بدیسی پیڑ

زیف سید

محفلین
سنو پیارے بچو، جہاں ہم کھڑے ہیں، یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔

یہاں آسماں ایسا شفاف تھا اس میں سب مہ جبیں اپنی صورت تکا کرتے تھے۔ اس کی گلیاں سرِ شام زلفوں کے عنبر سے رچتی تھیں، آب و ہوا معتدل اور کثافت سے عاری تھی۔ برسات کے موسموں میں یہاں سے وہاں شہر کے شہر میں سبزہ ہلکورے لے لے کے بچوں، بڑوں کے دلوں میں تراوٹ کے موتی کھلاتا تھا۔

لیکن خدا کا یہ کرنا ہوا اس خداداد بستی کے فرماں روا کو ولایت کی سوجھی۔ وہاں اس نے اک دن کسی پیڑ کی اک نہایت حسیں نسل دیکھی، بہت دل کو بھائی۔۔۔ وطن واپسی پر وہ اس پیڑ کی چند قلمیں بھی سامان میں رکھ کے لایا۔

ابھی چند ہی سال گزرے تھے، بستی کے باشندوں پر اک انوکھا مرض حملہ آور ہوا۔ رات دن چھینکتے چھینکتے، کھانستے کھانستے ہی گزرتے تھے۔۔۔ آنکھوں میں مرچیں سی بھر جایا کرتی تھیں۔۔۔ سینے سے سانسوں کے کانٹے نکلتے نہیں تھے۔

پھر اک روز تنگ آ کے کلہاڑیاں لے کے خلقِ خدا اس بدیسی حسین پیڑ کی فصل پر پِل پڑی۔ صبح سے شام تک۔۔۔ شام سے صبح تک۔۔۔ کاٹتے کاٹتے بانہیں شل ہو گئیں، کندھے سن ہو گئے۔

پر جہاں پیڑ کی شاخ گرتی۔۔۔ وہاں ایک اکھوا نیا پھوٹتا تھا۔۔۔

سو بچو، جہاں تم افق تا افق سبز کائی میں لپٹے کھنڈر دیکھتے ہو۔۔۔ یہاں آج سے سال ہا سال قبل ایک شہر ایسا آباد تھا جس کے چرچے زمانے کے وردِ زباں تھے۔
 
بظاھریھ تحریر اسلام آباد میں لگائے گئے بدیسی پیڑوں کی طزف اشازہ ہےلیکن بباطن ان کئی چیزوں کی نشاندھی کررھی ہے جنہوں ھماری ساری قوم کو پریشان کر رکھا ھے اور جن چاہتے ھوئے بھی پیچھا نہیں چھڑا پا رہے
 

زیف سید

محفلین
جناب ربانی صاحب، آپ نے صرف دو سطروں میں نظم کا بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ دوسروں کی اندھادھند تقلید کے نتائج اکثر اچھے نہیں نکلتے۔

آپ کا اور دیگر دوستوں کا شکریہ جنہوں نے نظم کو پسند کیا ہے۔

زیف
 

شمشاد

لائبریرین
جناب ربانی صاحب، آپ نے صرف دو سطروں میں نظم کا بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ دوسروں کی اندھادھند تقلید کے نتائج اکثر اچھے نہیں نکلتے۔

آپ کا اور دیگر دوستوں کا شکریہ جنہوں نے نظم کو پسند کیا ہے۔

زیف

لیکن نظم ہے کہاں؟ یا شاید میں ان پڑھ اس کو سمجھ ہی نہیں سکا۔
 

زیف سید

محفلین
لیکن نظم ہے کہاں؟ یا شاید میں ان پڑھ اس کو سمجھ ہی نہیں سکا۔

محترم شمشاد صاحب، آپ ہی پر موقوف نہیں، ربانی صاحب اور عائشہ صاحبہ نے بھی اسے نظم نہ کہتے ہوئے “تحریر“ کہا ہے۔اس بات سے قطعِ نظر کہ فی زمانہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں (بہ شمول فارسی، عربی اور ہندی) کی بیشتر شاعری نثری نظم کی صورت میں کی جا رہی ہے اور باوجود اس بات کے کہ انکل شیخ زبیر فرما گئے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے ۔۔۔ میں ریکارڈ کی درستی اور بعض نئے دوستوں کی سہولت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ یہ نظم اردو کی معروف ترین بحروں میں سے ایک یعنی بحرِ متقارب سالم میں لکھی گئی ہے۔ ملاحظہ کیجیئے:

سنو پیارے بچو جہاں ہم کھڑے ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

یہاں آج سے سالہاسال قبل ایک
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

یہاں آسمان ایسا شفاف تھا
فقیرانہ آئے صدا کر چلے

یہی نہیں بلکہ اس بحر میں بہت سے مشہور فلمی گانے بھی لکھے گئے ہیں، جیسے

پھر اک روز تنگ آ کے کلہاڑیاں لے
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی

(معصوم لڑکی اور کلہاڑی کو ایک جگہ اکٹھا کرنے پر معذرت!)

اسی طرح

کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
یوں ہی دل نے چاہا تھا رونا رلانا
زمانے کا دستور ہے یہ پرانا

وغیرہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ناچیز نظم صرف ایک لمبی سطر پر مبنی ہے، جس میں شروع سے آخر تک کہیں سانس نہیں ٹوٹتی اور اس کی تقطیع فعولن فعولن کی مسلسل تکرار سے کی جا سکتی ہے۔

آداب عرض ہے

زیف

پسِ نوشت: غالبا ً کہنے کی ضرورت نہیں لیکن احتیاطا ً عرض کر دوں کہ اساتذہ کے کلام سے مثالوں کا مقصد (خدانخواستہ) اس نظم کا ان سے تقابل نہیں بلکہ یہ گستاخی محض نظم کا وزن سمجھانے کی خاطر کی گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔

آزاد نظمیں اور نثری نظمیں پڑھی تو ہیں لیکن ایسی نظم پہلی دفعہ دیکھی اور پڑھی، اسی لیے آپ سے پوچھا تھا۔

ایکبار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ زیف، بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کم از کم یہ نظمیں مرتب کرلیں کہ ای بک بنائی جائے۔
 
Top