ گانٹھ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اس کے کچھ چھلکے ابھی تک باقی ہیں اور سخت اور ٹھوس چیز ہونے کا دھوکا دے رہے ہیں لیکن وہ انگلیاں جو بڑی فنکاری سے اس کے چھلکے اُتار سکتی تھیں آج قبر میں ٹھنڈی پڑی ہوئی ہیں اور ہر ادیب یہ خواہش کر سکتا ہے کہ کاش اس کی انگلیوں کا یہ جادو ایک دن ہی کے لیے نصیب ہو جاتا۔
منٹو کی عظمت اِس میں ہے کہ اس نے اس سماج کے سامنے اس کی ننگی تصویر لا کر کھڑی کر دی۔ اُس نے چکلوں سے، بازاروں سے، شراب خانوں سے، گھروں کی چار دیواری اور دفتروں سے، سماج کے تمام نہاں خانوں سے انسانی لاشوں کو باہر نکالا اور منظرِ عام پر کھڑے ہو کر کہا: ’’دیکھو یہ وہ جانور ہیں جو کبھی انسان تھے، لیکن منٹو کی ٹریجڈی اس میں تھی کہ وہ ان شکلوں کو نہ دیکھ سکا، جنہیں منظر عام پر لا کر وہ کہہ سکتا: ’’دیکھو یہ وہ انسان ہیں جو کبھی جانور تھے۔‘‘ وہ حقیقت کو اس کی مکمل اور اصلی شکل میں نہیں دیکھ سکا صرف ایک مسخ شدہ پہلو کو دیکھ کر احتجاج کر کے رہ گیا۔ اور یہ چیز آدمی کو تھوڑا سا سنگدل بھی بنا دیتی ہے۔ جس طرح ہم عام زندگی میں مفلسی، مظالم اور غلاظت کو دیکھتے دیکھتے اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور اسے برداشت کرنے لگتے ہیں اور سڑک کے کنارے مرے ہوئے آدمی کو وہیں پڑا چھوڑ کر گزر جاتے ہیں۔ بھوکے کو بھوکا دیکھ کر بھی خود کھاناکھاتے رہتے ہیں اسی طرح ادب میں بھی مسخ شدہ کرداروں کی تصویر کشی کرتے کرتے ادیب اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ بعض اوقات انتہائی مظالم اور بڑی سے بڑی ٹریجڈی بھی اسے متاثر نہیں کر سکتی۔
اسی وجہ سے منٹو نے اچھّے افسانوں کے ساتھ بُرے افسانوں کی بھی تخلیق کی ہے۔ اگر اس نے ایسی شاہکار کہانیاں لکھی ہیں، جیسے نیا قانون، ترقی پسند قبرستان،مُوتری، کھول دو، موذیل ، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ تو سجّاد ظہیر کے الفاظ میں ایسے ’’درد ناک مگر فضول‘‘ افسانے بھی جیسے بو اور ہتک اور ایسے چونکا دینے والے مگر مہمل افسانے بھی جیسے ’’سرکنڈوں کے پیچھے‘‘۔ جہاں اس نے انسان کا گوشت پتیلی میں پکوا دیا کبھی اس کی انسانیت اتنی لطیف ہو جاتی تھی کہ ریل میں بیٹھے ہوئے بچے کے دل کی دھڑکنوں کو سمجھ لیتا تھا جس کا باپ اس کے ساتھ کھیل نہیں سکتا اور کبھی منٹو میں اتنی کلبیت آجاتی تھی کہ اتنی بڑی ٹریجڈی کا مذاق اڑانے پر اُتر آتا تھا جیسے سن 47ء کے فسادات۔ وہ انسانی اعمال میں کھو کر ان سے دلچسپی لینے لگتا تھا اور محرکات سے غافل ہو جاتا تھا ایسا ادیب اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں بھی بیک وقت اتنا ہی نرم دل اور سنگ دل ہو سکتا ہے۔
پھر ایسا ادیب ایک فرد بن جاتا ہے۔ دوست اور دشمن دونوں سے الگ اور اس کی خودپسندی نہ اسے ترقی پسندوں کے ساتھ آنے دیتی ہے اور نہ رجعت پسندوں میں جانے دیتی ہے چنانچہ منٹو بھی ان دونوں سے الگ رہ کر فیصلے صادر کرنے کا عادی ہو گیا تھا اور یہ فیصلے افسانوں کا روپ اختیار کر لیتے تھے۔ وہ فیصلے کبھی غلط ہوتے تھے، کبھی صحیح ، کبھی خوبصورت اور کبھی بدصورت۔
فنّی اعتبار سے منٹو اپنا جو اب آپ تھا۔ اس کی زبان میں جو سادگی اور پرکاری تھی، جو اثر تھا، کردار نگاری میں جو تیکھا پن، اور نوک پلک تک کا احساس تھا، پلاٹ میں جو گٹھاؤ تھا ،کہانی میں جو کہانی پن تھا اورسٹائل میں بلا کے طنز کی تلخی کے ساتھ جو شاعرانہ مٹھاس تھی وہ کسی کے پاس نہیں۔ وہ دو جملوں میں کردار بنا کر کھڑے کر دیتا تھا اور جس طرح چاہتا تھا کہانی کہتا تھا، اس کی کہانی پڑھ کر یہ احساس مشکل ہی سے ہوتا تھا کہ یہ پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ وہ ایسی معمولی اور عظیم معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی پہاڑی چشمہ بہہ رہا ہو یا درخت اُگا ہُوا ہو۔ اُس کا وجود بے چون و چرا تسلیم کرنا پڑتا تھا اور یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے، یہ فنکار کی پہچان ہے۔
وہ حسّاس تھا اس لیے دوبار پاگل خانے گیا۔ بے باک تھا اس لیے کئی بار عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، خود سر تھا اس لیے دشمنوں سے ٹکراتا رہا۔ غیور تھا اس لیے بھوکا مرتا رہا۔ ازل کا پیاسا تھا اس لیے شراب پیتا رہا اور زندہ رہنے کی تاب نہ لاسکا اس لیے مر گیا۔ لیکن فن کار تھا اس لیے مر کے بھی زندہ ہے!
آپ آخر میں پوچھیں گے وہ بدزبان کیوں تھا؟ اس لیے کہ اس سماج نے اس سے بدزبانی کی تھی، اور اس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں سے بدزبانی کی تھی۔ اس کی بدزبانی سے نقصان کم پہنچا ہے فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ منٹو کی بدزبانی ہمارے ادب کی عزیز متاع ہے جسے ہم زندہ رکھیں گے اور جو ہمیں زندہ رکھے گی۔